بیجنگ :غذائی تحفظ عوامی بہبود کی بنیاد ہے۔سی پی سی کی اٹھارہویں کانگریس کے بعد سے دیہی امورسے متعلق تیرہویں “نمبر 1 مرکزی دستاویز” جاری کی گئی جس میں “دیہی اصلاحات کو مزید گہرا کرنے اور دیہی احیاء کو جامع طور پر فروغ دینے” پر توجہ مرکوز کی گئی ہے ۔اس دستاویز نے چین کی زرعی اور دیہی ترقی کی سمت کو واضح کیا ہے ۔ 2025 کی نمبر 1 مرکزی دستاویز میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانے پر ایک بار پھر زور دیا گیا ہے، جس میں چاول ،سبزیوں اور کھانا بنانے کے تیل کی فراہمی جیسے معاملات کے حوالے سے اہم انتظامات کیے گئے ہیں۔
اگرچہ چین میں غذائی اجناس کی پیداوار مسلسل بڑھ رہی ہے اور 2024 میں اناج کی پیداوار 0.
7 ٹریلین کلوگرام سے تجاوز کر کے ایک تاریخی بلندی پر پہنچی ہے، لیکن مختلف خطرات اور چیلنجز اب بھی موجود ہیں۔ ایسی صورت حال میں، زرعی زمین کے تحفظ کے نظام، زرعی ٹیکنالوجی اور سازوسامان کی مضبوط سپورٹ اور غذائی پیداوار کی حمایت کے نظام کو بہتر بنانا، غذائی تحفظ کو یقینی بنانے میں کلیدی اقدامات ہیں۔دیہی ترقی کے فروغ کے لیے، دیہی اصلاحات کو مزید گہرا کرنے کی ضرورت ہے۔ زمین کی اصلاحات سے لے کر اجتماعی ملکیتی اصلاحات تک، سلسلہ وار اقدامات کا مقصد دیہی وسائل کے انتظام کو بہتر بنانا اور کسانوں کی آمدنی کو بڑھانا ہے۔ دیہی زمین کے ٹھیکے کے نظام کو مستحکم بنانے ، دیہی وسائل اور اثاثوں کا بہتر انتظام، سرمایہ کاری اور مالیاتی نظام کو جدید بنانے اور با صلاحیت افراد کی تربیت کے اقدامات سمیت “زمین، زر، اور افراد” جیسے تین کلیدی عناصر سے دیہی ترقی کی اندرونی قوت کو فعال کیا جائے گا ۔ اصلاحات کے ذریعے، دیہی علاقوں کے ” ڈیڈ ایسٹس ” فعال ہو جائیں گے اور شہر اور دیہات کے درمیان عناصر کا بہاؤ تیز ہو جائے گا جس سے دیہات کی پائیدار ترقی کو نئی توانائی ملے گی۔گزشتہ ایک سال میں، چین نے زراعت سے متعلق امور میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ غذائی اجناس کی پیداوار میں مستحکم اضافے کے علاوہ، کسانوں کی آمدنی میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اور دیہات کے بنیادی ڈھانچے اور عوامی خدمات کے معیار میں مسلسل بہتری آئی ہے۔ 2024 میں، دیہی باشندوں کی فی کس قابل خرچ آمدنی 23119 یوآن تک پہنچی جو 2023 کے مقابلے میں 6.3 فیصد اضافہ ہے۔ شہری اور دیہی باشندوں کی آمدنی کا فرق مزید کم ہو گیا ہے۔ اس میں، غربت سے چھٹکارا حاصل کرنے والی کاؤنٹیوں کے کسانوں کی فی کس قابل خرچ آمدنی میں اضافہ قومی اوسط سے زیادہ رہا اور غربت سے نکلنے والے لوگوں کے روزگار کا پیمانہ مستحکم رہا، جس سے غربت میں واپسی کے خطرے کو بڑے پیمانے پر روکا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ، دیہی علاقوں میں چاروں طرف پھیلی ہوئی سڑکیں، صاف پانی، اور گھر تک پہنچنے والی کوریئر خدمات جیسی حقیقی تبدیلیوں نے کسانوں کے معیار زندگی کو نمایاں طور پر بہتر اور دیہی ترقی کو مزید متحرک کیا ہے۔دیہی ترقی صرف معاشی ترقی تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس میں سماجی، ماحولیاتی، اور ثقافتی پہلو بھی شامل ہیں۔ نمبر 1 دستاویز میں پیش کردہ غذائی تحفظ اور غربت کے خلاف جنگ کے نتائج کو برقرار رکھنے سے لے کر، کاؤنٹیز میں صنعتوں کو مضبوط بنانے، دیہی تعمیر اور انتظام کو فروغ دینے اور وسائل کی ضمانت اور انتظام کے نظام کو بہتر بنانے تک،ان اقدامات نے دیہی ترقی کے لیے ایک مکمل فعال نظام کی تشکیل کی ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے، چین شہری اور دیہی فرق کو کم کرتے ہوئے ایک خوبصورت دیہات کی تعمیر کے لیے پرعزم ہے۔دیہی ترقی سے فائدہ اٹھانے والے صرف کسان نہیں۔ غذائی تحفظ سے لے کر دیہی ماحولیاتی بہتری اور پھر شہروں میں کام کرنے والے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ تک، دیہی ترقی کا تعلق پورے ملک کی ترقی اور تمام لوگوں کی زندگی سے ہے۔ اس لیے، دیہی احیاء کو اہمیت دینے کا عمل درحقیقت عوامی زندگی کو اہمیت دینا ہے، جو نہ صرف عوام کے لیے حکمرانی کے فلسفے کا عکاس ہے بلکہ چین کے خود انحصاری پر مبنی ذمہ دارانہ ترقی کے انداز کو بھی ظاہر کرتا ہے ۔پیچیدہ بین الاقوامی صورتحال میں، چین کا دیہی احیاء کو فروغ دینا نہ صرف اپنی ترقی کی بنیادوں کو مضبوط کر رہا ہے، بلکہ عالمی غربت کے خاتمے اور پائیدار ترقی میں چین کی دانش اور طاقت کا حصہ بھی ڈال رہا ہے۔ انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی مشترکہ تعمیر کےلیے، چین “جنوب-جنوب تعاون” اور “بیلٹ اینڈ روڈ” انیشی ایٹو کے تحت مختلف منصوبوں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ زرعی ٹیکنالوجی اور تخفیف غربت کے تجربات بھی بانٹ رہا ہے۔مثال کے طور پر ، افریقہ میں ہائبرڈ چاول کی کاشت کی ٹیکنالوجی کے فروغ نے مڈگاسکر کو چاول کی پیداوار میں نمایاں اضافہ کرنے میں مدد دی ہے اور پاکستان کے ساتھ زرعی صنعتی پارک کی تعمیر سے مقامی زرعی ترقی کو بھی تقویت ملی ۔ یہ اقدامات چین کے ذمہ دارانہ رویے کو ظاہر کرتے ہیں اور عالمی زرعی انتظام کے لیے چین کی جا نب سے حل بھی پیش کرتے ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ:
کی پیداوار
دیہی ترقی
کسانوں کی
کی ا مدنی
اور دیہی
نظام کو
کے نظام
رہا ہے
پڑھیں:
نیپال: روایتی ووٹنگ نہیں، سوشل میڈیا پر ہوگا وزیر اعظم کا انتخاب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا میں پہلی بار سوشل میڈیا کے ذریعے کسی وزیراعظم کا انتخاب ہوا ہے، اور یہ منفرد تجربہ جنوبی ایشیائی ملک نیپال میں سامنے آیا ہے۔
دنیا بھر میں حکمرانوں کا انتخاب عموماً پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈال کر یا پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ہوتا ہے، مگر نیپال میں سیاسی بحران اور عوامی مظاہروں کے بعد سابق چیف جسٹس سشیلا کارکی کو چیٹنگ ایپ ’’ڈسکارڈ‘‘ کے ذریعے عوامی ووٹنگ سے عبوری وزیراعظم منتخب کیا گیا۔ عوامی احتجاج اور حکومت کے مستعفی ہونے کے بعد جب اقتدار کا بحران پیدا ہوا تو نوجوان مظاہرین نے فیصلہ کیا کہ قیادت خود چنی جائے اور اس مقصد کے لیے ڈسکارڈ کو انتخابی پلیٹ فارم بنایا گیا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق، نیپال میں نوجوانوں نے ’’یوتھ اگینسٹ کرپشن‘‘ کے نام سے ایک ڈسکارڈ سرور بنایا جس کے ارکان کی تعداد ایک لاکھ 30 ہزار سے زیادہ ہو گئی۔ یہ سرور احتجاجی تحریک کا کمانڈ سینٹر بن گیا، جہاں اعلانات، زمینی حقائق، ہیلپ لائنز، فیکٹ چیکنگ اور خبریں شیئر کی جاتی رہیں۔ جب وزیراعظم کے پی شرما اولی نے استعفیٰ دیا تو نوجوانوں نے 10 ستمبر کو آن لائن ووٹنگ کرائی۔ اس میں 7713 افراد نے ووٹ ڈالے جن میں سے 3833 ووٹ سشیلا کارکی کے حق میں پڑے، یوں وہ تقریباً 50 فیصد ووٹ کے ساتھ سب سے آگے نکلیں۔
ووٹنگ کے نتائج کے بعد سشیلا کارکی نے صدر رام چندر پاوڈیل اور آرمی چیف جنرل اشوک راج سگدی سے ملاقات کی اور بعد ازاں عبوری وزیراعظم کے طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ مارچ 2026 میں عام انتخابات کرائے جائیں گے اور 6 ماہ میں اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کر دیا جائے گا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی اولین ترجیح شفاف الیکشن اور عوامی اعتماد کی بحالی ہوگی۔
خیال رہے کہ ڈسکارڈ 2015 میں گیمرز کے لیے بنایا گیا پلیٹ فارم تھا، مگر آج یہ ایک بڑے سوشل میڈیا نیٹ ورک میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس کا استعمال خاص طور پر جنریشن زیڈ میں مقبول ہے کیونکہ یہ اشتہارات سے پاک فیڈ، ٹیکسٹ، آڈیو اور ویڈیو چیٹ کے فیچرز فراہم کرتا ہے۔ نیپال میں اس پلیٹ فارم کے ذریعے وزیراعظم کا انتخاب جمہوری تاریخ میں ایک نیا اور حیران کن باب ہے جو مستقبل میں عالمی سیاست کے لیے بھی مثال بن سکتا ہے۔