سعودیہ عرب؛ سپریم کورٹ کی عوام سے رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کی اپیل
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
سعودی عرب میں سپریم کورٹ نے عوام سے اپیل کی ہے 28 فروری کو مغرب کے وقت ماہ رمضان کا چاند تلاش کریں۔
عرب میڈیا کے مطابق سعودی سپریم کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ 28 فروری کی شام کو چاند نظر آنے کی صورت میں قریبی عدالت میں شہادت جمع کرائیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ چاند کو کھلی آنکھ سے دیکھا جائے اور اسلامی اصولوں کے مطابق شہادت دی جائے۔
بیان میں ہدایت کی گئی ہے کہ قریبی عدالت کے ساتھ ساتھ چاند دیکھنے کی شہادتیں رویت کمیٹی کو بھی جمع کرائی جا سکتی ہیں۔
یہ خبر پڑھیں : 33 سال بعد رمضان میں قدرتی طور پر ایسا کیا ہونے جارہا ہے؟ جانیے
چاند نظر آنے کا حتمی اعلان شہادتوں کے جانچ پڑتال کے بعد عدالت کی جانب سے کیا جائے گا۔
ماہرین فلکیات نے امکان ظاہر کیا ہے کہ سعودی عرب میں 28 فروری کو رمضان نظر آسکتا ہے اور یکم رمضان مارچ کی پہلی تاریخ ہوگا۔
خیال رہے کہ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو 30 سال بعد ایسا موقع آئے گا جب اسلامی اور عیسوئی مہینوں کا آغاز ایک ہی تاریخ ہوگا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ
پڑھیں:
سپریم کورٹ ججز تبادلہ کیس: جسٹس نعیم اختر افغان کا 40 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری
سپریم کورٹ میں ججز کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق کیس میں جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد نے اختلافی نوٹ جاری کر دیا ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان کا تحریر کردہ اختلافی نوٹ 40 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں ججز کی مستقل منتقلی کو آئین کے آرٹیکل 200 کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت ٹرانسفر صرف عارضی ہو سکتا ہے، مستقل نہیں۔
صدر پاکستان نے ججز کے ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن بغیر شفاف معیار اور بامعنی مشاورت کے جاری کیا، جو غیر آئینی، بدنیتی پر مبنی اور غیر ضروری جلدی میں کیا گیا عمل تھا۔
جسٹس نعیم اختر افغان کے مطابق صدر کا یہ نوٹیفکیشن بے اثر ہے اور قانوناً اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ججز کا تبادلہ عدالتی آزادی اور تقرری کے آئینی طریقہ کار کے منافی ہے۔
اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی عدالتی امور میں مداخلت کے الزامات لگائے گئے تھے۔
خط میں دباؤ، بلیک میلنگ، غیر قانونی نگرانی اور سیاسی مقدمات میں فیصلے انجینئر کرنے کی کوششوں کا ذکر تھا۔
نوٹ میں کہا گیا کہ اسلام آباد میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ بھی ججز نے اپنے خط میں اٹھایا تھا اور چیف جسٹس سے عدالتی کنونشن بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔
اختلافی نوٹ کے مطابق ججز کے اسی خط کے بعد حکومت نے جلد بازی میں ان کی مستقل منتقلی کا فیصلہ کیا، جس کا مقصد اسلام آباد ہائیکورٹ کی آزادی کو متاثر کرنا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اختلافی نوٹ ججز تبادلہ کیس جسٹس نعیم اختر افغان سپریم کورٹ