رمضان المبارک کے موقع پر سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی ہدایت پر قیدیوں کی سزاؤں میں کمی کر دی گئی جس کے بعد کئی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔

عرب میڈیا کے مطابق سعودی وزارتِ داخلہ نے ان قیدیوں کے لیے معافی کے طریقۂ کار پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے، مرد اور خواتین قیدیوں کو رہا کر کے اہلِ خانہ میں واپس بھیجے جانے کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔

سعودی وزیرِ داخلہ شہزادہ عبدالعزیز بن سعود نے متعلقہ حکام کو سخاوت پر مبنی شاہی حکم پر فوری عمل درآمد کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔

دوسری جانب سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے ماہِ رمضان کی آمد کے موقع پر سعودی عرب کے شہریوں سے خطاب میں کہا ہے کہ ہم اللّٰہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم رمضان المبارک کے بابرکت مہینے تک پہنچ گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ رحمت، مغفرت اور جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے، ہم اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس مبارک ملک کو حرمین شریفین اور ان کی زیارت کرنے والوں کی خدمت کرنے کا موقع ملتا ہے۔

واضح رہے کہ سعودی عرب میں آج پہلا روزہ ہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

تاریخی سرخ لاری: سعودی عرب اور خلیج کی ثقافتی پہچان

سرخ رنگ کی مشہور لاری، جسے مقامی طور پر ’لاری‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، خلیجی ممالک اور خصوصاً سعودی عرب کی ایک اہم ثقافتی علامت بن چکی ہے۔ 1940 سے 1970 کی دہائی کے درمیان، جب سفر کے ذرائع محدود تھے اور حالات مشکل، تو اسی سرخ لاری نے نقل و حمل میں بنیادی کردار ادا کیا، ان لاریوں نے دور دراز دیہاتوں کو شہروں سے جوڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

سعودی پریس ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق مورخ عبداللہ الزہرانی کا کہنا ہے کہ اس دور میں مقامی باشندے اور حجاج کرام لمبے سفر کے لیے انہی لاریوں پر انحصار کرتے تھے، جو کئی دنوں پر محیط ہوتے تھے۔ ’ سرخ لاری نقل و حمل میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتی تھی، خاص طور پر خاندانوں اور بچوں کے لیے آرام دہ ذریعہ سفر کے طور پر۔‘

یہ بھی پڑھیں:

صرف مسافروں کی آمد و رفت ہی نہیں بلکہ ان لاریوں کی اقتصادی اہمیت بھی غیر معمولی تھی۔ ’یہ گاڑیاں کھانے پینے کی اشیاء کو بازاروں اور تجارتی مراکز تک پہنچاتیں، جبکہ تاجر کھجوریں، مصالحے، مویشی اور کپڑے جیسا سامان بھی ان کے ذریعے منتقل کرتے، جس سے دیہی تجارت کو فروغ اور خطے کی باہمی وابستگی کو تقویت ملی۔‘

طائف کے جنوبی دیہاتوں سے تعلق رکھنے والے مقامی شہری سالم الابدالی نے بتایا کہ ان کے والد ایک سرخ لاری چلاتے تھے، انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان لاریوں کا سرخ رنگ، ہاتھ سے بنایا گیا سن روف، دیودار کی لکڑی کے فرش اور ہاتھ سے سلی ہوئی کپڑے کی چھت، جو مسافروں کو موسم کی شدت سے بچاتی تھی، سب کچھ منفرد تھا۔

مزید پڑھیں:

سالم الابدالی کے مطابق، سرخ لاری اونٹوں کے بعد مقامی آبادی کے لیے سب سے اہم سفری ذریعہ تھی اور اس سے کئی داستانیں، تجربات اور سفر کے دوران گائے جانے والے لوک نغمے جُڑے ہوئے ہیں۔ بعض ڈرائیور تو دیہاتیوں کو مفت میں بھی سفری سہولت دیتے تھے، جو اس دور کی باہمی مدد اور سماجی یکجہتی کی اعلیٰ مثال تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

خلیج سرخ سعودی عرب لاری

متعلقہ مضامین

  • سعودی عرب میں ٹرین سے سفر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ
  • راجستھان میں اسکول کی عمارت گرنے سے 4 بچے جاں بحق، 40 ملبے تلے دب گئے
  • وزیرا عظم شہباز شریف یوم آزادی کے موقع پر الیکٹرک بائیکس اسکیم کا افتتاح کریں گے
  • سعودی عرب کا شام میں 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان
  • ( 9 مئی مقدمات) تحریک انصاف کا تمام سزاؤں کو چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • غزہ سے یوکرین تک تنازعات کے پرامن حل میں سفارتکاری کو موقع دیں، گوتیرش
  • تاریخی سرخ لاری: سعودی عرب اور خلیج کی ثقافتی پہچان
  • سلامتی کونسل میں مباحثہ ، پاکستان کی تنازعات کے پرامن حل سے متعلق قرارداد منظور
  • موقع نہیں ملے گا تو کھلاڑی صلاحیت کیسے منوائے گا، علی امین گنڈاپور
  • اسلام آباد کی عدالت نے علی امین گنڈا پور کو بیان قلمبند کرانے کیلئے ایک اور موقع دیدیا