سعودی عرب: رمضان المبارک کے موقع پر سزاؤں میں کمی، کئی قیدی رہا
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
رمضان المبارک کے موقع پر سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی ہدایت پر قیدیوں کی سزاؤں میں کمی کر دی گئی جس کے بعد کئی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔
عرب میڈیا کے مطابق سعودی وزارتِ داخلہ نے ان قیدیوں کے لیے معافی کے طریقۂ کار پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے، مرد اور خواتین قیدیوں کو رہا کر کے اہلِ خانہ میں واپس بھیجے جانے کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔
سعودی وزیرِ داخلہ شہزادہ عبدالعزیز بن سعود نے متعلقہ حکام کو سخاوت پر مبنی شاہی حکم پر فوری عمل درآمد کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔
دوسری جانب سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے ماہِ رمضان کی آمد کے موقع پر سعودی عرب کے شہریوں سے خطاب میں کہا ہے کہ ہم اللّٰہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم رمضان المبارک کے بابرکت مہینے تک پہنچ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ رحمت، مغفرت اور جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے، ہم اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس مبارک ملک کو حرمین شریفین اور ان کی زیارت کرنے والوں کی خدمت کرنے کا موقع ملتا ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب میں آج پہلا روزہ ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
تاریخی سرخ لاری: سعودی عرب اور خلیج کی ثقافتی پہچان
سرخ رنگ کی مشہور لاری، جسے مقامی طور پر ’لاری‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، خلیجی ممالک اور خصوصاً سعودی عرب کی ایک اہم ثقافتی علامت بن چکی ہے۔ 1940 سے 1970 کی دہائی کے درمیان، جب سفر کے ذرائع محدود تھے اور حالات مشکل، تو اسی سرخ لاری نے نقل و حمل میں بنیادی کردار ادا کیا، ان لاریوں نے دور دراز دیہاتوں کو شہروں سے جوڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
سعودی پریس ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق مورخ عبداللہ الزہرانی کا کہنا ہے کہ اس دور میں مقامی باشندے اور حجاج کرام لمبے سفر کے لیے انہی لاریوں پر انحصار کرتے تھے، جو کئی دنوں پر محیط ہوتے تھے۔ ’ سرخ لاری نقل و حمل میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتی تھی، خاص طور پر خاندانوں اور بچوں کے لیے آرام دہ ذریعہ سفر کے طور پر۔‘
یہ بھی پڑھیں:
صرف مسافروں کی آمد و رفت ہی نہیں بلکہ ان لاریوں کی اقتصادی اہمیت بھی غیر معمولی تھی۔ ’یہ گاڑیاں کھانے پینے کی اشیاء کو بازاروں اور تجارتی مراکز تک پہنچاتیں، جبکہ تاجر کھجوریں، مصالحے، مویشی اور کپڑے جیسا سامان بھی ان کے ذریعے منتقل کرتے، جس سے دیہی تجارت کو فروغ اور خطے کی باہمی وابستگی کو تقویت ملی۔‘
طائف کے جنوبی دیہاتوں سے تعلق رکھنے والے مقامی شہری سالم الابدالی نے بتایا کہ ان کے والد ایک سرخ لاری چلاتے تھے، انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان لاریوں کا سرخ رنگ، ہاتھ سے بنایا گیا سن روف، دیودار کی لکڑی کے فرش اور ہاتھ سے سلی ہوئی کپڑے کی چھت، جو مسافروں کو موسم کی شدت سے بچاتی تھی، سب کچھ منفرد تھا۔
مزید پڑھیں:
سالم الابدالی کے مطابق، سرخ لاری اونٹوں کے بعد مقامی آبادی کے لیے سب سے اہم سفری ذریعہ تھی اور اس سے کئی داستانیں، تجربات اور سفر کے دوران گائے جانے والے لوک نغمے جُڑے ہوئے ہیں۔ بعض ڈرائیور تو دیہاتیوں کو مفت میں بھی سفری سہولت دیتے تھے، جو اس دور کی باہمی مدد اور سماجی یکجہتی کی اعلیٰ مثال تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
خلیج سرخ سعودی عرب لاری