اسلام آباد کی عدالت نے علی امین گنڈا پور کو بیان قلمبند کرانے کیلئے ایک اور موقع دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, July 2025 GMT
اسلام آباد کی عدالت نے علی امین گنڈا پور کو بیان قلمبند کرانے کیلئے ایک اور موقع دیدیا WhatsAppFacebookTwitter 0 22 July, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)اسلحہ اور شراب برآمدگی کیس میں وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کا 342 کا بیان آج بھی ریکارڈ نہ ہوسکا، انٹرنیٹ کنکشن کے مسائل کے باعث بیان قلمبند نہ ہوسکا، عدالت نے علی امین گنڈاپور کے وارنٹ گرفتاری برقرار رکھتے ہوئے بیان قلمبند کرانے کا ایک اور موقع دیتے ہوئے کیس کی سماعت 24 جولائی تک ملتوی کردی۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جوڈیشل مجسٹریٹ مبشر حسن نے وزیرِ اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے خلاف اسلحہ اور شراب برآمدگی کیس پر سماعت کی۔عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ کیس آج سماعت کے لیے مقرر تھا، علی امین گنڈاپور کا 342 بیان ریکارڈ کرنا تھا، علی امین گنڈاپور کو عدالت حاضری کے لیے شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ وکیل صفائی نے کہا کہ علی امین گنڈا پور سرکاری کام کے باعث مصروف ہیں، خیبرپختونخوا میں بارش کے باعث وزیراعلی کی مصروفیات بتائی گئیں۔ وکیل صفائی نے بتایا کہ علی امین گنڈاپور 342 کا بیان ویڈیو لنک کے زریعے ریکارڈ کروانے کے لیے تیار ہیں۔
عدالتی حکم نامے کے مطابق 3 بجے کیس کی سماعت شروع ہوئی تو وکیل صفائی عدالت میں پیش ہوئے، وکیل صفائی نے ملزم کے نمبر اور زوم لنک عدالت کو مہیہ کیا جبکہ عدالتی اسٹاف نے کوشش کی لیکن انٹرنیٹ کنکشن نہیں بن پایا۔حکم نامے میں کہا گیا کہ وکیل صفائی کی جانب سے آن لائن بیان قلمبند کروانے کے بیان سے معلوم ہوتا ہے، علی امین گنڈاپور بیان ریکارڈ کروانا چاہتے ہیں، وکیل صفائی نے یقین دہانی کروائی ہے، آیندہ سماعت پر علی امین گنڈاپور 342 کا بیان قلمبند کروائیں گے، علی امین گنڈا پور کو 342 کا بیان قلمبند کروانے کے لیے ایک اور موقع فراہم کیا جاتا ہے، علی امین گنڈاپور کے وارنٹ گرفتاری برقرار رکھے جاتے ہیں وہ شوکاز نوٹس کا جواب جمع کروائیں۔
جوڈیشل مجسٹریٹ مبشر حسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت میں پیش ہو کر بیان ریکارڈ کروا لیں تو زیادہ اچھا ہے، علی امین گنڈا پور تو وزیراعلی ہیں، آپ کے لیے کیا مسئلہ ہوسکتا ہے۔بعد ازاں عدالت نے علی امین گنڈاپور کے خلاف کیس کی سماعت 24 جولائی تک ملتوی کردی گئی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربھارت کا پے در پے حادثات کے بعد مِگ 21طیاروں کو ہمیشہ کیلئے غیرفعال کرنے کا فیصلہ بھارت کا پے در پے حادثات کے بعد مِگ 21طیاروں کو ہمیشہ کیلئے غیرفعال کرنے کا فیصلہ چیئرمین سی ڈی اے کی زیر صدارت اجلاس،مجموعی کارکردگی، ترقیاتی منصوبوں پر اب تک ہونے والی پیش رفت کا جائزہ نومئی مقدمات میں سرگودھا کی عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں، بیرسٹر عقیل ملک خیبرپختونخوا کی سینیٹ نشستوں پر اپوزیشن کیساتھ معاہدہ بانی پی ٹی آئی کا نہیں تھا، سلمان اکرم راجہ اسپیکر پنجاب اسمبلی کے حکم پر اپوزیشن کے 26معطل ارکان کو بحال کر دیا گیا قلات میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں فتنہ الہندوستان کے 8دہشت گرد ہلاکCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: عدالت نے علی امین گنڈا علی امین گنڈاپور کے علی امین گنڈا پور وکیل صفائی نے ایک اور موقع اسلام آباد کی عدالت پور کے کے لیے پور کو
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
اسلام آ باد:این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی بازیابی کا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا۔ا س سلسلے میں آج ہونے والی سماعت میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔
لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے عثمان کی بازیابی سے متعلق ان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف کرپشن کیس کا مقدمہ درج، گرفتاری ، جسمانی ریمانڈ اور 161کا بیان بھی قلمبند ہوچکا ہے ۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کا تحریری بیان بھی آچکا ہے کہ وہ خود انکوائری کی وجہ سے روپوش تھا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی۔ عثمان کا 161 کا بیان بھی آچکا ہے، جس میں اس نے کہا وہ خود روپوش تھا ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل رضوان عباسی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اتنا آسان نہیں ہوتا درخواست کو نمٹانا ۔ 15 روز غائب رکھا گیا ۔ اس عدالت نے بازیابی کا حکم دیا تو ان کے پر جل گئے اور ایف آئی آر درج کرکے لاہور پیش کردیا گیا ۔ انہوں نے عثمان کو ہائی کورٹ میں پیش کرنے اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی۔
جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ کیسے طلب کریں؟ اب تو ایف آئی آر ہوچکی ہے، بندہ جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ عثمان ہے بھی لاہور کا رہائشی، یہاں کیسے طلب کریں ؟۔
وکیل نے بتایا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ اغوا کاروں کی ویڈیو بھی اسلام آباد کی موجود ہے۔ درخواست گزار کی اہلیہ بھی ڈر سے تاحال غائب ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے بندہ اغوا ہوتا ہے۔ 15 دنوں بعد گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 20 منٹ میں انکوائری کو ایف آئی آر میں تبدیل کیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ پولیس حقائق جانتی تھی لیکن عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ اگر اس نے جرم کیا تھا تو پھر اس کو اغوا کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ صاف کاغذ پر پہلے عثمان کے دستخط کروائے گئے پھر بیان خود لکھا گیا۔ جو بیان ہاتھ سے لکھا گیا وہ عثمان کی ہینڈ رائٹنگ ہی نہیں ہے۔ اگر اس کا بیان لکھا گیا تو پھر اس کے اغوا کا مقدمہ کیوں درج کیا تھا ۔ ویڈیوز موجود ہیں جس میں 4 لوگوں نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔
وکیل نے کہا کہ یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں ہے۔ بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ بندہ اٹھا لیا جاتا ہے پھر گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 15 دن غیر قانونی طور پر کسٹڈی میں رکھنے کے بعد گرفتاری ڈالی گئی۔ ڈی جی ایف آئی اے کے پاس کون سی اتھارٹی ہے کہ وہ کسی کو اغوا کروائیں۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت میں کہا کہ عثمان نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے لیے ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عثمان نے 15 کروڑ رشوت لی یا 50 کروڑ ۔ پھانسی دے دیں لیکن قانون کے مطابق کارروائی کریں ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ عثمان کے خلاف انکوائری بھی چل رہی ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔