Express News:
2025-04-25@07:47:40 GMT

شخصیت سازی میں تعلیمی اداروں کا کردار

اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT

ہر بچے کی شخصیت سازی میں اُس کے اسکول کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ ماں کی گود کو بچے کی پہلی درسگاہ کا درجہ حاصل ہے لیکن جدید دور کے بچے عمومی طور پر ماں کی گود والی درسگاہ سے محروم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کوئی بچہ بڑے ہو کرکیسا انسان بنے گا، اس بات کا تعین دراصل اُس کے تعلیمی ادارے کا معیارکرتا ہے۔

 معاشرے کو مہذب بنانا اور وہاں بسنے والے افراد کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھنا ایک مکتب کا اولین فرض ہے لیکن پیسہ فرائض کو بھلانے کی طاقت باخوبی رکھتا ہے۔ تعلیم فراہم کرنا ایک مقدس فعل ہے مگر علم کی سودے بازی ہرگز قابلِ قبول عمل تصور نہیں کی جاسکتی ہے۔

ایک ماں کی نظر میں جس طرح اُس کے تمام بچے برابر ہوتے ہیں، بالکل ویسے ہی استاد کے لیے بھی اُس کے سارے طالبِعلم برابر ہونے چاہیئیں،کیونکہ کسی بھی استاد کی جانب سے طالب علموں کے درمیان بھید بھاؤکی کوئی گنجائش نہیں نکلتی ہے۔

دورِ حاضر میں تقریباً تمام اسکولوں کا ایک خاص چلن بن چکا ہے کہ اپنے ادارے کے ذہین بچوں پر خاص توجہ مرکوزکرنا اور اوسط درجے والے طالبِ علموں کو اپنے دستِ شفقت سے محروم رکھنا۔

یہ سارا کھیل دراصل نمبروں کا ہے، چھوٹی جماعتوں سے ہی تیز ذہن رکھنے والے طلبا وطالبات کی ایک فوج اس مقصد سے تیارکی جا رہی ہوتی ہے کہ وہ وقت آنے پر بورڈ کے امتحانات میں شاندار نمبروں سے کامیابی حاصل کر کے اپنے اسکول کو شہر کا بہترین تعلیمی ادارہ ہونے کا اعزاز دلوانے میں اہم کردار ادا کریں گے، جس کو بھرپور طریقے سے استعمال کر کے ہمارے معاشرے کے اُن والدین کی توجہ اپنے ادارے کی جانب مبذول کروائی جاسکے جو اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے کافی فکرمند ہیں۔

جب والدین کسی تعلیمی ادارے کی کارکردگی سے پوری طرح مطمئن ہونگے تو اُن کا بچہ ظاہر ہے اُسی ادارے کا حصہ بنے گا اور پھر وہ بچہ اپنے ہمراہ کئی اور بچے لے کر آئے گا جس کے باعث اُس اسکول کی چاندنی ہو جائے گی اور اسکول کے مالکان پر پیسوں کی بارش۔ عقل و فہم کے حوالے سے مالا مال طالب علموں پر استاد کی تھوڑی توجہ بھی بہت کا کام کرتی ہے جب کہ اصل توجہ کی ضرورت کمزور ذہن والے بچوں کو ہوتی ہے مگر بڑوں کی لالچ نے بچوں کے ذہنوں کو چھوٹی عمر سے ہی برتری اور کمتری کے احساس سے متعارف کروا دیا ہے۔

 استاد کی شخصیت اُس کے شاگرد کے لیے مثالی ہوتی ہے اور جب وہی مثالی شخصیت اپنے مخصوص طالب علموں پر فریفتہ ہوگی تو خاص توجہ پانے والے طالبِ علم خود کو اعلیٰ تصورکرنے لگیں گے جب کہ نظر انداز ہونے والے بچے احساسِ کمتری کا شکار ہو جائیں گے اور یہ بات دونوں طرح کے بچوں کی تربیت کے عمل کو بری طرح متاثرکرنے کے لیے کافی ہے۔

آج کی دنیا جہاں بیشمار مسائل سے دوچار ہے، وہیں ذہنی بیماریوں کا وار بھی انسانوں پر تیزی سے جاری و ساری ہے۔ ہم یہ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ زمانہ حال بہت سارے حوالوں سے انسان کی ذہنی نشوونما کو متاثر کررہا ہے مگر ساتھ ہم اُن عوامل کو دیکھنے سے کیوں قاصر ہیں جو ہمارے ذہنوں پر مسلسل بوجھ بڑھا رہے ہیں۔

انسان کے اندر ذہنی الجھنوں کے بیج اُس کے بچپن کے ناقابلِ فراموش واقعات و حادثات پیدا کرتے ہیں جو اُس کے جسم میں عمرکے ساتھ ساتھ بیج سے پودے اور پودے سے تناور درخت کی شکل اختیارکرلیتا ہے۔ کسی فرد کی انجانے میں کی جانے والی معمولی حرکت سامنے والے کے لیے کتنی بڑی اذیت ثابت ہو رہی ہوتی ہے، اس کا علم شاید ہی اُس فرد کو ہوتا ہو مگر سامنے والے کا کرب اُس کی زندگی میں آنے والی خوشیوں میں رکاوٹ ڈالنے کی وجہ باآسانی بن سکتا ہے۔

تعلیم کا ذکر ہمیشہ تربیت کے ہمراہ ہوتا ہے کیونکہ ایک کے بغیر دوسرا بالکل ادھورا سمجھا جاتا ہے، موجودہ دورکی تعلیم ہر لحاظ سے ماضی کے مقابلے میں جدید اور بہترین ہے مگر تربیت کا اس میں شدید فقدان پایا جاتا ہے جو اس کی شان کو گھٹا کر بے مول کردیتا ہے۔ یہ کوئی پچھلی صدی کی بات نہیں ہے جب درسگاہیں اپنے طالبِ علموں کی علمی پیاس بجھانے کے ساتھ اُنھیں معاشرے میں اٹھنے، بیٹھنے اور بول چال کے آداب سکھانے کے علاؤہ ہنرمند بھی بناتی تھیں۔

آج کے ماڈرن والدین اپنے بچوں کو بااخلاق بنانے کی ذمے داری مہنگے اور اعلیٰ معیار والے اسکولوں پر لگا کر خود بری الزمہ ہو جاتے ہیں اور اسکول والوں کی نظر میں بچے کا با ادب ہونا ثانوی حیثیت رکھتا ہے اُن کو مطلب صرف اپنے ادارے میں زیرِ تعلیم بچوں کے قابلِ تحسین رزلٹ اور زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے مختلف طریقے ایجاد کرنے سے ہے۔ بچہ اگر اپنی ذہانت کے جھنڈے گاڑ رہا ہو اور فرفر انگریزی بول رہا ہو تو پھر وہ تمیز دار ہو یا بدتمیز اُس کے والدین اور اسکول کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے مگر معاشرے کو اُس کی تربیت سے بے انتہا فرق پڑتا ہے۔

بچپن میں سیکھی ہوئی اچھی، بری باتیں انسان کی شخصیت کے مثبت یا منفی ہونے پر مختص ہوتی ہیں۔ وقت رہتے اگر بچوں کو سیدھی راہ نہ دکھائی جائے اور اُن کو اچھے، برے کی پہچان نہ کروائی جائے تو اس کا خمیازہ صرف ایک فرد یا گھرانے کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو بھگتنا پڑتا ہے۔

آج کل ہم اپنے اردگرد جس طرح پڑھے، لکھے گھرانوں کے ہونہار سپوتوں کو عجیب و غریب قسم کی کوئی مخلوق بنتے دیکھ رہے ہیں اُس کی واحد وجہ تربیت کے بغیر تعلیم کا حصول ہے۔ کسی بھی قوم کے روشن مستقبل کا دار و مدار اُس کے تعلیمی اداروں کی کارکردگی پر مبنی ہوتا ہے۔ جس قوم کی درسگاہیں بِنا تفریق اپنا کام سچی لگن سے انجام دیں گی وہاں کے معاشروں کی باگ ڈور تعلیم و تربیت کی چاشنی سے تیار نوجوان نسل کے ہاتھوں میں ہوگی جو کہ دنیا کے ہر کونے میں لازوال ترقی کی شرط تصور کی جاتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: طالب علم ہوتا ہے ہوتی ہے ہے مگر کے لیے

پڑھیں:

طعنہ دینے والے ہمارے ووٹوں سے ہی صدر بنے ،بلاول کی حکومت پر سخت تنقید سے متعلق رانا ثنا کا ردعمل

طعنہ دینے والے ہمارے ووٹوں سے ہی صدر بنے ،بلاول کی حکومت پر سخت تنقید سے متعلق رانا ثنا کا ردعمل WhatsAppFacebookTwitter 0 22 April, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز)پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی حکمران جماعت مسلم لیگ(ن)پر سخت تنقید کے بعد وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ کا بیان سامنے آگیا۔
اپنے ایک بیان میں وزیراعظم کے مشیر برائے بین الصوبائی رابطہ و سیاسی امور رانا ثنااللہ نے کہا کہ بیان دینے کی ایک حد ہونی چاہیے، دوسروں کی عزت و احترام ہونا چاہیے، جنہیں طعنہ دے رہے ہیں، ان ہی کے ووٹوں سے صدر منتخب ہوئے ہیں۔رانا ثنااللہ نے کہا کہ سندھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، سندھ کا ایک بوند بھی پانی چوری کا ارادہ نہیں، سندھ حکومت بات کرنے کو تیار ہے ، یہ بات وزیراعظم کے نوٹس میں لائی گئی ہے اور وزیراعظم اس معاملے پر مناسب فیصلہ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ بلاول نے جلسہ عام سے جوبات کی وہ جوش خطابت میں کی، جوش خطابت میں بہت ساری باتیں ہوجاتی ہیں، بلاول نے جو کچھ کہا اس پر رد عمل دینے کی ضرورت نہیں لیکن بیانات ایک دائرے میں ہونے چاہئیں، دوسروں کی عزت و احترام ہونا چاہیے۔رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف اپنے معاملات بہترکرے، جیل کے عملے سے تعاون کرے، جن لوگوں کا نام فہرست میں ہو وہی ملاقات کے لیے جائیں، دیگر رہنما اڈیالہ کیوں پہنچ جاتے ہیں؟۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرنہروں کا معاملہ،خیبرپختونخوا حکومت چشمہ رائٹ کینال منصوبے کیلئے متحرک ہوگئی نہروں کا معاملہ،خیبرپختونخوا حکومت چشمہ رائٹ کینال منصوبے کیلئے متحرک ہوگئی لیگی وزرا بیان بازی کر رہے ہیں، نواز اور شہباز اپنے لوگوں کو سمجھائیں، شرجیل میمن پی ٹی آئی گِدھوں کے قبضے میں ہے، اثاثے اور اکاونٹس منجمد کیے جائیں، اکبر ایس بابر آئی ایم ایف کا دباو، وفاق سے صوبائی نوعیت کے ترقیاتی منصوبے ختم کرنے کا مطالبہ انٹرا پارٹی انتخابات: بیرسٹر گوہر سنی اتحاد کونسل میں تھے، پی ٹی آئی سربراہ کیسے بنے؟ الیکشن کمیشن عمران خان کی 9 مئی کے 8 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں کی کاز لسٹ منسوخ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • بھارت نے اپنے اقدامات سے پاکستان کو تحریری آگاہ کر دیا
  • پنجاب پولیس کے میٹرک پاس بچوں کیلئے مفت اسکلز ڈیولپمنٹ کورسز کا فیصلہ
  • نازیبا ویڈیوز کی تشہیر پر کریک ڈاؤن، لاہور میں پیکا ایکٹ کے تحت 23 مقدمات درج
  • والدین اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لازمی لگوائیں: مریم نواز
  • امریکہ کی اہم شخصیت نے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کر دیا
  • پنجاب: تعلیمی اداروں میں داخلے کیلئے تھیلیسیمیا اور دیگر جینیٹک امراض کا ٹیسٹ لازمی قرار
  • تعلیمی اداروں میں داخلے سے قبل طلبہ کا تھیلیسیمیا سمیت جینیٹک امراض کا ٹیسٹ لازمی قرار
  • پنجاب؛ تعلیمی اداروں مع دینی مدارس میں داخلے کے وقت طلبا کا تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی قرار
  • مدارس سمیت پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے تھیلیسیمیا اور دیگر جینیٹک لازمی قرار
  • طعنہ دینے والے ہمارے ووٹوں سے ہی صدر بنے ،بلاول کی حکومت پر سخت تنقید سے متعلق رانا ثنا کا ردعمل