خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ کے معروف علاقے اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ میں جمعہ کو خودکش دھماکے میں جامعہ کے نائب مہتمم مولانا حامد الحق حقانی سمیت 8 افراد شہید ہو گئے ہیں جب کہ 20 سے زائد شدید زخمی ہوگئے۔
میڈیا کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ مولانا حامد الحق دارالعلوم حقانیہ کی مسجد سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اپنی رہائش گاہ جارہے تھے تو مسجد کے خارجی دروازے کے قریب ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا ، مولانا حامد الحق حقانی اور وہاں موجود لوگ شدید زخمی ہوئے۔
مولانا کو نازک حالت میں اسپتال لے جایا گیا جہاں وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ دارالعلوم حقانیہ کی مسجد میں چونکہ جمعہ کو بہت زیادہ رش ہوتا ہے، اس وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ دارالعلوم حقانیہ کے ارد گرد جمع ہوگئے جس کی وجہ سے جی ٹی روڈ پر ٹریفک کا نظام بھی درہم برہم رہا، ایک سینیئر پولیس افسر کے حوالے سے میڈیا نے بتایا ہے کہ دھماکا خودکش حملہ آور نے مولانا حامد الحق کو ٹارگٹ کر کے خود کو دھماکے سے اڑایا ہے۔
یہ خودکش حملہ مسجد کے ساتھ ملحقہ ایریا میں کیا گیا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مدرسہ میں سیکیورٹی کے لیے 23 پولیس اہلکار ڈیوٹی پر تعینات تھے جب کہ مولانا حامد الحق کی سیکیورٹی کے لیے بھی چھ پولیس اہلکار تعینات تھے۔
یہی وجہ ہے کہ زخمیوں میں چار پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ مدرسہ کے داخلی دروازوں پر مدرسہ انتظامیہ کی بھی سیکیورٹی موجود تھی۔ اس کے باوجود خودکش حملہ آور کا مدرسے کے اندر تک چلے جانا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ مولانا حامد الحق حقانی شہید کی نماز جنازہ ہفتے کو اکوڑہ خٹک میں ادا کر دی گئی، انھیں اپنے والد مولانا سمیع الحق شہیدکے پہلو اور اپنی والدہ کے قدموں میں دفن کیا گیا ہے۔
مولانا حامد الحق جے یو آئی سمیع الحق گروپ کے سربراہ بھی تھے۔ وہ اپنے والد مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد جے یو آئی سمیع الحق گروپ کے سربراہ بنے تھے۔ ان کے والد مولانا سمیع الحق نامور عالم دین تھے۔ مولانا سمیع الحق کے والد کا نام مولانا عبدالحق تھا، وہ بھی خیبرپختونخوا کی بہت بڑی مذہبی شخصیت تھے، انھوں نے اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ کی بنیاد رکھی تھی۔
دارالعلوم حقانیہ کو افغان جہاد کے برسوں میں شہرت حاصل ہوئی، اس مدرسے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں سے ہزاروں افغان طالبان نے دینی تعلیم حاصل کی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کی مولانا سمیع الحق کے ساتھ بڑی گہری وابستگی تھی اور مولانا سمیع الحق طالبان کے ’’باپ‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔
اخباری خبر میں بتایا گیا ہے کہ ماضی میں ایک بار مولانا سمیع الحق نے ملا عمر کو اپنے بہترین طالب علموں میں سے ایک قرار دیا تھا اور انھیں ایک ’’فرشتہ نما انسان‘‘ کہا تھا۔ مولانا سمیع الحق متحدہ مجلس عمل کے بانی رہنماؤں میں شامل اور دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ بھی تھے۔
انھوں نے متحدہ دینی محاذ کی بھی 2013میں بنیاد رکھی تھی۔ وہ دو مرتبہ پاکستان کے ایوان بالا کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔ مولانا سمیع الحق کے تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا میں پہلی صوبائی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات تھے تاہم بعد میں سینیٹ انتخابات میں ٹکٹ نہ دیے جانے پر ان کے تحریک انصاف کے ساتھ اختلافات کی خبریں بھی آئی تھیں۔
مولانا سمیع الحق کی شہادت کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا حامد الحق ان کے سیاسی ومذہبی جانشین تھے۔ اخبار کی خبر میں ہی بتایا گیا ہے مولانا حامد الحق نے اپنے والد کے قتل کے بعد کہا تھا کہ افغان حکومت اور مختلف طاقتوں کی جانب سے والد کو خطرہ تھا کیونکہ والد صاحب افغانستان کو امریکا کے تسلط سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔
مولانا حامد الحق کے اس سیاسی ومذہبی پس منظر سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ ایسی شخصیت تھے، جوکئی گروپوں کا ٹارگٹ ہو سکتے ہیں۔ بہرحال اب چونکہ تحقیقات جاری ہیں، جب تک تحقیقاتی رپورٹ سامنے نہیں آتی تو فی الحال قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس قتل کے پیچھے کوئی گروپ تھا یا نہیں۔
البتہ میڈیا نے سیکیورٹی ذرایع کا حوالہ دے کر بتایا ہے کہ اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ میں خود کش حملہ فتنہ الخوارج اور ان کے سر پرستوں کی مذموم کارروائی ہے ، ابتدائی اطلاعات کے مطابق خود کش حملہ فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں نے کیا جس میں مولانا حامد الحق حقانی کو نشانہ بنایا گیا ،مولانا حامد الحق حقانی نے گزشتہ ماہ رابطہ عالم اسلامی کے تخت ہونے والی کانفرنس میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے واضح اور دو ٹوک مؤقف اختیار کیا تھا، سیکیورٹی ذرایع کے مطابق مولانا حامد الحق نے خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کو بھی خلاف اسلام قرار دیا تھا۔ اس بیانیے پر انھیں دھمکیاں بھی دی گئی تھیں، نماز جمعہ کے دوران دھماکا اس بات کی غمازی کرتا ہے کے فتنہ الخوارج، ان کے پیروکاروں اور سہولت کاروں کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔
مولانا حامد الحق کی خودکش حملے میں شہادت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خیبرپختونخوا کے حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔ کرم کی صورت حال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اگر کرم کے حالات پر شروع میں ہی سخت گیر پالیسی اختیار کی جاتی اور وہاں شرپسند اور دہشت گرد عناصر کے خلاف بھرپور ایکشن لیا جاتا تو شاید خیبرپختونخوا میں جاری دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی آجاتی۔
کرم ہی نہیں بلکہ کرک اور بنوں، کوہاٹ وغیرہ میں بھی بدامنی اور دہشت گردی کے خلاف عوامی مظاہرے ہوتے رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان معاملات پر بھی آنکھیں بند رکھی گئیں۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ صوبے کی صورت حال دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں بھی دہشت گردوں کے لیے پناہ گاہیں موجود ہیں اور وہاں بھی ان کے سہولت کار اپنا کام کر رہے ہیں۔ نرم حکومتی رٹ اور عزم کی کمزوری کے باعث دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کھل کھیلنے کا بھرپور موقع مل رہا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ دارالعلوم حقانیہ کی اپنی سیکیورٹی بھی خاصی سخت ہے۔ اتنی سخت سیکیورٹی کے باوجود خودکش حملہ آور کا مولانا حامد الحق تک پہنچ جانا، اندرونی سیکیورٹی لیپس کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ بغیر اندرونی سہولت کاری کے خودکش جیکٹ پہن کر کسی شخص کا آزادانہ طور پر سیکیورٹی بیریئر سے گزرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ چند ٹکوں کی خاطر جاسوسی اور سہولت کاری کرنے والوں کی کسی بھی ملک میں کمی نہیں ہوتی۔ اسی طرح پاکستان کے مختلف شہروں اور علاقوں میں بھی ایسے شخص موجود ہیں جو کسی بھی لالچ میں آ کر کسی کی جان کا سودا کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں فسادات پیدا کرنا، پاکستان میں انارکی پیدا کرنا اور پاکستان کی معیشت کو برباد کرنا کن قوتوں کی آرزو، تمنا اور مفادات کا تقاضا ہے، اس کے بارے میں بھی خاصے واضح اشارے موجود ہیں۔ ملک کے پالیسی سازوں کو بھی صورت حال کا خاصی حد تک اندازہ ہے۔
پاکستان کے عوام کا تقاضا ہے کہ ایسے شرپسند عناصر کی سرکوبی کیے بغیر ملک کی معیشت بحال ہو سکتی ہے اور نہ ہی داخلی استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ دہشت گردوں کے اندرونی سہولت کاروں، ان کے کیریئرز، ان کے فنانسرز اور ہینڈلرز کے خلاف ٹارگٹڈ اور نتیجہ خیز کارروائی کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت بن گئی ہے۔
افغانستان کی حکومت کا منفی کردار بھی اب ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے۔ پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں کے پار جو حالات ہیں، ان کے اثرات سے بچنے کے لیے پاکستان کو اپنی سرحدوں کی سخت نگرانی کرنے اور سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں موجود افغانستان کے باشندوں کا مزید قیام ملک کی سالمیت اور استحکام کے لیے اچھا نہیں ہے۔
ویسے بھی اب کسی بھی افغان شہری کا پاکستان میں بطور مہاجر اور پناہ گزین قیام نہ سمجھ آنے والی بات ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے مربوط اور ٹھوس قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے ہاں امن ہے اور افغانستان کی معیشت ترقی کر رہی ہے۔
ایسی صورت میں افغانستان کی حکومت کو اپنے شہریوں کو واپس لینے میں لیت ولعل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی پاکستان میں موجود افغان مہاجرین اور پناہ گزینوں کی قیادت کو پاکستان میں قیام کی ضد کرنی چاہیے۔ پاکستان کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر قسم کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ امریکا کے صدر ٹرمپ نے بھی غیرقانونی طور پر موجود افراد کو امریکا سے نکالنا شروع کر رکھا ہے۔ اسی طرح پاکستان کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے اور پاکستان میں موجود تمام غیرقانونی غیرملکیوں کو نکالے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مولانا حامد الحق حقانی دارالعلوم حقانیہ کی مولانا سمیع الحق کے خودکش حملہ ا ور اکوڑہ خٹک میں پاکستان میں پاکستان کو صورت حال میں بھی الحق کی کے ساتھ نہیں ہے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز
جنگل کی طرح ’سماجی غول‘ بنانا
رضوان طاہر مبین
ایک ’غول‘ ضروری ہے، جی ہاں بہت ضروری ہے صاحب۔۔۔!
ہمارے آج کے سماج کی ایک تلخ حقیقت ایسی ہے کہ آپ کے ساتھ آپ کے کچھ نہ کچھ ’ہم نوا‘ ہونا بہت ضروری ہیں، ورنہ آپ بُری طرح تنہا کردیے جاتے ہیں، جیسے کسی جنگل میں اکیلے جانور کو درندے بھنبھوڑ دیتے ہیں، اس لیے وہ گروہ کی شکل میں رہتے ہیں، بالکل ایسے ہی گروہ کے بغیر اس سماج کے ’طاقت وَر‘ آپ کو بھی بھنبھوڑ ڈالیں گے اور کچھ نہیں تو کسی موضوع پر اختلاف رائے یا اپنی آزادانہ رائے رکھنے کی پاداش میں یہی نام نہاد پڑھے لکھے اور ’’دانش وَر‘‘ آپ کو کچا نہ بھی چبا ڈالیں، تو پکا پکا کر ضرور نگل جائیں گے!
اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ ’غول‘ کیسا ہو۔۔۔؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ چوں کہ آپ اشرف المخلوقات کہلاتے ہیں یا یوں کہیے کہ سمجھے جاتے ہیں، اس لیے اِسے آپ پیار سے یا مصلحت سے ’غول‘ کبھی نہیں کہیں گے، بلکہ ’ہم خیال‘ کہیں گے، ہم پیالہ بتائیں گے یا پھر کوئی ’لابی‘ کہلائیں گے۔
اب یہ ’لابی‘ کام کیا کرتی ہے۔۔۔؟
یہ بڑا دل چسپ سوال ہے، جناب، یہی تو پھر سارے کام کرتی ہے، اور بعضے وقت جب یہ کام کرتی ہے، تو کبھی کبھی تو آپ کو کچھ کرنے کی ہی ضرورت نہیں رہتی، سمجھ رہے ہیں ناں۔۔۔
اور اگر ایسا نہ بھی ہو تب بھی کوئی آپ پر ٹیڑھی نگاہ سے دیکھے، کسی بھی جگہ کوئی کٹھنائی ہو، زندگی میں خدانخواستہ کوئی اچھا یا برا، صحیح یا غلط، آڑھا یا ترچھا کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو، آپ کا یہ ’غول‘ اس نظریے کے تحت آپ کے ’دفاع‘ کے لیے سینہ سپر ہو جائے گا کہ ’’صحیح ہے یا غلط ہے، یہ اہم نہیں، آدمی ہمارا ہے بس یہی اہم ہے۔۔۔!!‘‘
اپنی ’لابی‘ بنانے کے لیے آپ کو کرنا کیا ہوگا۔۔۔؟
’غول‘ بنانے کے لیے سب سے پہلے ’اتحاد‘ بہت ضروری ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اتحاد میں کتنی ’’برکت‘‘ ہوتی ہے، یہی برکت آپ کو یہاں اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی۔ آپ کو اس ’اتحاد‘ کے واسطے اپنی ’لابی‘ کی ہاں میں ہاں اور نہ میں نہ ملانا ہوگا۔ چاہے سورج آپ کے سر پر آگ برسا رہا ہو، لیکن اگر آپ کے ’جَتھے‘ نے یہ طے کیا ہے کہ اس وقت تاریک آسمان پر چاند چمک رہا ہے اور جھینگر جھنگار رہا ہے، تو آپ کو بہر صورت یہی راگ الاپنا ہوگا کہ چاند کتنا روشن ہے اور اس وقت جھینگر کی آوازوں کے کیا زیر و بم ہیں۔
اس کے ساتھ ہی حسب ضرورت ’واہ واہ‘ کے ڈونگرے اور مخالفانہ دلائل پر منطقی و غیر منطقی ہر دو طرح کے بھرپور تمسخرانہ انداز سے بھی گریز نہیں کرنا ہوگا، الغرض یہ جان لیجیے کہ آپ کے گروہ کے ’مائی باپوں‘ نے جو کہہ دیا وہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا، یہ بات کبھی فراموش نہیں کیجیے گا۔۔۔! اور آپ کی اپنی رائے/ نقطہ نظر/ اختلاف اور آپ کے اپنے ذاتی یا آزادانہ موقف ٹائپ کی کسی چیز کی اب کوئی گنجائش نہیں ہوگی، سچ صرف اور صرف وہی ہوگا جو آپ کے اِس ’’غول‘‘ نے کہہ دیا ہے، بات وہی اونچی ہوگی جو آپ کے ’’لَمڈوں‘‘ نے نعرۂ مستانہ بنا کر بلند کردی ہے۔۔۔ کوئی سچ کی تلاش نہیں ہوگی، عقل وغیرہ جیسی کسی چیز کا کوئی استعمال نہیں ہوگا۔
بعد میں یہ ساری ’خرمستی‘ آپ کو بھی یہ ’سہولت‘ فراہم کرے گی کہ آپ رات بے رات اور وقت بے وقت کچھ فرمائش بھی کر سکتے ہیں۔۔۔ آپ کی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے سے لے کر آپ کی روزی روٹی، دکھ بیماری، کاروبار ملازمت، ترقی اور ہمہ قسم کے مفادات سے لے کر سماج کے بدمعاشوں اور ’غیر بدمعاشوں‘ کے سارے کے سارے مسائل اور وسائل اب آپ کی فکر بالکل بھی نہیں ہوگی، بلکہ جیسے آپ نے ہر بار ان کی ’ہاہاکار‘ میں حصہ ڈالا ہوگا، ایسے ہی صحیح یا غلط سے قطعی طور پر بے پروا ہو کر یہ بھی آپ کے وقت پڑنے پر جائز وناجائز ہر ’پھڈے‘ میں آپ کی پشت پر بلکہ آپ سے بھی آگے صف اول میں کھڑے ہوں گے اور آپ کو غول پسند معاشرے میں وہ سکون فراہم کریں گے کہ بس آپ سوچ ہی سکتے ہیں!
اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ گروہ یا ’لابی‘ کیسی ہو۔۔۔؟ یا یہ غول بنائے کیوں کر بنائے جا سکتے ہیں۔۔۔؟
اس کے لیے بے آپ اپنی ذاتی وخاندانی مماثلتیں ’کام میں‘ لے سکتے ہیں، جیسے:
آپ کون سی زبان بولتے ہیں۔۔۔؟
کس قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟
ملک کے کس صوبے کے رکھوالے اور کس علاقے کے نام لیوا ہیں۔۔۔؟
آپ کس نسل، ذات اور برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟
اتفاق سے آپ کے شجرے میں کوئی خاص عنصر یا شخصیت موجود ہے؟ تو آپ (موقعے کے لحاظ سے) اس کا عَلم بھی بلند کر سکتے ہیں۔
یہی نہیں آپ کا مذہب اور آپ کے مسلک اور عقیدے کے ساتھ ساتھ ’غول‘ بننے کی یہ سہولت بہت سی سیاسی، مذہبی اور تفرقہ باز جماعتیں بھی بہت خوبی سے فراہم کرتی ہیں، اب تو اس کے ساتھ ساتھ ڈھیر ساری ’غیر سرکاری تنظیمیں‘ بھی دل وجان سے آپ کے لیے ’حاضر‘ ہیں، اور اس کام کے باقاعدہ ’معاوضے‘ سالانہ انعامات اور بین الاقوامی اکرامات کی صورت میں آپ کو ہاتھ کے ہاتھ مطمئن بھی کرتی رہتی ہیں۔ اب یہ صرف آپ پر منحصر ہے کہ آپ ’قدرت‘ کی دی گئی ان مماثلتوں اور صلاحیتوں سے کس قدر فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔۔۔!
کیوں کہ فی زمانہ یہ ساری خاصیتیں بڑی کارآمد اور کارگر ہیں، یہی نہیں ’غول‘ بنانے کے لیے آپ کے پیشے کا بھی کافی اہم کردار ہوتا ہے، آپ کیا کام کرتے ہیں۔۔۔؟ اور کام میں بھی کیسا اور ’’کس طرح‘‘ کے کام زیادہ فرماتے ہیں۔۔۔؟ اس مناسبت سے بھی آپ کسی نہ کسی سے گٹھ جوڑ کر سکتے ہیں۔ اب ہم آپ کو کیا کیا کھل کر بتائیں کہ اگر آپ تاجر، شاعر، ادیب، صحافی، مصنف، ڈاکٹر، نرس، وکیل، استاد، بیوروکریٹ، بِلڈر، پراپرٹی ڈیلر ہیں، تو آپ بھی بہ آسانی اس سماج کے ’نائیوں‘، ’موچیوں‘ سے لے کر ’نان بائیوں‘ کی طرح ’’مشترکہ مفادات‘‘ کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ انجمن تشکیل دے سکتے ہیں، اور انجمن سے ہمیں یاد آیا کہ اگر آپ ان میں کچھ بھی نہیں ہیں، تب بھی ایک ’’انجمن ستائش باہمی‘‘ کی سہولت تو ہر ایک کے لیے ہر وقت موجود رہتی ہے، جہاں دو، چار فارغ، (بلکہ طبیعت سے فارغ) مگر چالاک دماغ اور آگ آج کل کی زبان میں کہیے تو ’’سمجھ دار‘‘ احباب جمع ہوئے، لیجیے وہیں آپ کا ایک بھرپور کام یاب اور بھرپور فعال غول تیار ہوگیا ہے، اب آپ ایک دوسرے کے لیے ساری خدمات انجام دے سکتے ہیں، جیسے فارسی میں کہا گیا ہے کہ ’’میں تمھیں حاجی کہوں، تم مجھے مُلا کہو!‘‘
بھارت کا سفارتی رافیل
ابنِ امین
ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شاید جنگ تھم چکی ہے، اور اب ہم ایک ذمے دار اور باشعور پڑوسی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہنے کی کوئی صورت نکال لیں گے۔ لیکن ہمارا پڑوسی، جو کہ ہم سے کئی گنا بڑا ہے، اس جنگ کو ایک ایسے مقام تک لے جانا چاہتا ہے جس کے نتائج کے بارے میں نہ یقین سے کچھ کہا جا سکتا ہے، نہ کوئی گارنٹی دی جا سکتی ہے۔
2019 کے پلوامہ حملے اور اس کے بعد بالاکوٹ فضائی حملے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں ایک نئی سطح کی جارحیت دیکھی گئی ہے۔ تاہم، حالیہ پہلگام حملے (اپریل 2025) اور اس کے بعد بھارت کے 'آپریشن سندور' (مئی 2025) کے تناظر میں، بھارت نے ایک جارحانہ سفارتی مہم کا آغاز کیا ہے۔
اس مہم کے تحت سات وفود دنیا کے مختلف خطوں میں روانہ کیے گئے جن میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان پارلیمان، بشمول مسلم اراکین پارلیمنٹ، اور ریٹائرڈ سفارت کاروں کو شامل کر کے یہ تاثر دیا گیا کہ بھارت کی پوری سیاسی قیادت پاکستان سے درپیش خطرات پر یک زبان ہے۔ ان کا مقصد عالمی برادری کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی دہشت گردی کا معاون ہے۔ یہ کوششیں بظاہر پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی ایک منصوبہ بند مہم کا حصہ ہیں۔
اس سفارتی یلغار کے ساتھ ساتھ، بھارت نے دیگر جوابی اقدامات بھی کیے جن میں اہم سرحدی گزرگاہوں کی بندش، سندھ طاس معاہدے (IWT) کی معطلی، پاکستانی سفارت کاروں کی بے دخلی، اور پاکستانی شہریوں کے لیے زیادہ تر ویزوں پر پابندی شامل تھی۔ خاص طور پر، سندھ طاس معاہدے کی معطلی ایک اہم اور ممکنہ طور پر تباہ کن اقدام تھا، جسے بھارت نے ’’مسلسل سرحد پار دہشت گردی‘‘ سے جوڑا۔ یہ اقدام بین الاقوامی اصولوں کی واضح خلاف ورزی ہے کیوںکہ معاہدہ یک طرفہ کارروائی کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ صورت حال پانی کی سلامتی کو ایک اہم فلیش پوائنٹ میں بدل دیتی ہے، جو ممکنہ طور پر روایتی فوجی ذرائع سے بھی آگے تنازعات کو بڑھا سکتی ہے۔
اس تمام صورت حال میں، بھارتی سیاست داں اور سابق سفارت کار ششی تھرور کی نیویارک میں حالیہ ملاقاتیں اور موجودگی بھی اسی مہم کا حصہ ہے، جس کا مقصد عالمی سطح پر بھارت کے بیانیے کو مزید تقویت دینا ہے۔
تاہم، تجزیاتی نقطۂ نظر سے، یہی مہم پاکستان کے لیے ایک غیرمتوقع مگر غیرمعمولی سفارتی موقع کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ جب بھارت کی طرف سے پاکستان پر ایسے سنگین الزامات عائد کیے جاتے ہیں، اور ان کی تائید کے لیے دنیا بھر میں وفود بھیجے جاتے ہیں، تو لامحالہ بین الاقوامی میڈیا، تھنک ٹینکس اور پالیسی ادارے بھی اس بیانیے کی صداقت کو پرکھنے کے لیے پاکستان کے مؤقف کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، بھارت جس پلیٹ فارم کو صرف اپنا بیانیہ آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے، وہی پلیٹ فارم پاکستان کے لیے اپنے مؤقف کو سامنے لانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس منظرنامے میں پاکستان کو محض دفاعی انداز اپنانے کی بجائے ایک فعال، شواہد پر مبنی اور بیانیہ ساز حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔
پاکستان نے سفارتی سطح پر ابتدائی ردعمل میں عالمی سفیروں کو اعتماد میں لیا، حملے کی غیرجانب دار تحقیقات کی پیشکش کی، اور ساتھ ہی بھارت کی طرف سے انڈس واٹر ٹریٹی جیسے حساس معاہدے کی معطلی کو ایک ممکنہ اشتعال انگیز اقدام کے طور پر عالمی برادری کے سامنے رکھا۔ پاکستان نے چین، سعودی عرب، ترکی، قطر اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ فوری روابط قائم کیے تاکہ بھارت کے یک طرفہ بیانیے کو توازن دیا جا سکے۔
یہ تمام اقدامات ایک فعال اور اسٹریٹجک سفارت کاری کی غمازی کرتے ہیں، اور 2025 کے بحران کے بعد پاکستان کی میڈیا حکمت عملی میں ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے جو ماضی کے ’’ٹکڑے ٹکڑے، دفاعی اور ردعمل پر مبنی‘‘ نقطۂ نظر کے برعکس ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت کی سفارتی یلغار نے پاکستان کو بین الاقوامی مکالمے کا مرکزی موضوع بنا دیا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان داخلی سیاسی بحران، اقتصادی غیریقینی صورت حال، اور سفارتی خاموشی کا شکار تھا، بھارت کی یہ مہم ایک اتفاقیہ موقع بن گئی ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر نہ صرف خود کو ایک پرامن، قانون پر کاربند اور تعمیری ریاست کے طور پر متعارف کرائے بلکہ اپنے حقیقی چیلینجز، قربانیوں اور امن پسندی کو عالمی بیانیے کا حصہ بھی بنائے۔ بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کے بارے میں ’’غیرجانب دارانہ سے مثبت تاثر میں واضح اضافہ‘‘ دیکھا گیا ہے۔
پاکستان کے لیے اب ناگزیر ہے کہ وہ محض رسمی سفارتی بیانات سے آگے بڑھے اور ایک منظم، سائنسی، اور ادارہ جاتی حکمت عملی کے تحت عالمی میڈیا (جیسے CNN، BBC، Sky News)، یونیورسٹیز، تھنک ٹینکس اور ڈاسپورا نیٹ ورکس کو متحرک کرے۔ ڈاسپورا نیٹ ورکس سے مراد وہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کمیونٹیز ہیں جو اپنے میزبان ملکوں میں پالیسی، میڈیا، اور رائے سازی پر اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ نیٹ ورکس پاکستان کی سفارتی soft power کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔
بھارت نے اپنے وفود میں صرف سیاست داں نہیں بلکہ سابق سفیروں، سفارتی ماہرین اور ابلاغی شخصیات کو شامل کر کے بیانیہ سازی کا ایک بھرپور ماڈل پیش کیا ہے۔
پاکستان کے لیے اس وقت چیلینج صرف ردعمل دینا نہیں بلکہ ایک متبادل بیانیہ ترتیب دینا ہے جو مستقل بنیادوں پر پاکستان کے مؤقف کو مضبوط کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو بین الاقوامی برادری کو بھارت کی ’’گرے زون‘‘ حکمت عملیوں کے خطرات سے بھی آگاہ کرنا چاہیے، جہاں وہ جوہری حد سے نیچے محدود حملوں کے ذریعے اخراجات عائد کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس سے ’’جوہری تباہی کی طرف ایک غلط قدم کے خطرے‘‘ میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس وقت دنیا کی نظریں خطے پر مرکوز ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ، پالیسی ادارے، اور تجزیہ کار جنوبی ایشیا کی صورتحال کو باریکی سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے ایک غیرمعمولی موقع ہے کہ وہ خود کو نہ صرف ایک اہم اسٹریٹجک کھلاڑی کے طور پر پیش کرے بلکہ اپنی دانش، امن پسندی اور سفارتی بلوغت سے ایک نئے عالمی امیج کی بنیاد رکھے۔ بھارت کی الزاماتی سفارت کاری پاکستان کے لیے ایک ایسے کوریڈور کی شکل اختیار کر چکی ہے جو اگر حکمت سے استعمال کیا جائے تو سفارتی تنہائی کو سفارتی مرکزیت میں بدل سکتا ہے۔