Express News:
2025-07-25@10:35:55 GMT

مولانا حامد الحق کی شہادت

اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT

خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ کے معروف علاقے اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ میں جمعہ کو خودکش دھماکے میں جامعہ کے نائب مہتمم مولانا حامد الحق حقانی سمیت 8 افراد شہید ہو گئے ہیں جب کہ 20 سے زائد شدید زخمی ہوگئے۔

میڈیا کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ مولانا حامد الحق دارالعلوم حقانیہ کی مسجد سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اپنی رہائش گاہ جارہے تھے تو مسجد کے خارجی دروازے کے قریب ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا ، مولانا حامد الحق حقانی اور وہاں موجود لوگ شدید زخمی ہوئے۔

مولانا کو نازک حالت میں اسپتال لے جایا گیا جہاں وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ دارالعلوم حقانیہ کی مسجد میں چونکہ جمعہ کو بہت زیادہ رش ہوتا ہے، اس وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ دارالعلوم حقانیہ کے ارد گرد جمع ہوگئے جس کی وجہ سے جی ٹی روڈ پر ٹریفک کا نظام بھی درہم برہم رہا، ایک سینیئر پولیس افسر کے حوالے سے میڈیا نے بتایا ہے کہ دھماکا خودکش حملہ آور نے مولانا حامد الحق کو ٹارگٹ کر کے خود کو دھماکے سے اڑایا ہے۔

یہ خودکش حملہ مسجد کے ساتھ ملحقہ ایریا میں کیا گیا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مدرسہ میں سیکیورٹی کے لیے 23 پولیس اہلکار ڈیوٹی پر تعینات تھے جب کہ مولانا حامد الحق کی سیکیورٹی کے لیے بھی چھ پولیس اہلکار تعینات تھے۔

یہی وجہ ہے کہ زخمیوں میں چار پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ مدرسہ کے داخلی دروازوں پر مدرسہ انتظامیہ کی بھی سیکیورٹی موجود تھی۔ اس کے باوجود خودکش حملہ آور کا مدرسے کے اندر تک چلے جانا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ مولانا حامد الحق حقانی شہید کی نماز جنازہ ہفتے کو اکوڑہ خٹک میں ادا کر دی گئی، انھیں اپنے والد مولانا سمیع الحق شہیدکے پہلو اور اپنی والدہ کے قدموں میں دفن کیا گیا ہے۔

مولانا حامد الحق جے یو آئی سمیع الحق گروپ کے سربراہ بھی تھے۔ وہ اپنے والد مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد جے یو آئی سمیع الحق گروپ کے سربراہ بنے تھے۔ ان کے والد مولانا سمیع الحق نامور عالم دین تھے۔ مولانا سمیع الحق کے والد کا نام مولانا عبدالحق تھا، وہ بھی خیبرپختونخوا کی بہت بڑی مذہبی شخصیت تھے، انھوں نے اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ کی بنیاد رکھی تھی۔

دارالعلوم حقانیہ کو افغان جہاد کے برسوں میں شہرت حاصل ہوئی، اس مدرسے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں سے ہزاروں افغان طالبان نے دینی تعلیم حاصل کی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کی مولانا سمیع الحق کے ساتھ بڑی گہری وابستگی تھی اور مولانا سمیع الحق طالبان کے ’’باپ‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔

اخباری خبر میں بتایا گیا ہے کہ ماضی میں ایک بار مولانا سمیع الحق نے ملا عمر کو اپنے بہترین طالب علموں میں سے ایک قرار دیا تھا اور انھیں ایک ’’فرشتہ نما انسان‘‘ کہا تھا۔ مولانا سمیع الحق متحدہ مجلس عمل کے بانی رہنماؤں میں شامل اور دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ بھی تھے۔

انھوں نے متحدہ دینی محاذ کی بھی 2013میں بنیاد رکھی تھی۔ وہ دو مرتبہ پاکستان کے ایوان بالا کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔ مولانا سمیع الحق کے تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا میں پہلی صوبائی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات تھے تاہم بعد میں سینیٹ انتخابات میں ٹکٹ نہ دیے جانے پر ان کے تحریک انصاف کے ساتھ اختلافات کی خبریں بھی آئی تھیں۔

مولانا سمیع الحق کی شہادت کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا حامد الحق ان کے سیاسی ومذہبی جانشین تھے۔ اخبار کی خبر میں ہی بتایا گیا ہے مولانا حامد الحق نے اپنے والد کے قتل کے بعد کہا تھا کہ افغان حکومت اور مختلف طاقتوں کی جانب سے والد کو خطرہ تھا کیونکہ والد صاحب افغانستان کو امریکا کے تسلط سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔

مولانا حامد الحق کے اس سیاسی ومذہبی پس منظر سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ ایسی شخصیت تھے، جوکئی گروپوں کا ٹارگٹ ہو سکتے ہیں۔ بہرحال اب چونکہ تحقیقات جاری ہیں، جب تک تحقیقاتی رپورٹ سامنے نہیں آتی تو فی الحال قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس قتل کے پیچھے کوئی گروپ تھا یا نہیں۔

البتہ میڈیا نے سیکیورٹی ذرایع کا حوالہ دے کر بتایا ہے کہ اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ میں خود کش حملہ فتنہ الخوارج اور ان کے سر پرستوں کی مذموم کارروائی ہے ، ابتدائی اطلاعات کے مطابق خود کش حملہ فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں نے کیا جس میں مولانا حامد الحق حقانی کو نشانہ بنایا گیا ،مولانا حامد الحق حقانی نے گزشتہ ماہ رابطہ عالم اسلامی کے تخت ہونے والی کانفرنس میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے واضح اور دو ٹوک مؤقف اختیار کیا تھا، سیکیورٹی ذرایع کے مطابق مولانا حامد الحق نے خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کو بھی خلاف اسلام قرار دیا تھا۔ اس بیانیے پر انھیں دھمکیاں بھی دی گئی تھیں، نماز جمعہ کے دوران دھماکا اس بات کی غمازی کرتا ہے کے فتنہ الخوارج، ان کے پیروکاروں اور سہولت کاروں کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔

مولانا حامد الحق کی خودکش حملے میں شہادت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خیبرپختونخوا کے حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔ کرم کی صورت حال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اگر کرم کے حالات پر شروع میں ہی سخت گیر پالیسی اختیار کی جاتی اور وہاں شرپسند اور دہشت گرد عناصر کے خلاف بھرپور ایکشن لیا جاتا تو شاید خیبرپختونخوا میں جاری دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی آجاتی۔

کرم ہی نہیں بلکہ کرک اور بنوں، کوہاٹ وغیرہ میں بھی بدامنی اور دہشت گردی کے خلاف عوامی مظاہرے ہوتے رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان معاملات پر بھی آنکھیں بند رکھی گئیں۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ صوبے کی صورت حال دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں بھی دہشت گردوں کے لیے پناہ گاہیں موجود ہیں اور وہاں بھی ان کے سہولت کار اپنا کام کر رہے ہیں۔ نرم حکومتی رٹ اور عزم کی کمزوری کے باعث دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کھل کھیلنے کا بھرپور موقع مل رہا ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ دارالعلوم حقانیہ کی اپنی سیکیورٹی بھی خاصی سخت ہے۔ اتنی سخت سیکیورٹی کے باوجود خودکش حملہ آور کا مولانا حامد الحق تک پہنچ جانا، اندرونی سیکیورٹی لیپس کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ بغیر اندرونی سہولت کاری کے خودکش جیکٹ پہن کر کسی شخص کا آزادانہ طور پر سیکیورٹی بیریئر سے گزرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ چند ٹکوں کی خاطر جاسوسی اور سہولت کاری کرنے والوں کی کسی بھی ملک میں کمی نہیں ہوتی۔ اسی طرح پاکستان کے مختلف شہروں اور علاقوں میں بھی ایسے شخص موجود ہیں جو کسی بھی لالچ میں آ کر کسی کی جان کا سودا کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں فسادات پیدا کرنا، پاکستان میں انارکی پیدا کرنا اور پاکستان کی معیشت کو برباد کرنا کن قوتوں کی آرزو، تمنا اور مفادات کا تقاضا ہے، اس کے بارے میں بھی خاصے واضح اشارے موجود ہیں۔ ملک کے پالیسی سازوں کو بھی صورت حال کا خاصی حد تک اندازہ ہے۔

پاکستان کے عوام کا تقاضا ہے کہ ایسے شرپسند عناصر کی سرکوبی کیے بغیر ملک کی معیشت بحال ہو سکتی ہے اور نہ ہی داخلی استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ دہشت گردوں کے اندرونی سہولت کاروں، ان کے کیریئرز، ان کے فنانسرز اور ہینڈلرز کے خلاف ٹارگٹڈ اور نتیجہ خیز کارروائی کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت بن گئی ہے۔

افغانستان کی حکومت کا منفی کردار بھی اب ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے۔ پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں کے پار جو حالات ہیں، ان کے اثرات سے بچنے کے لیے پاکستان کو اپنی سرحدوں کی سخت نگرانی کرنے اور سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں موجود افغانستان کے باشندوں کا مزید قیام ملک کی سالمیت اور استحکام کے لیے اچھا نہیں ہے۔

ویسے بھی اب کسی بھی افغان شہری کا پاکستان میں بطور مہاجر اور پناہ گزین قیام نہ سمجھ آنے والی بات ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے مربوط اور ٹھوس قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے ہاں امن ہے اور افغانستان کی معیشت ترقی کر رہی ہے۔

ایسی صورت میں افغانستان کی حکومت کو اپنے شہریوں کو واپس لینے میں لیت ولعل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی پاکستان میں موجود افغان مہاجرین اور پناہ گزینوں کی قیادت کو پاکستان میں قیام کی ضد کرنی چاہیے۔ پاکستان کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر قسم کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ امریکا کے صدر ٹرمپ نے بھی غیرقانونی طور پر موجود افراد کو امریکا سے نکالنا شروع کر رکھا ہے۔ اسی طرح پاکستان کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے اور پاکستان میں موجود تمام غیرقانونی غیرملکیوں کو نکالے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مولانا حامد الحق حقانی دارالعلوم حقانیہ کی مولانا سمیع الحق کے خودکش حملہ ا ور اکوڑہ خٹک میں پاکستان میں پاکستان کو صورت حال میں بھی الحق کی کے ساتھ نہیں ہے کے بعد کے لیے

پڑھیں:

بلوچستان اور کے پی میں حکومتی رٹ نہیں، دہشتگردی کا خاتمہ تو دور کی بات، مولانا فضل الرحمٰن

اسلام آباد:

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ بہت دور کا لفظ ہے، افسوس حکومت نام کی رٹ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بالکل بھی نہیں۔

ملی یکجہتی کونسل کے زیر اہتمام مجلس قائدین اجلاس اور ’’قومی مشاورت‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ دن کے وقت بھی دہشتگرد دندناتے پھرتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں، ریاست اپنی ناکامیوں کا بوجھ ہم پر مت ڈالے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بدامنی ریاستی اداروں کی نااہلی ہے یا شعوری طور پر کی جا رہی ہے، اس حوالے سے ہمیں جرأت مندانہ موقف لینے کی ضرورت ہے، مسلح جدوجہد جائز نہیں۔ افغانستان پر جب امریکا نے حملہ کیا اس وقت ایک انتشاری کیفیت تھی، اس وقت ملک میں متحدہ مجلس عمل فعال تھی، اتحاد امہ کے لیے ہم اس وقت جیلوں میں بھی گئے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان میں دینی مقاصد کے لیے بھی اسلحے کو اٹھانا غیر شرعی قرار دیا، پاکستان میں مسلح جدوجہد کو ہم حرام قرار دے چکے اور اس وقت سے آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ دہشت گردی کے خلاف سوات سے وزیرستان تک آپریشن ہوئے مگر جو مہاجر ہوئے وہ آج بھی دربدر ہیں، یہ لوگ جو افغانستان گئے تھے وہ کیسے گئے اور واپس کیوں آئے؟

26ویں ترمیم

مولانا فضل الرحمٰن نے واضح کیا کہ ہم نے 26 ویں ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبرداری پر مجبور کیا، اس کے بعد یہ 22 نکات پر منحصر ہوا جس میں ہم نے پھر مزید اقدامات کیے۔

انہوں نے بتایا کہ سود کے خاتمے کے حوالے سے 31 دسمبر 2027ء کی تاریخ آخری ہے اور اب باقاعدہ دستور میں درج ہے کہ یکم جنوری 2028ء تک سود کا مکمل خاتمہ ہوگا، ہم سب کو اس پر نظر رکھنی چاہیے کہ حکومت اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم کورٹ میں گئے تو حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا کہ وہ اپنے ہی آئین کے خلاف اٹارنی جنرل کھڑا کرے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف کوئی بھی سپریم کورٹ کا اپیلٹ کورٹ میں جائے تو وہ معطل ہو جاتا ہے، اب صورتحال یہ ہے کہ آئینی ترمیم کے بعد اب یکم جنوری 2028ء کو اس پر عمل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس کے خلاف کوئی اپیل ہوئی تو ایک سال کے اندر یہ مہلت ختم ہوگی اور فیصلہ نافذ العمل ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت کا کوئی چیف جسٹس نہیں بن سکتا تھا لیکن اب شرعی عدالت کا جج شرعی عدالت کا چیف جسٹس بن سکتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات بحث کے لیے پیش کی جائیں گے، پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کی صرف سفارشات پیش ہوتی تھیں اب اس پر بحث ہوگی۔

غیرت کے نام پر قتل

انہوں نے کہا کہ یہ کون ہے جو جائز نکاح کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرے اور بے راہ روی کو راستہ دے، یہ کیسا اسلامی جمہوریہ ہے کہ زنا بالرضا کی سہولت اور جائز نکاح کے لیے دشواری؟

جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل انتہائی قابل مذمت اور غیر شرعی ہے، قانون سازی معاشرے کی اقدار کے مطابق ہونی چاہیے۔ اگر معاشرتی اقدار کا خیال نہ رکھا جائے تو قانون سازی پر دونوں طرف سے طعن و تشنیع ہوتی ہے۔

مسئلہ کشمیر و فاٹا انضمام

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ریاستی موقف واضح اور دو ٹوک ہوتا ہے، کس طرح مشرف نے کہا تھا کہ کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ میں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رہا اور بتدریج جس طرح پاکستان کشمیر سے پیچھے ہٹا یہ سب ہمارے سامنے ہوا۔ مودی نے جب خصوصی حیثیت ختم کی اس وقت ہم مذمتی قرارد میں خصوصی آرٹیکل 370 کا تذکرہ تک نہ کر سکے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے فاٹا کا انضمام کر دیا اور اس وقت بھی کہا تھا یہ غلط کیا جا رہا ہے، خطے میں امریکی ایجنڈے کے نفاذ کے لیے جغرافیائی تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی گئیں۔ اب صوبائی حکومت خود کہتی ہے کہ انضمام کا فیصلہ درست نہیں تھا کمیشن بناتے ہیں، اب اگر آپ واپس ہٹیں گے یا صوبہ بنائیں دو تہائی اکثریت صوبائی و وفاق میں چاہیے ہوگی۔

اسرائیلی جارحیت

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ فلسطین پر اسرائیل ناجائز طور پر قابض ہے اور دو ریاستی حل صرف ایک دھوکا ہے، اسرائیل غاصب ہے۔ خالد مشعل نے گزشتہ روز گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 70 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے پہلے صدر نے کہا تھا کہ نوزائیدہ مسلم ریاست کا خاتمہ ہماری خارجہ پالیسی ہوگی، پاکستان نے 1940ء میں فلسطینیوں کے حق کے لیے آواز بلند کی اور سب سے پہلے ہم نے اسے ناجائز ریاست قرار دیا۔ حرمین بھی ہمارا ہے اور قبلہ اول بھی ہمارا ہے، مگر آج قبضہ یہود کا ہے، آج جو کچھ فلسطینیوں پر گزر رہی ہے یہ حضور اکرم کی حدیث ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ایران نے اس کا جواب دیا ہے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں، اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا ہم اس کی بھی کھل کر مذمت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاک انڈیا جنگ میں ایران نے جس طرح پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا وہ بھی لائق تحسین ہے۔

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہم یہ بھی واضح کر رہے ہیں کہ حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے بھی اتحاد امت کے ساتھ میدان میں ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک فوج کے میجر انور کاکڑ دہشتگردوں کے حملے میں شہید
  • اٹامک انرجی ہسپتال مظفرآباد خطے کے لیے وفاق کی جانب سے بہترین تحفہ ہے؛ چوہدری انوار الحق
  • غیرت کے نام پر کسی کو بھی قتل کرنا شرعی لحاظ سے جائز نہیں ہے، مولانا فضل الرحمان
  • پاکستان علما کونسل نے بلوچستان میں قتل خاتون کے والدین کے بیان کو قرآن و سنت کے منافی قرار دیدیا
  • پاکستان علماء کونسل نے بلوچستان میں قتل خاتون کے والدین کے بیان کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے دیا
  • بلوچستان اور کے پی میں حکومتی رٹ نہیں، دہشتگردی کا خاتمہ تو دور کی بات، مولانا فضل الرحمٰن
  • شاہ محمود قریشی کا بری ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں،جس کسی نے ان پر 9مئی کا کیس بنایا ہے وہ کوئی بیوقوف آدمی تھا،حامد میرکا تبصرہ
  • قومی ٹیسٹ کرکٹر امام الحق کا انگلش کاؤنٹی یارکشائر سے باقاعدہ معاہدہ
  • یوم شہادت امام زین العابدین (ع) کی مناسبت سے سرینگر میں جلوس عزاء
  • مقتولہ بانو کا شوہر اور والد قتل کے خلاف تھے، وہ احسان کی بلیک میلنگ کا شکار تھی: حامد میر کا انکشاف