ٹرمپ زیلنسکی ملاقات تنازع پر نیٹو سربراہ کا بڑا ردعمل آگیا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
برسلز/واشنگٹن: نیٹو کے سربراہ مارک روٹے نے یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنے تعلقات بحال کریں۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب وائٹ ہاؤس میں زیلنسکی اور ٹرمپ کی ملاقات کشیدہ صورتحال اختیار کر گئی اور دونوں رہنماؤں کے درمیان روس-یوکرین جنگ کے حل پر اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔
مارک روٹے نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے زیلنسکی کو بتایا کہ ٹرمپ نے یوکرین کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے، خاص طور پر 2019 میں جویلین اینٹی ٹینک ہتھیار فراہم کرکے جس نے یوکرین کو روسی حملے کے خلاف مزاحمت کا موقع دیا۔
نیٹو سربراہ نے مزید کہا کہ امریکہ یوکرین، یورپ اور عالمی امن کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے، اور سب کو مل کر ایک پائیدار امن کی راہ تلاش کرنی ہوگی۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے زیلنسکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ٹرمپ کے ساتھ ہونے والے تنازع پر معافی مانگیں۔ روبیو نے CNN کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ زیلنسکی کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ یہ ملاقات کشیدگی کے ساتھ ہی ختم ہوگی۔
روبیو نے مزید کہا کہ زیلنسکی کو یہ سوچنا ہوگا کہ وہ واقعی جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں یا نہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: زیلنسکی کو کہا کہ
پڑھیں:
کیا جنوبی ایشیا پانی کے تنازع پر جنگ کی طرف دھکیلا جارہا ہے؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرکے پاکستان کو پانی کی بوند بوند کے لیے ترسانے کا اعلان کرکے معاملات و انتہائی خرابی سے دوچار کیا ہے۔ بھارتی دھمکی کے جواب میں پاکستان کی کُھلی حمایت کرتے ہوئے چین نے کہا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو وہ بھی دریائے برہم پُتر کا پانی روک کر بھارت کو سبق سکھانے پر مجبور ہوگا۔ چینی قیادت کا موقف ہے کہ کسی بھی ملک کے حصے کا دریائی پانی روک کر اُس کی معیشت ہی نہیں بلکہ وجود کے لیے بھی خطرات کھڑے کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے برہم پتر تبت کے پہاڑی سلسلے سے نکلتا ہے اور چین سے نکلنے کے بعد بھارت اور پھر بنگلا دیش میں داخل ہوتا ہے۔ بنگلا دیش سے گزر کر خلیجِ بنگل میں گر جاتا ہے۔ دریائے برہم پتر کے پانی پر بھارت اور بنگلا دیش کی آبادی کے ایک بڑے حصے کا مدار ہے۔ دونوں ممالک میں کروڑوں افراد کا روزگار اِس دریا کے پانی سے وابستہ ہے۔ یہ پانی کھیتی باڑی کے کام بھی آتا ہے اور ڈیمز کے ذریعے بجلی بھی تیار کی جاتی ہے۔
بھارت نے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے لیے تین دریاؤں کا پانی روکنے کا اعلان کرنے کے بعد اقدامات بھی شروع کردیے ہیں۔ یہ کوئی آسان کام نہیں بلکہ رائے عامہ کے خلاف جاکر مودی سرکار ایسے حالات پیدا کرنا چاہتی ہے جن کے نتیجے میں پاکستان سے تعلقات بالکل ختم ہوکر رہ جائیں اور پھر صرف جنگ کا آپشن رہ جائے۔ بھارت کے سیاسی و معاشی اور اسٹریٹجک امور کے تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ مودی سرکار کو پاکستان سے تعلقات بگاڑنے کے معاملے میں انتہائی محتاط رہنا چاہیے اور پانی کی بندش جیسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ جب پاکستان کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگا تو اُس کے پاس میدانِ جنگ میں آکر معاملات درست کرنے کے سوا آپشن نہیں بچے گا۔ نیوکلیئر ڈاکٹرائن کے تحت پاکستان اگر محسوس کرے کہ اُس کے وجود ہی کو خطرہ لاحق ہے تو وہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا آپشن بھی چُن سکتا ہے۔ پاکستانی معیشت کو دیوار سے لگانے کی بھرپور کوشش بھارت کے گلے کا پھندا بھی بن سکتی ہے۔ چین نے ساٹھ ارب ڈالر کی لاگت سے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم بنانے کا اعلان کرکے پہلے ہی کھلبلی مچادی ہے اور بھارتی میڈیا پر یہ بات کُھل کر کہی جارہی ہے کہ مودی سرکار اپنے بے عقلی پر مبنی اقدامات سے پاکستان اور چین دونوں ہی کو انتہائی صورتِ حال کی طرف دھکیل رہی ہے جس کے نتیجے میں پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔
حالیہ فضائی معرکہ آرائی میں پاکستان کے ہاتھوں شدید نوعیت کی ہزیمت کا سامنا کرنے کے بعد مودی سرکار پاکستان کو کسی نہ کسی طور بہت بڑے نقصان سے دوچار کرنے کے فراق میں ہے۔ پاکستان کی معیشت کو شدید ضرب لگانے کی ذہنیت کو عملی جامہ پہنانے کے جُنون میں مودی سرکار اپنی رائے عامہ اور میڈیا کے مجموعی لب و لہجے کو یکسر نظر انداز کر رہی ہے۔ اہلِ دانش جو کچھ کہہ رہے ہیں اُسے مودی سرکار ذرا بھی قابلِ توجہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔
پاکستان کے لیے اچھا موقع ہے کہ اس حوالے سے عالمی برادری سے رابطہ کرے، کنویسنگ اور لابنگ کے ذریعے دنیا بھر کے ممالک کو مودی سرکار کی تنگ نظری اور انتہا پسندی کے بارے میں بتائے اور یہ بھی بتائے کہ کس طور وہ خطے کے کم و بیش دو ارب افراد کی زندگی اور معیشت کو داؤ پر لگارہی ہے۔