رمضان کے پہلے روزے میں ہی سبزیاں، پھل اور گوشت مہنگے داموں فروخت ہونے لگا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
لاہور:
رمضان المبارک کے پہلے روزے میں ہی سبزیاں، پھل اور گوشت مہنگے داموں فروخت ہو رہا ہے، مہنگائی اور گراں فروشی سے شہری پریشان ہوگئے۔
اسسٹنٹ کمشنرز پرائز کنٹرول مجسٹریٹ گراں فروشی روکنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔
سبزیوں میں آلو دوئم 45 کے بجائے 80 سے 100 روپے فی کلو، پیاز 70 کے بجائے 120 روپے، ٹماٹر 40 کے بجائے 100 روپے، لہسن دیسی 600 کے بجائے 800 روپے اور ادرک 370 کے بجائے 600 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ شملہ مرچ اور بھنڈی 300 روپے، میتھی 100 روپے اور کریلے 300 روپے فی کلو فروخت ہو رہے ہیں۔
پھلوں میں سیب 400 روپے کلو، کیلا 300 روپے درجن اور کھجور ایک ہزار روپے کلو تک پہنچ گئی۔ خربوزہ 250 سے 300 روپے فروخت ہو رہا ہے۔
مرغی کا گوشت 625 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے جبکہ بکرے کا گوشت 2500 اور گائے کا گوشت 1200 روپے فی کلو فروخت ہونے لگا ہے۔
ڈپٹی کمشنر لاہور سید موسیٰ رضا نے گراں فروشی کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیا ہے۔
ڈی سی کا کہنا تھا کہ تمام اسسٹنٹ کمشنرز پرائز کنٹرول مجسٹریٹس گراں فروشوں کے خلاف کارروائیاں تیز کریں، روزانہ کی بنیاد پر گراں فروشی کرنے والوں کو جیل بھجوانے کے ساتھ بھاری جرمانے کیے جا رہے ہیں۔
شہریوں کا کہنا تھا کہ حکومت پنجاب اور ضلعی انتظامیہ رمضان میں گراں فروشی کو کنٹرول کرے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فروخت ہو رہا ہے کلو فروخت ہو روپے کلو کے بجائے
پڑھیں:
سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔ اسلام ٹائمز۔ آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39 کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45 لاکھ 80 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15 لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس، کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5 کیسوں میں 4 کروڑ 40 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9 لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔ مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2 کیسز میں حکومت کو 45 لاکھ روپے کا نقصان اور 14 لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔ رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔