مہنگائی پر وزیر خزانہ کو عہدے سے ہٹا دیاگیا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
تہران: ایران کی پارلیمنٹ نے مہنگائی اور ایرانی ریال کی قدر میں مسلسل کمی کے تناظر میں وزیر خزانہ عبدالناصر ہمتی کے خلاف مواخذے کی کارروائی مکمل کرتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹانے کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
ایرانی میڈیا کے مطابق پارلیمنٹ کے 273 ارکان میں سے 182 نے ہمتی کے خلاف ووٹ دیا۔
عبدالناصر ہمتی صدر مسعود پزشکیان کی کابینہ کا حصہ تھے جو 8 ماہ قبل تشکیل دی گئی تھی۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق بلیک مارکیٹ میں ایک امریکی ڈالر کی قیمت اب 9 لاکھ 20 ہزار ایرانی ریال تک جا پہنچی ہے جو 2024 کے وسط میں 6 لاکھ سے بھی کم تھی جو معاشی بحران کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔
اس سے قبل صدر مسعود پزشکیان نے پارلیمنٹ میں ہمتی کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم دشمن کے ساتھ مکمل اقتصادی جنگ میں ہیں اور ہمیں جنگی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ ملک کے معاشی مسائل کی ذمہ داری صرف ایک فرد پر عائد نہیں کی جا سکتی تاہم پارلیمنٹ نے صدر کے دلائل کو مسترد کرتے ہوئے وزیر خزانہ کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
تنزانیہ میں اپوزیشن کا انتخابات کیخلاف ماننے سے انکار؛ مظاہروں میں 700 ہلاکتیں
تنزانیہ میں عام انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے ملک گیر مظاہروں کا اعلان کیا تھا جو بدستور جاری ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق چند روز قبل ہونے والے جنرل الیکشن میں صدر سمیعہ صولوہو حسن نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔
تاہم ان انتخابات میں صدر سمیعہ کے مرکزی حریف یا تو قید میں تھے یا انہیں الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا گیا تھا۔ جس سے نتائج میں دھاندلی کے الزامات کو تقویت ملی تھی۔
اپوزیشن جماعت چادیما نے انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے شفاف الیکشن کا مطالبہ کیا اور مظاہروں کا اعلان کیا تھا۔
جس پر صرف تنزانیہ کے دارالحکومت دارالسلام میں پُرتشدد مظاہروں کا سلسلہ تیسرے دن بھی جاری ہے۔ شہروں میں جھڑپوں کے دوران سیکڑوں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔
اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس تشدد میں اب تک 700 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ حکومت نے تاحال کسی سرکاری اعداد و شمار کی تصدیق نہیں کی گئی۔
مظاہرین نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کیں گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا پولیس اور فوج نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور گولیاں چلائیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے مظاہرین کی ہلاکتوں پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کو غیر ضروری طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کم از کم ایک سو ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے جبکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
دارالسلام اور دیگر حساس علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں اور فوج کو سڑکوں پر تعینات کر دیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ صورتحال کو قابو میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور امن و امان کی بحالی اولین ترجیح ہے۔