کراچی میں متوسط طبقے کے بچوں کی تفریح کا باعث بننے والی سائیکل کی قیمت میں 70 فیصد اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
کراچی میں تفریح گاہوں کی کمی اور اور معاشی مسائل کے سبب کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین اپنے بچوں کو تفریحی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں، تفریحی سہولیات میں کمی کے باعث بچوں کا بیشتر وقت موبائل فون دیکھنے میں صرف ہو رہا ہے۔
بچوں کی تفریح کا ایک بڑا ذریعہ سائیکلنگ ہے ۔ سائیکلوں کی قیمتوں میں گزشتہ دو برسوں میں 50 سے 70 فیصد تک اضافے کے باعث والدین کی اکثریت اپنے بچوں کو سائیکل دلانے کی استطاعت نہیں رکھتی ہے ۔ اکثر والدین پرانی سائیکلیں خرید کر اپنے بچوں کا شوق پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ایکسپریس نے بچوں کی تفریح کا ایک بڑا ذریعہ سائیکل کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے رپورٹ مرتب کی ۔
ماہر سماجی بہبود پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ نے بتایا کہ کم عمر بچے اپنے والدین کی جان ہوتے ہیں ۔ ہر والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی چھوٹی بڑی خواہش کو پورا کر سکیں، والدین اپنی مالی حیثیت کے مطابق بچوں کو خوشیاں دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
’آج کے دور میں مہنگائی اور معاشی مسائل کے سبب متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرنے سے بھی قاصر ہیں کیونکہ ان والدین کی پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تین وقت کا کھانا کھلا سکیں‘۔
انہوں نے کہا کہ معاشرے میں یہ تفریق بہت بڑھ گئی ہے کہ زیادہ مالی حیثیت کے حامل والدین اپنے بچوں کو تمام خوشیاں تو دے سکتے ہیں اور کم آمدنی والے والدین کے لیے اپنے بچوں کو تمام خوشیاں دینا ایک خواب مانند ہے۔ انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے سمجھایا کہ ایک محلے میں زیادہ آمدنی والے خاندان کے ایک کے پاس سائیکل ، ویڈیو گیم یا ایک اچھا موبائل اور دیگر تفریح کے مواقع میسر ہوتے ہیں اور اگر اسی محلے میں کوئی کم آمدنی والا خاندان آباد ہو تو اس کا بچہ ان خوشیوں محروم ہوتا ہے ۔ اسی لیے کم آمدنی والے خاندان کا بچہ جب اپنے سامنے والے بچے کو دیکھتا ہے، جسے سب کچھ میسر ہے تو وہ یہ چیزیں حاصل کرنے کے لیے والدین سے ضد کرتا ہے لیکن اس کے والدین کی اتنی مالی حیثیت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بچے کو یہ چیزیں دلا سکیں۔
کئی والدین تو قرضہ یا دیگر ذرائع آمدنی سے اپنے بچے کو یہ خوشی دلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن بیشتر والدین اپنے بچوں کی ضد پوری نہیں کر پاتے ۔ انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے امیری اور غریبی کا فرق نظر آتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کم آمدنی والے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت اس انداز میں کریں کہ انہیں اپنے گھر کے معاشی حالات کا علم ہو اور انہیں حالات کے تناظر میں ان کو چھوٹی خوشیاں فراہم کی جائیں ۔
ماہر سماجیات پروفیسر ڈاکٹر کوثر انصاری نے بتایا کہ بچوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کو والدین تفریح گاہوں یا تفریحی مقامات پر لے کر جائیں انہیں وقت دیں ۔ لیکن بیشتر والدین کے پاس وقت نہیں ہوتا، گھر کے سربراہان یعنی بچوں کے والد معاشی مسائل کے حل یا اپنے کاموں میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ وہ اپنے چھوٹے بچوں کو وقت نہیں دے پاتے جبکہ ان بچوں کی مائیں گھریلو امور کی انجام دہی کے لیے مصروف ہوتی ہیں ۔ اسی لیے بچے اپنا زیادہ تر وقت موبائل دیکھنے میں گزار دیتے ہیں اور اگر بچے ضد کرتے ہیں تو ان کی مائیں ان کو موبائل دے دیتی ہیں تاکہ وہ اس میں مصروف ہو جائیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سے بچوں کی نفسیات پر اچھا اثر نہیں پڑتا، وہ موبائل کو ہی اپنا ساتھی سمجھنے لگ گئے ہیں ۔ ماضی میں بچے کھیل کود میں حصہ لیتے تھے، اس طرح ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما ہوتی تھی لیکن آج کل کے بچے کھیل کود میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے، اس لیے وہ جسمانی اور ذہنی طو رپر کمزور نظر آتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سائیکلنگ بچوں کی تفریح اور کھیل کود کا ایک بڑا ذریعہ ہے لیکن سائیکل کی قیمتیں بھی بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں ۔
جس کی وجہ سے بیشتر والدین اپنے بچوں کو اب سائیکل بھی نہیں دلا سکتے ۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو کھیلوں کی طرف راغب کریں ۔ تاکہ ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما ہو سکے ۔ انہوںنے رائے دی کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ شہر میں تفریحی سہولیات میں اضافہ کرے ۔
بچوں کے مسائل کے حل کے حوالے سے کام کرنے والے ایک سماجی ادارے کے رضار کار زاہد سلطان نے بتایا کہ کراچی میں تفریح گاہوں کی شدید کمی ہے، جو تفریح ہیں ان میں زیادہ سہولیات میسر نہیں ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں ایک مصنوعی جنگل ہونا چاہئے ، جہاں بچوں کی تفریح کے لیے مختلف سہولیات میسر ہوں جبکہ چڑیا گھر کو بھی جدید سہولیات سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ا نہوں نے کہا کہ بچوں کی چھٹیوں میں والدین کو چاہئے کہ وہ ان کے ہر کام کا شیڈول مرتب کریں تاکہ وہ دنیاوی اور دینی تعلیم کے ساتھ صحت مندانہ سرگرمیوں میں بھی حصہ لے سکیں ۔
رضویہ سوسائٹی میں رہائش پذیر اور ایک نجی ادارے میں ملازم فیروز احمد نے بتایا کہ ان کے چار بچے ہیں ۔سب سے بڑا بچہ 8 سال کا ہے ۔ اس نے اپنے دوستوں کے پاس سائیکل دیکھ کر ضد کی کہ میں اسے بھی سائیکل دلاوں ۔ جب میں مارکیٹ میں سائیکل کی قیمت معلوم کرنے گیا تو اچھی سائیکل 18 ہزار روپے سے زائد قیمت پر فروخت ہو رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اسی لیے میں نے کباڑ سے 10 ہزار روپے کی پرانی سائیکل خرید کر بچے کو دلائی ۔ انہوں نے کہا کہ سائیکلوں کی قیمتوں میں دگنا اضافہ ہو گیا ہے ، جس کی وجہ سے اب بچے سائیکلنگ سے بھی محروم ہیں ۔
عیسی نگری میں نجی اسکول کی8 ویں جماعت میں زیر تعلیم ایک بچی طیبہ ہاشمی نے بتایا کہ میری سہیلیوں کے پاس سائیکل ہیں، میں نے والدین سے کہا کہ مجھے بھی سائیکل لے دیں۔ میرے والد ایک معمولی ملازم ہیں۔
انہوں نے مجھے سمجھایا کہ وہ سائیکل خریدنے کی سکت نہیں رکھتے ۔ اس لیے میں نے والدہ کے سمجھانے پر کوکنگ کور س میں داخلہ لے لیا ہے ۔ جہاں میں اب کوکنگ سیکھ رہی ہوں لیکن میں پیسے جمع کرکے اپنی اس خواہش کو پورا کروں گی کہ میں سائیکل لے سکوں ۔ مجھے سائیکل چلانے کا بہت شوق ہے ۔
لائٹ ہاؤس پر سائیکل فروخت کرنے والے ایک ہول سیل ڈیلر عدیل سلطان نے بتایا کہ اس وقت مارکیٹ میں مقامی اور غیر ملکی سائیکلیں فروخت ہو رہی ہیں، مقامی اور درآمدی سائیکلوں کی قیمتوں میں گزشتہ دو سالوں میں 50 سے 70 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ درآمدی چائنا سائیکلیں اٹالین سائیکلوں سے سستی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2022 میں بچوں مقامی سائیکل کی قیمت 8 ہزار تھی ، جو 2023 میں بڑھ کر 14 ہزار اور اب 2024 میں 22 ہزار یا اس سے زائد تک فروخت ہو رہی ہے۔ درآمدی سائیکلوں کی قیمتوں میں 80 سے 100 فیصد تک کا اضافہ ہو گیا ہے ۔ جو سائیکل 2022 میں 20 ہزار کی تھی ، وہ 2023 میں 23 اور اب 2024 میں 40 ہزار یا اس سے زائد میں فروخت ہو رہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ مارکیٹ میں 12 ہزار سے لے کر 5 لاکھ یا اس سے بھی زائد کی سائیکل دستیاب ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سائیکلوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اس کی فروخت میں 30 سے 40 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے اور موسم گرما میں سائیکلوں کی فروخت کا سیزن ہوتا ہے ۔ یہ سیزن بھی متاثر ہوا ہے ۔ بیشتر والدین کم قیمت سائیکل خریدنے کو ترجیح دے رہے ہیں ، جو 15 سے 25 ہزار کے درمیان ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بچیوں کی سائیکلنگ کرنے کے رحجان میں بھی اضافہ ہواہے اور یہ سائیکلنگ کا رحجان طبقہ اشرافیہ میں بڑھا ہے ۔ انہوںنے کہا کہ سائیکل کے پرزہ جات کی قیمتوں میں بھی 50 فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے ۔
پی آئی بی کالونی میں پرانی سائیکلیں فروخت کرنے والے ایک دکاندار اشرف خواجہ نے بتایا کہ پرانی سائیکلوں کی قیمتوں میں بھی 5 ہزار سے 8 ہزار تک کا اضافہ ہوا ہے۔ لیاقت آباد 10 نمبر سمیت لائٹ ہاوس اور دیگر علاقوں میں پرانی سائیکلیں فروخت ہوتی ہیں ۔ مقامی پرانی سائیکلیں 5 سال سے 15 سال تک کے بچوں کے لیے 8 ہزار سے 12 ہزار روپے تک میں فروخت ہو رہی ہیں جبکہ درآمدی سائیکلیں 15 ہزار سے 25 ہزار یا اس سے زائد میں فروخت ہو رہی ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ سائیکلوں کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے ہمارے کاروبار پر 30 سے 50 فیصد تک فرق پڑا ہے ۔ والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو 10ہزار روپے تک سائیکل دلا دیں ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: والدین اپنے بچوں انہوں نے کہا کہ پرانی سائیکلیں سائیکل کی قیمت بچوں کی تفریح کم آمدنی والے بیشتر والدین پرانی سائیکل فروخت ہو رہی اپنے بچوں کو اپنے بچوں کی والے والدین نے بتایا کہ نے بچوں کی والدین کی کراچی میں ہزار روپے کی وجہ سے اضافہ ہو کرتے ہیں مسائل کے فیصد تک کی کوشش میں بھی کے پاس بچے کو کے لیے سے بھی
پڑھیں:
سوزوکی آلٹو کی قیمتوں میں اضافہ، فائلرز اور نان فائلرز کے لیے ٹیکس بڑھ گیا
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 اپریل2025ء) اپریل 2025 میں پاک سوزوکی کی جانب سے سوزوکی آلٹو کے اپ گریڈڈ ورژن کی قیمتوں میں اضافے کے بعد فائلرز اور نان فائلرز کے لیے ٹیکس میں بھی نمایاں اضافہ کر دیا گیا ہے۔جاپانی کار ساز ادارے نے آلٹو کے اپ گریڈڈ ورژن میں کئی نئی خصوصیات شامل کی ہیں۔ ان خصوصیات میں تمام ویریئنٹس کے لیے اے بی ایس بریکنگ سسٹم، سیٹ بیلٹ پری ٹینشنرز اور ریمائنڈرز شامل ہیں جو حفاظت کو یقینی بناتے ہیں۔پاکستان کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کاروں میں شمار ہونے والی سوزوکی آلٹو، منفرد ایروڈائنامک ڈیزائن، دلکش ہیڈلیمپس، کشادہ کیبن، ایم پی 5 ٹچ اسکرین اور جدید اسٹوریج ایکسیسریز کے ساتھ ایک مکمل آرام دہ سواری فراہم کرتی ہے۔(جاری ہے)
660cc آلٹو میں R-سیریز کا تھری سلنڈر پٹرول انجن نصب ہے، جو اعلی کارکردگی کا حامل ہے۔سوزوکی آلٹو اپ گریڈڈ ورژن آلٹو وی ایکس آر (Alto VXR ) کی نئی قیمت 28 لاکھ 27 ہزار روپے ہے جس پر فائرز کو 14 ہزار 135 روپے جبکہ نان فائلرز کو 42 ہزار 405 روپے ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔
آلٹو وی ایکس آر اے جی ایس (Alto VXR-AGS) کی نئی قیمت 29 لاکھ 89 ہزار روپے ہے جس پر فائلرز کو 14 ہزار 945 روپے جبکہ نان فائلرز کو 44 ہزار 835 روپے ٹیکس اداکرنا ہو گا۔آلٹو وی ایکس ایل اے جی ایس (Alto VXL-AGS) کی نئی قیمت 31 لاکھ 40 ہزار روپے ہے جس پر فائلرز کو 15 ہزار 700 روپے جبکہ نان فائلر زکو 47 ہزار 100 روپے ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔