فافن نے 2025 کی رپورٹ میں پنجاب حکومت کو وفاق سے زیادہ شفاف قرار دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی 2025 کی رپورٹ شائع کردی گئی، فافن نے وفاق کے مقابلے میں پنجاب کی حکومت کو شفاف قرار دے دیا۔
ڈان نیوز کے مطابق فافن نے پنجاب میں اداروں کی کارکردگی کی شفافیت کی سطح پر مبنی رپورٹ پیش کردی ہے اور رپورٹ میں 253 سرکاری اداروں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب سیکریٹریٹ کے 43 محکموں، 27 منسلک محکموں، 147 خود مختار اداروں، 23 سرکاری کمپنیوں اور 13 اداروں کا جائزہ لیا گیا۔
فافن کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزارتیں اوسطاً 42 فیصد معلومات کا انکشاف کر رہی ہیں اور پنجاب حکومت کی شفافیت کی سطح وفاقی حکومت سے بہتر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قانونی تقاضوں کے مطابق پنجاب کے اداروں کی فعال طور پر 61 فیصد معلومات دستیاب ہیں اور پنجاب میں ذیلی ادارے 52 فیصد تک معلومات ویب سائٹس پر مہیا کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پنجاب کے بیشتر ذیلی اداروں نے 50 فیصد سے بھی کم معلومات ویب سائٹس پر فراہم کیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
صرف ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے کا نیا بوجھ، حکومتی قرضے 84 ہزار ارب سے متجاوز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وزارت خزانہ کی تازہ رپورٹ نے ملک کے بڑھتے ہوئے قرضوں کی سنگین صورتحال کو بے نقاب کردیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال کے دوران پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد قومی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اس تیزی سے بڑھتا ہوا قرض ملکی معیشت کے لیے سنگین خطرے کی علامت بن چکا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ آئی ایم ایف کے فریم ورک کے تحت پاکستان کے ذمے قرضوں کا تناسب اگلے 3 سال میں 70.8 فیصد سے کم ہوکر 60.8 فیصد تک لانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ مالی سال 2026ء سے 2028ء کے دوران قرضوں کی پائیداری برقرار رہنے کی توقع ہے، تاہم خطرات اب بھی موجود ہیں۔
اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ جون 2025ء تک مجموعی قرض 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا، جب کہ صرف گزشتہ ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا جب کہ فنانسنگ کی ضروریات آئندہ برسوں میں 18.1 فیصد کی بلند سطح پر برقرار رہیں گی۔
وزارت خزانہ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ مالی سال میں مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ہوئی، تاہم قرضوں کا حجم اب بھی تشویشناک حد تک بلند ہے۔
رپورٹ میں قرضوں سے متعلق خطرات اور چیلنجز کی تفصیلی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ معاشی سست روی کو قرضوں کی پائیداری کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے جب کہ ایکسچینج ریٹ میں اتار چڑھاؤ اور شرح سود میں تبدیلی کو قرض کے بوجھ میں اضافے کی بنیادی وجوہات بتایا گیا ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان کے مجموعی قرضوں کا 67.7 فیصد اندرونی جب کہ 32.3 فیصد بیرونی قرضوں پر مشتمل ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 80 فیصد قرض فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیا گیا، جس سے شرح سود کا خطرہ برقرار ہے۔ مختصر مدت کے قرضوں کی شرح 24 فیصد ہے، جس سے ری فنانسنگ کا دباؤ بڑھا ہوا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ زیادہ تر بیرونی قرضے رعایتی نوعیت کے ہیں، جو دوطرفہ اور کثیرالجہتی ذرائع سے حاصل کیے گئے، تاہم فلوٹنگ ریٹ والے بیرونی قرضوں کی شرح 41 فیصد ہے، جو درمیانی سطح کے خطرے کی نشاندہی کرتی ہے۔