نیوزی لینڈ جیسا بڑا واقعہ دہرانے کی دھمکی، آسٹریلیا کی مساجد میں سیکورٹی ہائی الرٹ
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
نیوزی لینڈ جیسا بڑا واقعہ دہرانے کی دھمکی، آسٹریلیا کی مساجد میں سیکورٹی ہائی الرٹ WhatsAppFacebookTwitter 0 4 March, 2025 سب نیوز
سڈنی (سب نیوز )آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے مغربی علاقے میں واقع ایک مسجد کو موصول ہونے والی سنگین دھمکی کے بعد پولیس نے بڑے پیمانے پر تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ایڈمونسن پارک میں موجود آسٹریلین اسلامک ہا ئو س مسجد البیت الاسلامی نے منگل کی شب ایک بیان میں بتایا کہ انہیں انسٹاگرام پر ایک دھمکی آمیز پیغام موصول ہوا، جس میں لکھا تھا، Im about to christ church 2.
یہ دھمکی 2019 میں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں پیش آنے والے اندوہناک واقعے کی طرف اشارہ کرتی ہے، جب آسٹریلوی دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ نے ایک مسجد پر حملہ کر کے 51 نمازیوں کو شہید کر دیا تھا۔آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز نے اس نفرت انگیز دھمکی کو قابل مذمت قرار دیتے ہوئے حکام کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ مجرموں کو قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا میں اس قسم کی حرکتوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ نسل پرستی اور اسلاموفوبیا کسی صورت برداشت نہیں کیے جائیں گے۔مسجد کی انتظامیہ نے دھمکی کے حوالے سے فوری طور پر متعلقہ حکام کو مطلع کیا، جس پر پولیس نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ مسجد کی انتظامیہ نے اعلان کیا کہ رمضان کی راتوں میں ہونے والی خصوصی عبادات معمول کے مطابق جاری رہیں گی، البتہ پولیس کی نگرانی میں اضافہ کیا جائے گا۔
مسجد کے صدر مظہر حدید نے کہا، ہم اس دھمکی کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ ہماری کمیونٹی کو محفوظ محسوس کرنے کا حق حاصل ہے، اور ہم حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری کارروائی کریں۔انہوں نے عوام سے بھی اپیل کی کہ وہ اسلاموفوبیا اور نفرت کے خلاف متحد ہو جائیں۔
سوشل میڈیا پر مسجد کے حامیوں نے آسٹریلیا میں بڑھتی ہوئی اسلاموفوبیا پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ کئی صارفین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ عبادت گاہوں کی سیکیورٹی مزید سخت کی جائے اور مساجد کے باہر مستقل سیکیورٹی گارڈز تعینات کیے جائیں۔
نیوساتھ ویلز پولیس نے تصدیق کی کہ یہ دھمکی پیر کے روز آن لائن دی گئی تھی، جس کے بعد اسٹرائیک فورس پرل کے تحت تحقیقات میں تیزی لائی گئی۔ پولیس کے ترجمان کے مطابق، ابھی کوئی براہ راست خطرہ موجود نہیں، اور ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ دھمکی دینے والا شخص کسی دوسرے ریاست سے ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیوساتھ ویلز پولیس نفرت پر مبنی جرائم کو سنجیدگی سے لیتی ہے اور عوام کو تاکید کی کہ اگر وہ کسی بھی نفرت انگیز جرم کے گواہ بنیں یا متاثر ہوں، تو فوری طور پر پولیس یا کرائم اسٹاپرز سے رابطہ کریں۔نیوساتھ ویلز کے وزیر اعلی کرس مینز نے اس واقعے کو انتہائی تکلیف دہ قرار دیا، خاص طور پر اس وقت جب مسلمان رمضان کے مقدس مہینے میں عبادات میں مشغول ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نسلی امتیاز اور اسلاموفوبیا کسی صورت برداشت نہیں کیے جائیں گے، اور ایسے اقدامات کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔وزیر برائے کثیر الثقافتی امور اسٹیو کیمپر نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دھمکانے اور تقسیم پیدا کرنے کے عزائم رکھنے والے افراد کے لیے ہماری سوسائٹی میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ عبادت گاہیں ہمیشہ ایک محفوظ مقام ہونی چاہئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ چاہے آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، نسل یا ملک سے ہو، سب سے پہلے ہم ایک قوم ہیں اور ایک دوسرے کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔ حکام نے عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ کسی بھی مشکوک سرگرمی کی فوری اطلاع دیں اور نفرت انگیز رویوں کے خلاف متحد رہیں۔ مسجد انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی کمیونٹی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گی، اور رمضان کی عبادات کسی خوف کے بغیر جاری رکھی جائیں گی۔
ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
آج کا پاکستان کل جیسا نہیں رہا! نئی صف بندی؟
جب دشمن یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ جھوٹ، فریب اور پروپیگنڈے سے سچ کو دبا لیں گے، تب قدرت خود سچ کو آواز بخشتی ہے۔
کچھ ایسا ہی ہوا جب بھارت نے ایک بار پھر بغیر ثبوت کے پاکستان پر حملے کا جواز گھڑا اور میزائلوں کی بارش کرنے کی کوشش کی۔ مگر یہ 1965 یا 1971 کا پاکستان نہیں تھا — یہ وہ پاکستان تھا جس نے نہ صرف دشمن کے طیارے مار گرائے، بلکہ دنیا کو اپنی دفاعی حکمتِ عملی سے حیران کر دیا۔
بھارت کی جنگی مہم جوئی کا آغاز پہلگام واقعہ سے ہوا، جسے بنیاد بنا کر وہ ایک اور فالس فلیگ آپریشن کے ذریعے عالمی ہمدردی سمیٹنا چاہتا تھا۔ لیکن جب پاکستان نے بروقت اور کرارا جواب دیا تو بھارت کو اپنا چہرہ چھپانا مشکل ہو گیا۔
پاکستان کی جرات مندانہ کارروائیوں نے محض چند گھنٹوں میں جنگ کا پانسہ پلٹ دیا، یہاں تک کہ دہلی کے ایوانوں میں گھٹن طاری ہو گئی۔
جب قومیں بکھرتی ہیں تو ایک لیڈر ابھرتا ہے۔ پاکستان کے فیلڈ مارشل نے مودی کو واضح پیغام دیا: ’کشمیر ہماری شہ رگ ہے، اور تمہاری شرارتوں کا ایسا جواب دیا جائے گا کہ تمہاری نسلیں یاد رکھیں گی‘۔ اس ایک جملے نے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے اعصاب ہلا دیے۔
جہاں بھارت کو صرف اسرائیل کی حمایت حاصل تھی، وہیں پاکستان کے ساتھ چین، ترکیہ، آذربائیجان، ایران، اور دیگر مسلم ممالک کھڑے دکھائی دیے۔
دنیا نے دیکھا کہ پاکستان نہ صرف دفاعی طور پر طاقتور ہے بلکہ سفارتی میدان میں بھی متحرک اور مؤثر ہے۔ چین کے دفاعی تجزیہ کار نے بھارتی جنرل بخشی کو ’تاریخ پڑھنے‘ کا مشورہ دے کر دنیا کو یاد دلایا کہ حقیقت پراپیگنڈے سے بڑی ہوتی ہے۔
پاکستانی میڈیا نے جس طرح بھارتی گودی میڈیا کو آئینہ دکھایا، وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ارناب گوسوامی جیسے پروپیگنڈہ ماسٹرز کی زبانیں بند ہو گئیں، اور بھارتی عوام کو اپنی اصل حیثیت کا اندازہ ہونے لگا۔
سچائی ہمیشہ بولتی ہے، جب پاکستانی نوجوان دشمن کی گولی سے ڈرنے کے بجائے شہادت کو گلے لگانے کی بات کرے، تو وہ قوم ناقابلِ شکست بن جاتی ہے۔
آج جب پاکستان بیک وقت بھارت، اسرائیل، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور افغان سرزمین سے ہونے والی کارروائیوں سے نبرد آزما ہے، تب ہمیں 313 کی یاد آتی ہے۔ وہ 313 جو بدر میں تھے، جن کے ساتھ اللہ کی مدد تھی۔
آج بھی امت مسلمہ کو اسی جذبے، ایمان، اور قیادت کی ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم اگر متحد ہو جائے تو یہ وقت کا سپر پاور بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
سوال نہیں، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے نہ صرف لڑ کر دکھایا بلکہ دشمن کو مجبور کیا کہ وہ سیزفائر کی بھیک مانگے۔ جب نظریہ اور ایمان غالب آ جائے، تو ہتھیار پیچھے رہ جاتے ہیں۔
پاکستان نے دنیا کو بتا دیا کہ وہ ایک نہیں، بلکہ 13 سو دشمنوں سے لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے، کیونکہ اس کے پیچھے صرف فوج نہیں، بلکہ ایک نظریہ، ایک قوم، اور ایک عقیدہ کھڑا ہے۔
آج کا پاکستان، کل کے پاکستان سے مختلف ہے۔ اب دشمن صرف سرحد پر حملہ نہیں کرتا، وہ ذہنوں، بیانیے اور معیشت پر بھی وار کرتا ہے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے: ’جب قومیں نظریے سے جُڑتی ہیں، تب ان کی طاقت کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی‘۔
پاکستان کو صرف ہتھیاروں سے نہیں، یقین، اتحاد، قربانی اور ایمان سے جیت حاصل کرنی ہے۔ اور یہی وہ روح ہے جس سے غزوۂ ہند کی خوشبو آتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں