Islam Times:
2025-11-03@05:11:10 GMT

بن سلمان کو زیلنسکی کی تذلیل سے عبرت حاصل کرنیکا مشورہ

اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT

بن سلمان کو زیلنسکی کی تذلیل سے عبرت حاصل کرنیکا مشورہ

اسلام ٹائمز: یمنی تحریک کے سیاسی دفتر کے رکن محمد فرح نے ورچوئل نیٹ ورک ایکس (سابقہ ​​ٹویٹر) پر سعودی حکام کے نام ایک پیغام میں لکھا ہے کہ "کیا آپ نے دیکھا کہ امریکہ نے مشرقی یورپ میں اپنے ایک اتحادی اور کرائے کے فوجی کے ساتھ کیا سلوک کیا، جو کہ ایک یہودی ایجنٹ تھا، اور امریکیوں نے کس طرح یوکرین سے سب کچھ واپس لے لیا؟" اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آپ کی جائیداد اور اثاثے جو آپ نے امریکی بینکوں میں جمع کر رکھے ہیں وہ محفوظ رہیں گے؟ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ امریکی آپ سے منہ نہیں موڑیں گے اور آپ کے رویوں کی مذمت نہیں کریں گے؟ جیسا کہ انہوں نے یوکرینیوں کے ساتھ کیا ۔" جب وہ اپنے پیاروں کے ساتھ حقارت اور توہین کا برتاؤ کرتے ہیں تو وہ ان لوگوں سے کیسا سلوک کریں گے جن سے وہ نفرت کرتے ہیں، یعنی عربوں اور مسلمانوں سے؟ ترتیب و تنظیم: علی احمدی

یمنی تحریک کے سیاسی بیورو کے ایک رکن نے سعودی حکام کے نام پیغام میں وائٹ ہاؤس میں "ولادیمیر زیلنسکی" کی تذلیل سے عبرت حاصل کرنے کا کہا ہے۔ 2015 میں شروع ہونے والی جنگ کو یمنی انصار اللہ اور سعودی اتحاد کے درمیان ایک پیچیدہ تنازعہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس جنگ میں سعودی قیادت میں متحدہ عرب امارات سمیت مختلف ممالک مشتمل اتحاد نے"منصور ہادی" کی سربراہی میں یمنی حکومت کے دفاع کا بہانہ بنا کر یمن میں مداخلت کا آغاز کیا تھا۔ اس سے پہلے حوثی یمنیوں نے ستمبر 2014 میں دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر کے اسے آزاد کرایا اور ہادی حکومت کو بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔ اس کارروائی کے جواب میں سعودی حکومت نے ملک میں منصور ہادی کٹھ پتلی حکومت کی خودمختاری بحال کرنے کے لیے محصور یمن پر فضائی اور زمینی حملے شروع کر دیے تھے۔

اس دوران صیہونی حکومت، امریکہ اور بعض دوسرے ممالک نے بھی سعودیوں کی کھلے اور ڈھکے چھپے مدد کی۔ ابتدائی طور پر یہ پیشین گوئیاں تھیں کہ سعودی اتحاد اس جنگ کو اپنے حق میں جلد ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ تاہم انصار اللہ نے موثر حکمت عملی اور یمن کی جغرافیائی صورتحال کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے فضائی اور زمینی حملوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کامیابیاں حاصل کیں اور بتدریج عسکری اور اقتصادی پیش رفت سے تجزیہ نگاروں کو حیران کر دیا۔ سعودی حکومت اور اس کے اتحاد  کے لئے سب سے بڑا جھٹکا سعودیہ کے اقتصادی اور فوجی انفراسٹرکچر پر انصار اللہ کے میزائل اور ڈرون حملے تھے۔ ان حملوں، خاص طور پر ستمبر 2019 میں آرامکو کی تیل تنصیبات پر حملے نے سعودی معیشت پر بڑا اثر ڈالا اور یہ ثابت ہوا کہ انصار اللہ سعودی معیشت کے اہم شعبوں کو شدید نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس کے علاوہ یمن کی سعودی سرحد پر ہونے والی لڑائیوں میں بھی سعودی حکومت کا بھاری فوجی جانی نقصان ہوا، جس سے جنگ کے اخراجات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ اس دوران آل سعود نے حتی الامکان خود کو امریکی پالیسیوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا۔ امریکہ پر اعتماد کے بارے میں انصار اللہ نے محمد بن سلمان کو وارنگ جاری کی ہے اور یوکرینی صدر کی تذلیل سے عبرت حآصل کرنیکا مشورہ دیا ہے۔ ان جنگوں میں انصار اللہ کی عسکری طاقت اور حکمت عملیوں کے بارے میں جو کچھ دیکھا گیا ہے اور ان کی دھمکیوں کے سچے ہونے کے موجودہ شواہد کو دیکھتے ہوئے، ان انتباہات کو ایک حقیقی اور اہم خطرہ سمجھا جانا چاہیے۔ امریکہ پر سعودی حکومت کے جھوٹے اعتماد کے بارے میں انصار اللہ کے انتباہات کی بھی کافی ثبوتوں سے تصدیق ہوتی ہے۔

جیسا کہ یمن کی انصار اللہ تحریک کے رہنماوں میں سے ایک نے سعودی حکام کے نام ایک پیغام میں ان سے وائٹ ہاؤس میں ہونے والے واقعات اور وہاں "ولادیمیر زیلنسکی" کی تذلیل سے سبق سیکھنے کو کہا ہے۔ یمنی تحریک کے سیاسی دفتر کے رکن محمد فرح نے ورچوئل نیٹ ورک ایکس (سابقہ ​​ٹویٹر) پر سعودی حکام کے نام ایک پیغام میں لکھا ہے کہ "کیا آپ نے دیکھا کہ امریکہ نے مشرقی یورپ میں اپنے ایک اتحادی اور کرائے کے فوجی کے ساتھ کیا سلوک کیا، جو کہ ایک یہودی ایجنٹ تھا، اور امریکیوں نے کس طرح یوکرین سے سب کچھ واپس لے لیا؟" اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آپ کی جائیداد اور اثاثے جو آپ نے امریکی بینکوں میں جمع کر رکھے ہیں وہ محفوظ رہیں گے؟ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ امریکی آپ سے منہ نہیں موڑیں گے اور آپ کے رویوں کی مذمت نہیں کریں گے؟ جیسا کہ انہوں نے یوکرینیوں کے ساتھ کیا ۔"

 انصار اللہ یمن کے اس سینئر رکن نے زور دے کر کہا ہے کہ جب وہ اپنے پیاروں کے ساتھ حقارت اور توہین کا برتاؤ کرتے ہیں تو وہ ان لوگوں سے کیسا سلوک کریں گے جن سے وہ نفرت کرتے ہیں، یعنی عربوں اور مسلمانوں سے؟ زیلنسکی کی قیادت میں یوکرین امریکی حمایت کے سراب میں مبتلا ہو کر جنگ ​​کے گڑھے میں گرا، یہی حشر یمن اور انصار اللہ کے خلاف لڑنے والوں کا بھی ہوگا۔ واضح رہے کہ 1932 میں وجود میں آنیوالی سعودی رجیم کے آج تک امریکہ کے ساتھ تعلقات ہیں، سعودی اقتصاد اور سلامتی کا انحصار امریکہ پر ہے، سعودیہ تیل کی فروخت، مغرب کو توانائی کی فراہمی اور تیل پیدا کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہونے کے طور پر امریکہ کے لیے ہمیشہ ایک اہم شراکت دار رہا ہے۔ تیل کے بدلے امریکہ نے سعودیوں کو جدید ترین فوجی سازوسامان اور سیکورٹی کے نام پر مدد فراہم کی ہے۔

یہ تعلقات حالیہ دہائیوں میں سعودیوں کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت سے مزید وسیع ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر صرف 2017 میں سعودیوں نے امریکہ سے جدید ہتھیار خریدنے کے لیے $110 بلین کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ امریکہ پر یہ فوجی انحصار سعودی حکومت کو خطے میں اپنی فوجی طاقت سے استفادہ کا باعث بنا۔ خاص طور پر یمن کی جنگ اور شام کی بغاوت میں جہاں امریکہ سعودی اتحاد کا بالواسطہ حامی رہا ہے۔ یقیناً ہم نے اس ’’طاقت کے آسان استعمال‘‘ کے نتائج دیکھے ہیں۔ لیکن وہیں پر یہ یک طرفہ رشتہ ہے۔ سعودی عرب میں انسانی حقوق کے بارے میں امریکی پالیسیاں اقتصادی اور عسکری تعلقات پر اثرانداز ہوئی ہیں۔ سعودی حکومت کو یہ جان لینا چاہیے کہ اگر ضرورت پڑی تو یہ ایشوز ہتھوڑے میں تبدیل ہو جائیں گے جو  دودھ دینے والی عرب گائے کا سر توڑ دیں گے۔

 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ماہ قبل سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے فون پر بات کی تھی، جس  دوران بن سلمان نے مملکت کے اگلے چار سالوں میں امریکا کے ساتھ تجارت بڑھانے کے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔ بن سلمان نے اس سرمایہ کاری کی رقم 600 بلین ڈالر اور ممکنہ طور پر اس سے زیادہ ہونے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان اس کے بعد سامنے آیا تھا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر ریاض 500 بلین ڈالر کی امریکی مصنوعات خریدنے پر راضی ہو جائے، تو یہ ملک ان کی پہلے غیر ملکی سفر کی منزل ہو سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت کے دوران، سعودی عرب ان کے غیر ملکی دوروں کی پہلی منزل تھا، اور اس دوران دونوں ممالک نے تقریباً 400 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے کئی معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔ بس امریکہ کی دوستی کا مقصد صرف یہی ہے، یعنی 400 بلین سے 600 بلین کمانا اور ہضم کر جانا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سعودی حکام کے نام سعودی حکومت کے بارے میں کے ساتھ کیا کی تذلیل سے انصار اللہ امریکہ پر پیغام میں کرتے ہیں تحریک کے کریں گے یمن کی

پڑھیں:

امریکی دھمکیوں اور اسرائیلی جارحیت کی حمایت سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، شیخ نعیم قاسم

خوراک، زرعی مصنوعات اور دستکاری کی نمائش کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ یہ مارکیٹ ایک تخلیقی اور نتیجہ خیز خیال ہے اور ہمیں اس بازار کے لیے جہاد البناء فاؤنڈیشن کی کوششوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ اسلام ٹائمز۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے اپنے خطاب میں اعلان کیا ہے کہ واشنگٹن اسرائیلی جارحیت کو جواز فراہم کرتا ہے اور وہ کبھی بھی ایماندار اور غیر جانبدار ثالث نہیں رہا، بلکہ اسرائیلی جارحیت کا اصل حامی ہے۔ حزب اللہ تحریک کے سکریٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے آج خوراک، زرعی مصنوعات اور دستکاری کی نمائش کی افتتاحی تقریب میں کہا کہ یہ مارکیٹ ایک تخلیقی اور نتیجہ خیز خیال ہے اور ہمیں اس بازار کے لیے جہاد البناء فاؤنڈیشن کی کوششوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بازار میں حصہ لینے والے، زمین کے (اصل) لوگ اور جنوبی لبنان میں واپس آنے والے وہ لوگ ہیں جو آج اگلی صفوں پر ثابت قدم ہیں اور زمین کی فصل کاٹ رہے ہیں۔

شیخ نعیم قاسم نے تاکید کی کہ لبنان کا ہر ٹکڑا اس ملک کا حصہ ہے، مستقبل میں زمین کا مالک  وہی ہے، جو مزاحمت کرے گا، جو زمین چھوڑ دے گا، اور جو اس پر سودا کرے گا وہ اسے کھو دے گا۔ انہوں نے کہا کہ جو کوئی بھی طائف معاہدے کی پاسداری کرنا چاہتا ہے وہ اس کے ایک حصے کا انتخاب نہیں کر سکتا اور دوسرے حصوں کو ترک نہیں کر سکتا، پہلی ترجیح زمین کو آزاد کرانا ہے۔ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے صیہونی حکومت کی مسلسل امریکی حمایت اور لبنان میں جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں پر اس کی طرف سے حکومت کو دیئے جانے والے گرین سگنل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سطحی طور پر امریکہ لبنان کے بحران کے حل اور صیہونی حکومت کی جارحیت کو روکنے کے لیے ثالث ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ امریکہ اسرائیلی جارحیت کا اصل حامی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن کا اصل ہدف لبنان کی خودمختاری اور آزادی کو کمزور کرنا اور علاقے میں صیہونی حکومت کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کی حمایت کرنا ہے، جب کہ امریکی ایلچی لبنان کا سفر کرتے ہیں اور استحکام کی حمایت کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن عملی طور پر ان کے بیانات کا مقصد اسرائیلی جارحیت کو جواز فراہم کرنا ہے۔ شیخ نعیم قاسم نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ امریکہ ہمیشہ لبنان پر الزام لگاتا ہے اور دباؤ ڈال کر اس ملک کی فوج کو سنگین حرکتوں مجبور کرنیکی کوشش کرتا ہے تاکہ لبنان کی طاقت اور آزادی محدود رہے۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ صیہونی حکومت کی طرف سے پانچ ہزار سے زائد جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر امریکہ کا موقف کیا ہے؟ حزب اللہ تحریک کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ابھی تک اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کے لیے واشنگٹن کی طرف سے کوئی مذمت یا سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

شیخ نعیم قاسم نے تاکید کی کہ دھمکیاں ہمارے موقف کو تبدیل نہیں کریں گی اور ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے یا جبری وعدوں کو قبول نہیں کریں گے، ہماری زمین کے ساتھ ہمارے تعلق کی مضبوطی ان کی فوجی صلاحیتوں سے زیادہ مضبوط ہے، چاہے وہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مزاحمت لبنان کے لیے ایک مضبوط نقطہ ہے جسے برقرار رکھنا ضروری ہے، تم قتل کر سکتے ہو لیکن ہمارے اندر سے غیرت اور افتخار کے جذبے کو ختم نہیں کر سکتے اور ہمارے دلوں اور زندگیوں سے زمین کی محبت کو ختم نہیں کر سکتے۔ شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ لبنانی صدر کا موقف ایک ذمہ دارانہ حیثیت کا حامل رہا ہے، جس نے فوج کو اسرائیلی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے تاکید کی کہ اس موقف کو اتحاد کے ساتھ مضبوط ہونا چاہیے اور ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوج کی حمایت کے منصوبے پر غور کرے تاکہ وہ دشمن کے مقابلے میں کھڑی ہوسکے۔

متعلقہ مضامین

  • عراق میں نیا خونریز کھیل۔۔۔ امریکہ، جولانی اتحاد۔۔۔ حزبِ اللہ کیخلاف عالمی منصوبے
  • امریکا، 4 لاکھ 55 ہزار خواتین رواں سال ملازمتیں چھوڑ گئیں
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • شاہد خاقان عباسی کی انجیوپلاسٹی، ڈاکٹروں نے آرام کا مشورہ دیا
  • وینیزویلا پر حملہ کر کے مجھے اقتدار دیں، نوبل امن انعام یافتہ خاتون کی امریکہ کو دعوت
  • امریکی دھمکیوں اور اسرائیلی جارحیت کی حمایت سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، شیخ نعیم قاسم
  • اجازت نہیں دیں گے کہ کوئی مجرم ہمیں دھمکائے، انصار اللّہ
  • عمرہ زائرین کیلئے نئی شرط، سعودی حکومت نے پالیسی میں بڑی تبدیلی کر دی
  • ایران میں امریکی سفارتخانے پر قبضے کے گہرے اثرات
  • امریکہ، حکومتی شٹ ڈاؤن کا سنگین اثر