بن سلمان کو زیلنسکی کی تذلیل سے عبرت حاصل کرنیکا مشورہ
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یمنی تحریک کے سیاسی دفتر کے رکن محمد فرح نے ورچوئل نیٹ ورک ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر سعودی حکام کے نام ایک پیغام میں لکھا ہے کہ "کیا آپ نے دیکھا کہ امریکہ نے مشرقی یورپ میں اپنے ایک اتحادی اور کرائے کے فوجی کے ساتھ کیا سلوک کیا، جو کہ ایک یہودی ایجنٹ تھا، اور امریکیوں نے کس طرح یوکرین سے سب کچھ واپس لے لیا؟" اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آپ کی جائیداد اور اثاثے جو آپ نے امریکی بینکوں میں جمع کر رکھے ہیں وہ محفوظ رہیں گے؟ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ امریکی آپ سے منہ نہیں موڑیں گے اور آپ کے رویوں کی مذمت نہیں کریں گے؟ جیسا کہ انہوں نے یوکرینیوں کے ساتھ کیا ۔" جب وہ اپنے پیاروں کے ساتھ حقارت اور توہین کا برتاؤ کرتے ہیں تو وہ ان لوگوں سے کیسا سلوک کریں گے جن سے وہ نفرت کرتے ہیں، یعنی عربوں اور مسلمانوں سے؟ ترتیب و تنظیم: علی احمدی
یمنی تحریک کے سیاسی بیورو کے ایک رکن نے سعودی حکام کے نام پیغام میں وائٹ ہاؤس میں "ولادیمیر زیلنسکی" کی تذلیل سے عبرت حاصل کرنے کا کہا ہے۔ 2015 میں شروع ہونے والی جنگ کو یمنی انصار اللہ اور سعودی اتحاد کے درمیان ایک پیچیدہ تنازعہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس جنگ میں سعودی قیادت میں متحدہ عرب امارات سمیت مختلف ممالک مشتمل اتحاد نے"منصور ہادی" کی سربراہی میں یمنی حکومت کے دفاع کا بہانہ بنا کر یمن میں مداخلت کا آغاز کیا تھا۔ اس سے پہلے حوثی یمنیوں نے ستمبر 2014 میں دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر کے اسے آزاد کرایا اور ہادی حکومت کو بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔ اس کارروائی کے جواب میں سعودی حکومت نے ملک میں منصور ہادی کٹھ پتلی حکومت کی خودمختاری بحال کرنے کے لیے محصور یمن پر فضائی اور زمینی حملے شروع کر دیے تھے۔
اس دوران صیہونی حکومت، امریکہ اور بعض دوسرے ممالک نے بھی سعودیوں کی کھلے اور ڈھکے چھپے مدد کی۔ ابتدائی طور پر یہ پیشین گوئیاں تھیں کہ سعودی اتحاد اس جنگ کو اپنے حق میں جلد ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ تاہم انصار اللہ نے موثر حکمت عملی اور یمن کی جغرافیائی صورتحال کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے فضائی اور زمینی حملوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کامیابیاں حاصل کیں اور بتدریج عسکری اور اقتصادی پیش رفت سے تجزیہ نگاروں کو حیران کر دیا۔ سعودی حکومت اور اس کے اتحاد کے لئے سب سے بڑا جھٹکا سعودیہ کے اقتصادی اور فوجی انفراسٹرکچر پر انصار اللہ کے میزائل اور ڈرون حملے تھے۔ ان حملوں، خاص طور پر ستمبر 2019 میں آرامکو کی تیل تنصیبات پر حملے نے سعودی معیشت پر بڑا اثر ڈالا اور یہ ثابت ہوا کہ انصار اللہ سعودی معیشت کے اہم شعبوں کو شدید نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس کے علاوہ یمن کی سعودی سرحد پر ہونے والی لڑائیوں میں بھی سعودی حکومت کا بھاری فوجی جانی نقصان ہوا، جس سے جنگ کے اخراجات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ اس دوران آل سعود نے حتی الامکان خود کو امریکی پالیسیوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا۔ امریکہ پر اعتماد کے بارے میں انصار اللہ نے محمد بن سلمان کو وارنگ جاری کی ہے اور یوکرینی صدر کی تذلیل سے عبرت حآصل کرنیکا مشورہ دیا ہے۔ ان جنگوں میں انصار اللہ کی عسکری طاقت اور حکمت عملیوں کے بارے میں جو کچھ دیکھا گیا ہے اور ان کی دھمکیوں کے سچے ہونے کے موجودہ شواہد کو دیکھتے ہوئے، ان انتباہات کو ایک حقیقی اور اہم خطرہ سمجھا جانا چاہیے۔ امریکہ پر سعودی حکومت کے جھوٹے اعتماد کے بارے میں انصار اللہ کے انتباہات کی بھی کافی ثبوتوں سے تصدیق ہوتی ہے۔
جیسا کہ یمن کی انصار اللہ تحریک کے رہنماوں میں سے ایک نے سعودی حکام کے نام ایک پیغام میں ان سے وائٹ ہاؤس میں ہونے والے واقعات اور وہاں "ولادیمیر زیلنسکی" کی تذلیل سے سبق سیکھنے کو کہا ہے۔ یمنی تحریک کے سیاسی دفتر کے رکن محمد فرح نے ورچوئل نیٹ ورک ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر سعودی حکام کے نام ایک پیغام میں لکھا ہے کہ "کیا آپ نے دیکھا کہ امریکہ نے مشرقی یورپ میں اپنے ایک اتحادی اور کرائے کے فوجی کے ساتھ کیا سلوک کیا، جو کہ ایک یہودی ایجنٹ تھا، اور امریکیوں نے کس طرح یوکرین سے سب کچھ واپس لے لیا؟" اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آپ کی جائیداد اور اثاثے جو آپ نے امریکی بینکوں میں جمع کر رکھے ہیں وہ محفوظ رہیں گے؟ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ امریکی آپ سے منہ نہیں موڑیں گے اور آپ کے رویوں کی مذمت نہیں کریں گے؟ جیسا کہ انہوں نے یوکرینیوں کے ساتھ کیا ۔"
انصار اللہ یمن کے اس سینئر رکن نے زور دے کر کہا ہے کہ جب وہ اپنے پیاروں کے ساتھ حقارت اور توہین کا برتاؤ کرتے ہیں تو وہ ان لوگوں سے کیسا سلوک کریں گے جن سے وہ نفرت کرتے ہیں، یعنی عربوں اور مسلمانوں سے؟ زیلنسکی کی قیادت میں یوکرین امریکی حمایت کے سراب میں مبتلا ہو کر جنگ کے گڑھے میں گرا، یہی حشر یمن اور انصار اللہ کے خلاف لڑنے والوں کا بھی ہوگا۔ واضح رہے کہ 1932 میں وجود میں آنیوالی سعودی رجیم کے آج تک امریکہ کے ساتھ تعلقات ہیں، سعودی اقتصاد اور سلامتی کا انحصار امریکہ پر ہے، سعودیہ تیل کی فروخت، مغرب کو توانائی کی فراہمی اور تیل پیدا کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہونے کے طور پر امریکہ کے لیے ہمیشہ ایک اہم شراکت دار رہا ہے۔ تیل کے بدلے امریکہ نے سعودیوں کو جدید ترین فوجی سازوسامان اور سیکورٹی کے نام پر مدد فراہم کی ہے۔
یہ تعلقات حالیہ دہائیوں میں سعودیوں کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت سے مزید وسیع ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر صرف 2017 میں سعودیوں نے امریکہ سے جدید ہتھیار خریدنے کے لیے $110 بلین کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ امریکہ پر یہ فوجی انحصار سعودی حکومت کو خطے میں اپنی فوجی طاقت سے استفادہ کا باعث بنا۔ خاص طور پر یمن کی جنگ اور شام کی بغاوت میں جہاں امریکہ سعودی اتحاد کا بالواسطہ حامی رہا ہے۔ یقیناً ہم نے اس ’’طاقت کے آسان استعمال‘‘ کے نتائج دیکھے ہیں۔ لیکن وہیں پر یہ یک طرفہ رشتہ ہے۔ سعودی عرب میں انسانی حقوق کے بارے میں امریکی پالیسیاں اقتصادی اور عسکری تعلقات پر اثرانداز ہوئی ہیں۔ سعودی حکومت کو یہ جان لینا چاہیے کہ اگر ضرورت پڑی تو یہ ایشوز ہتھوڑے میں تبدیل ہو جائیں گے جو دودھ دینے والی عرب گائے کا سر توڑ دیں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ماہ قبل سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے فون پر بات کی تھی، جس دوران بن سلمان نے مملکت کے اگلے چار سالوں میں امریکا کے ساتھ تجارت بڑھانے کے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔ بن سلمان نے اس سرمایہ کاری کی رقم 600 بلین ڈالر اور ممکنہ طور پر اس سے زیادہ ہونے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان اس کے بعد سامنے آیا تھا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر ریاض 500 بلین ڈالر کی امریکی مصنوعات خریدنے پر راضی ہو جائے، تو یہ ملک ان کی پہلے غیر ملکی سفر کی منزل ہو سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت کے دوران، سعودی عرب ان کے غیر ملکی دوروں کی پہلی منزل تھا، اور اس دوران دونوں ممالک نے تقریباً 400 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے کئی معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔ بس امریکہ کی دوستی کا مقصد صرف یہی ہے، یعنی 400 بلین سے 600 بلین کمانا اور ہضم کر جانا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سعودی حکام کے نام سعودی حکومت کے بارے میں کے ساتھ کیا کی تذلیل سے انصار اللہ امریکہ پر پیغام میں کرتے ہیں تحریک کے کریں گے یمن کی
پڑھیں:
پی ٹی آئی کو احتجاجی تحریک سے کچھ حاصل نہیں ہو گا، رانا ثنا اللہ
فیصل آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) احتجاجی تحریک شروع نہ کرے تو بہتر ہے کیوں کہ انہیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔فیصل آباد میں نماز عید کی ادائیگی کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران راناثنااللہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی قیادت کو کوئی غلط فہمی ہے تو وہ بھی دور ہوجائے گی اور وہ اس تحریک سے اپنے کارکنوں کے لیے صرف مشکل ہی پیدا کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اس وقت کوئی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، تحریک انصاف ذاتی کے بجائے قومی معاملات پر سیاست کرے۔ان کا کہنا تھا کہ پوزیشن اپوزیشن ہمارے ساتھ بیٹھ کر الیکشن قوانین میں ترامیم کرے اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے بات کرے۔ رانا ثنااللہ نے کہا کہ پاکستان معاشی استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے تاہم اسے درپیش چیلنجز سے نکالنے کے لیے سیاسی اتفاق اور معاشی ایجنڈے پر ہم آہنگی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
وہ دن دور نہیں جب بانی پی ٹی آئی رہا ہو کر اپنی قوم کے درمیان ہوں گے، عمر ایوب
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن پہلے میثاق معیشت کرے اور پھر سیاست سمیت دیگر مسائل پر بھی بات ہوجائے گی۔انہوں نے اپوزیشن رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ وزیراعظم شہباز شریف کی دعوت قبول کرتے ہوئے ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن کی تشکیل پر اتفاق کریں تاکہ آئندہ انتخابات شفاف ہوں اور کسی کو اعتراض نہ ہو۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ذیلی ریاست سمجھنے والا مودی منہ چھپارہا ہے، بھارت نے پاکستان کو کمزور سمجھ کر حملہ کرنے کی حماقت کی مگر پاکستانی مسلح افواج نے عوام کی حمایت سے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا اور اس کا غرور خاک میں ملا دیا۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو منہ توڑ جواب دینے پر سپاہی سے لیکر فیلڈ مارشل عاصم منیر تک مباکباد کے مستحق ہیں جب کہ آج پاکستان دنیامیں ایک طاقتوراورذمہ دارملک کے طور پر جانا جارہا ہے۔
ڈیوڈ بیکھم کا نام سرکاری اعزاز کی لسٹ میں شامل ، لیکن وہ ایک غلطی جس کی وجہ سے ان کا نام نکالا جاسکتا ہے
مزید :