Islam Times:
2025-07-26@00:47:48 GMT

بن سلمان کو زیلنسکی کی تذلیل سے عبرت حاصل کرنیکا مشورہ

اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT

بن سلمان کو زیلنسکی کی تذلیل سے عبرت حاصل کرنیکا مشورہ

اسلام ٹائمز: یمنی تحریک کے سیاسی دفتر کے رکن محمد فرح نے ورچوئل نیٹ ورک ایکس (سابقہ ​​ٹویٹر) پر سعودی حکام کے نام ایک پیغام میں لکھا ہے کہ "کیا آپ نے دیکھا کہ امریکہ نے مشرقی یورپ میں اپنے ایک اتحادی اور کرائے کے فوجی کے ساتھ کیا سلوک کیا، جو کہ ایک یہودی ایجنٹ تھا، اور امریکیوں نے کس طرح یوکرین سے سب کچھ واپس لے لیا؟" اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آپ کی جائیداد اور اثاثے جو آپ نے امریکی بینکوں میں جمع کر رکھے ہیں وہ محفوظ رہیں گے؟ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ امریکی آپ سے منہ نہیں موڑیں گے اور آپ کے رویوں کی مذمت نہیں کریں گے؟ جیسا کہ انہوں نے یوکرینیوں کے ساتھ کیا ۔" جب وہ اپنے پیاروں کے ساتھ حقارت اور توہین کا برتاؤ کرتے ہیں تو وہ ان لوگوں سے کیسا سلوک کریں گے جن سے وہ نفرت کرتے ہیں، یعنی عربوں اور مسلمانوں سے؟ ترتیب و تنظیم: علی احمدی

یمنی تحریک کے سیاسی بیورو کے ایک رکن نے سعودی حکام کے نام پیغام میں وائٹ ہاؤس میں "ولادیمیر زیلنسکی" کی تذلیل سے عبرت حاصل کرنے کا کہا ہے۔ 2015 میں شروع ہونے والی جنگ کو یمنی انصار اللہ اور سعودی اتحاد کے درمیان ایک پیچیدہ تنازعہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس جنگ میں سعودی قیادت میں متحدہ عرب امارات سمیت مختلف ممالک مشتمل اتحاد نے"منصور ہادی" کی سربراہی میں یمنی حکومت کے دفاع کا بہانہ بنا کر یمن میں مداخلت کا آغاز کیا تھا۔ اس سے پہلے حوثی یمنیوں نے ستمبر 2014 میں دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر کے اسے آزاد کرایا اور ہادی حکومت کو بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔ اس کارروائی کے جواب میں سعودی حکومت نے ملک میں منصور ہادی کٹھ پتلی حکومت کی خودمختاری بحال کرنے کے لیے محصور یمن پر فضائی اور زمینی حملے شروع کر دیے تھے۔

اس دوران صیہونی حکومت، امریکہ اور بعض دوسرے ممالک نے بھی سعودیوں کی کھلے اور ڈھکے چھپے مدد کی۔ ابتدائی طور پر یہ پیشین گوئیاں تھیں کہ سعودی اتحاد اس جنگ کو اپنے حق میں جلد ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ تاہم انصار اللہ نے موثر حکمت عملی اور یمن کی جغرافیائی صورتحال کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے فضائی اور زمینی حملوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کامیابیاں حاصل کیں اور بتدریج عسکری اور اقتصادی پیش رفت سے تجزیہ نگاروں کو حیران کر دیا۔ سعودی حکومت اور اس کے اتحاد  کے لئے سب سے بڑا جھٹکا سعودیہ کے اقتصادی اور فوجی انفراسٹرکچر پر انصار اللہ کے میزائل اور ڈرون حملے تھے۔ ان حملوں، خاص طور پر ستمبر 2019 میں آرامکو کی تیل تنصیبات پر حملے نے سعودی معیشت پر بڑا اثر ڈالا اور یہ ثابت ہوا کہ انصار اللہ سعودی معیشت کے اہم شعبوں کو شدید نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس کے علاوہ یمن کی سعودی سرحد پر ہونے والی لڑائیوں میں بھی سعودی حکومت کا بھاری فوجی جانی نقصان ہوا، جس سے جنگ کے اخراجات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ اس دوران آل سعود نے حتی الامکان خود کو امریکی پالیسیوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا۔ امریکہ پر اعتماد کے بارے میں انصار اللہ نے محمد بن سلمان کو وارنگ جاری کی ہے اور یوکرینی صدر کی تذلیل سے عبرت حآصل کرنیکا مشورہ دیا ہے۔ ان جنگوں میں انصار اللہ کی عسکری طاقت اور حکمت عملیوں کے بارے میں جو کچھ دیکھا گیا ہے اور ان کی دھمکیوں کے سچے ہونے کے موجودہ شواہد کو دیکھتے ہوئے، ان انتباہات کو ایک حقیقی اور اہم خطرہ سمجھا جانا چاہیے۔ امریکہ پر سعودی حکومت کے جھوٹے اعتماد کے بارے میں انصار اللہ کے انتباہات کی بھی کافی ثبوتوں سے تصدیق ہوتی ہے۔

جیسا کہ یمن کی انصار اللہ تحریک کے رہنماوں میں سے ایک نے سعودی حکام کے نام ایک پیغام میں ان سے وائٹ ہاؤس میں ہونے والے واقعات اور وہاں "ولادیمیر زیلنسکی" کی تذلیل سے سبق سیکھنے کو کہا ہے۔ یمنی تحریک کے سیاسی دفتر کے رکن محمد فرح نے ورچوئل نیٹ ورک ایکس (سابقہ ​​ٹویٹر) پر سعودی حکام کے نام ایک پیغام میں لکھا ہے کہ "کیا آپ نے دیکھا کہ امریکہ نے مشرقی یورپ میں اپنے ایک اتحادی اور کرائے کے فوجی کے ساتھ کیا سلوک کیا، جو کہ ایک یہودی ایجنٹ تھا، اور امریکیوں نے کس طرح یوکرین سے سب کچھ واپس لے لیا؟" اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آپ کی جائیداد اور اثاثے جو آپ نے امریکی بینکوں میں جمع کر رکھے ہیں وہ محفوظ رہیں گے؟ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ امریکی آپ سے منہ نہیں موڑیں گے اور آپ کے رویوں کی مذمت نہیں کریں گے؟ جیسا کہ انہوں نے یوکرینیوں کے ساتھ کیا ۔"

 انصار اللہ یمن کے اس سینئر رکن نے زور دے کر کہا ہے کہ جب وہ اپنے پیاروں کے ساتھ حقارت اور توہین کا برتاؤ کرتے ہیں تو وہ ان لوگوں سے کیسا سلوک کریں گے جن سے وہ نفرت کرتے ہیں، یعنی عربوں اور مسلمانوں سے؟ زیلنسکی کی قیادت میں یوکرین امریکی حمایت کے سراب میں مبتلا ہو کر جنگ ​​کے گڑھے میں گرا، یہی حشر یمن اور انصار اللہ کے خلاف لڑنے والوں کا بھی ہوگا۔ واضح رہے کہ 1932 میں وجود میں آنیوالی سعودی رجیم کے آج تک امریکہ کے ساتھ تعلقات ہیں، سعودی اقتصاد اور سلامتی کا انحصار امریکہ پر ہے، سعودیہ تیل کی فروخت، مغرب کو توانائی کی فراہمی اور تیل پیدا کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہونے کے طور پر امریکہ کے لیے ہمیشہ ایک اہم شراکت دار رہا ہے۔ تیل کے بدلے امریکہ نے سعودیوں کو جدید ترین فوجی سازوسامان اور سیکورٹی کے نام پر مدد فراہم کی ہے۔

یہ تعلقات حالیہ دہائیوں میں سعودیوں کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت سے مزید وسیع ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر صرف 2017 میں سعودیوں نے امریکہ سے جدید ہتھیار خریدنے کے لیے $110 بلین کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ امریکہ پر یہ فوجی انحصار سعودی حکومت کو خطے میں اپنی فوجی طاقت سے استفادہ کا باعث بنا۔ خاص طور پر یمن کی جنگ اور شام کی بغاوت میں جہاں امریکہ سعودی اتحاد کا بالواسطہ حامی رہا ہے۔ یقیناً ہم نے اس ’’طاقت کے آسان استعمال‘‘ کے نتائج دیکھے ہیں۔ لیکن وہیں پر یہ یک طرفہ رشتہ ہے۔ سعودی عرب میں انسانی حقوق کے بارے میں امریکی پالیسیاں اقتصادی اور عسکری تعلقات پر اثرانداز ہوئی ہیں۔ سعودی حکومت کو یہ جان لینا چاہیے کہ اگر ضرورت پڑی تو یہ ایشوز ہتھوڑے میں تبدیل ہو جائیں گے جو  دودھ دینے والی عرب گائے کا سر توڑ دیں گے۔

 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ماہ قبل سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے فون پر بات کی تھی، جس  دوران بن سلمان نے مملکت کے اگلے چار سالوں میں امریکا کے ساتھ تجارت بڑھانے کے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔ بن سلمان نے اس سرمایہ کاری کی رقم 600 بلین ڈالر اور ممکنہ طور پر اس سے زیادہ ہونے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان اس کے بعد سامنے آیا تھا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر ریاض 500 بلین ڈالر کی امریکی مصنوعات خریدنے پر راضی ہو جائے، تو یہ ملک ان کی پہلے غیر ملکی سفر کی منزل ہو سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت کے دوران، سعودی عرب ان کے غیر ملکی دوروں کی پہلی منزل تھا، اور اس دوران دونوں ممالک نے تقریباً 400 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے کئی معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔ بس امریکہ کی دوستی کا مقصد صرف یہی ہے، یعنی 400 بلین سے 600 بلین کمانا اور ہضم کر جانا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سعودی حکام کے نام سعودی حکومت کے بارے میں کے ساتھ کیا کی تذلیل سے انصار اللہ امریکہ پر پیغام میں کرتے ہیں تحریک کے کریں گے یمن کی

پڑھیں:

قاسم، سلمان خوشی سے آئیں ،پی ٹی آئی کی تحریک سے کوئی خوف نہیں، عرفان صدیقی

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما، سینٹ میں پارلیمانی پارٹی لیڈر اور خارجہ امور کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ عمران خان کے بیٹے قاسم اور سلمان اگر پاکستان آنا چاہتے ہیں تو خوشی سے آئیں اور احتجاج کے جو طریقے انہوں نے برطانیہ میں دیکھے ہیں ان کے مطابق بیشک احتجاج بھی کریں اور پی ٹی آئی کو بھی سکھائیں۔حکومت کو پی ٹی آئی کی کسی تحریک میں دلچسپی نہیں، نہ کوئی خوف ہے، اسی لئے 5 اگست کے حوالے سے حکومت نے کوئی میٹنگ بھی نہیں بلائی۔ نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی مذاکرات کیلئے پہلے بھی سنجیدہ نہیں تھی۔ ہمارے دروازے مذاکرات کیلئے کھلے ہیں لیکن ہم چھت پر چڑھ کر انہیں آوازیں نہیں لگائیں گے۔پی ٹی آئی، ان سے بات کرنا چاہتی ہے جو اس سے بات کرنے کیلئے تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کسی طرح کا کوئی سیاسی بحران نہیں، ریاست کا کاروبار پُرامن طریقے سے چل رہا ہے اور تمام ادارے آئین و قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں۔سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ سیاستدان بہادری سے جیل کاٹتے ہیں، شکایتیں اور مطالبے نہیں کیا کرتے۔ جیل میں جتنی سہولتیں عمران خان کو حاصل ہیں، کبھی کسی قیدی کو حاصل نہیں رہیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری سمیت کئی رہنماؤں نے جیلیں کاٹی ہیں لیکن کبھی کسی نے اس طرح شکایتیں نہیں کیں۔انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو دفاعی تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں پر حملے جرم تھے تو مجرموں کو سزائیں بھی ملنی چاہییں۔پی ٹی آئی کے جن لوگوں کو سزائیں ہو رہی ہیں ان کے پاس اپیلوں کے کئی فورم موجود ہیں، نواز شریف کے کیس تو سپریم کورٹ سے شروع ہوتے اور سپریم کورٹ میں ہی ختم ہو جاتے تھے، نہ کوئی اپیل ہوتی تھی نہ دلیل۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر کے طور پر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، بلا وجہ بیان بازی اور تشہیر ان کا شیوہ نہیں، وقت آنے پر وہ متحرک سیاسی کردار ادا کریں گے۔ایک سوال کے جواب میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ طالبان گڈ ہیں یا بیڈ، انہیں افغانستان سے نکال کر کون یہاں لے کر آیا؟ٹی ٹی پی سمیت 40 ہزار طالبان عمران خان یہاں لے کر آئے تھے جس کی وجہ سے آج ہمیں دہشت گردی کے مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خارجہ امور کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر ہے، یہ کام گنڈاپور صاحب کا نہیں۔ وہ اپنے صوبے میں امن و امان اور اربوں روپے کی کرپشن پر نظر رکھیں۔ مسلم لیگ (ن) کو خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت گرانے سے کوئی دلچسپی نہیں۔خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی 12 سالہ حکومت اور وفاق میں عمران خان کی 4 سالہ حکومت کے کسی ایک بھی بڑے عوامی، فلاحی اور ترقیاتی منصوبے کا حوالہ نہیں دے سکتے۔اے پی سی میں شمولیت کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ محمود اچکزئی صاحب کے بیان کے مطابق یہ کانفرنس موجودہ حکومت کے خاتمے کیلئے بلائی جا رہی ہے، ہم کسی ایسی سازش کا حصہ کیسے بن سکتے ہیں؟

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈارکی امریکی وزیرخارجہ سے ملاقات, 40منٹ تک جاری رہنے والی ملاقات میں اہم امور پر گفتگو
  • قاسم، سلمان خوشی سے آئیں ،پی ٹی آئی کی تحریک سے کوئی خوف نہیں، عرفان صدیقی
  • اسحاق ڈار کا دورہ امریکہ
  • اسحٰق ڈار واشنگٹن پہنچ گئے، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے آج اہم ملاقات طے
  • امریکہ کو اب فینٹانل کا سیاسی تماشہ بند کرنا چاہیے ، چینی میڈیا
  • یوکرین کا زیلنسکی-پیوٹن براہِ راست مذاکرات کا مطالبہ، روس کی مختصر جنگ بندی کی تجویز
  • یونیسکو رکنیت ترک کرنے کا امریکی فیصلہ کثیرالفریقیت سے متضاد، آزولے
  • امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے تعلق ختم کر لیا
  • امریکہ کی ایکبار پھر ایران کو براہ راست مذاکرات کی پیشکش
  • اسرائیل ہماری کارروائیاں روکنے سے قاصر ہے، رہنماء انصار الله