سپریم کورٹ، نذر عباس رٹائرمنٹ کے بعد ڈی جی جوڈیشل ونگ تعینات
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
سابق ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کو سپریم کورٹ میں ڈی جی جوڈیشل ونگ تعینات کر دیا گیا، وہ 2 مارچ کو رٹائر ہوئے تھے۔
نذرعباس 6 ماہ کیلیے کنٹریکٹ پر گریڈ 21 میں ذمے داریاں ادا کریں گے، رجسٹرار آفس نے چیف جسٹس کی منظوری کے بعد نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔
نذر عباس کو گزشتہ ماہ توہین عدالت کیس کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا تاہم بعدازاں نوٹس واپس لے لیا گیا تھا۔
عدالت عظمیٰ میں پہلی بار ڈی جی جوڈیشل ونگ کی اسامی تخلیق کی گئی ہے۔ نذرعباس کو تمام مراعات اور ایڈہاک ریلیف بھی دیئے جائیں گے۔
نذر عباس 1300 سی سی کار اور 270 لیٹر پٹرول کے بھی حقدار ہوں گے۔ معلوم ہوا ہے کہ ریٹائرڈ عہدے داروں کی دوبارہ تقرریوں پر سپریم کورٹ کے مستقل ملازمین میں غیر یقینی پائی جاتی ہے۔
کئی ریٹائرڈ افسران کودوبارہ تعینات کیا گیا ہے اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔ رجسٹرار محمد سلیم خان، جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکرٹریز ریٹائرڈ افسران ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ریاست آسام میں بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ آف انڈیا برہم، توہین عدالت کا نوٹس جاری
ریاستی انتظامیہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع، قانونی کارروائی یا متبادل بندوبست کے سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست آسام کے گولپاڑہ ضلع کے ہسیلا بیلا گاؤں میں مبینہ طور پر غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کی گئی بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ریاست کے چیف سکریٹری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا ہے۔ یہ نوٹس اس وقت جاری کیا گیا جب اس کارروائی سے متاثرہ افراد کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی، جس میں الزام عائد کیا گیا کہ انتظامیہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع، قانونی کارروائی یا متبادل بندوبست کے سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا۔ درخواست گزاروں کے وکیل عدیل احمد نے عدالت کو بتایا کہ 13 جون 2025ء کو انتظامیہ نے ایک عمومی نوٹس جاری کیا تھا، جس میں 15 جون تک علاقہ خالی کرنے کی ہدایت دی گئی تھی، تاہم نہ تو کسی کو ذاتی طور پر مطلع کیا گیا اور نہ ہی کوئی سنوائی کا موقع دیا گیا۔ 667 خاندانوں کے گھروں اور 5 اسکولوں کو منہدم کر دیا گیا، جس سے بچوں کے بنیادی تعلیمی حقوق بھی متاثر ہوئے۔
وکیل نے مزید کہا کہ یہ کارروائی سپریم کورٹ کے 13 نومبر 2024ء کے اس حکم کی صریح خلاف ورزی ہے، جس میں بلڈوزر کارروائی سے قبل قانونی ضابطوں کی مکمل تعمیل پر زور دیا گیا تھا۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 60 برسوں سے اس علاقے میں آباد ہیں اور ان کے آبا و اجداد دریائے برہم پتر کے کٹاؤ کے سبب اپنی زمینیں کھو چکے تھے۔ لہٰذا وہ سبھی بے دخل شدہ افراد "پرانے باشندے" اور بازآبادکاری کے مستحق ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس ونود چندرن پر مشتمل بنچ نے جمعرات کو اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے آسام کے چیف سکریٹری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا اور آئندہ سماعت میں جواب طلب کیا۔
درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جن افسران نے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی، ان کے خلاف کارروائی کی جائے، متاثرہ خاندانوں کو مناسب معاوضہ اور متبادل رہائش فراہم کی جائے، نیز منہدم شدہ اسکولوں کی فوری تعمیر نو کا حکم دیا جائے۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہے اور آئندہ سماعت میں حکومت آسام کو اس کارروائی کی وضاحت دینی ہوگی کہ آخر کس بنیاد پر بغیر مناسب ضابطے کی تکمیل کے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو بے دخل کیا گیا۔ اس کارروائی کو لے کر انسانی حقوق کے ادارے بھی سوال اٹھا رہے ہیں اور سیاسی سطح پر بھی اس پر تنقید جاری ہے۔