پاکستان گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں دوسرے نمبر پر آگیا
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025 میں پاکستان دوسرے نمبر پر پہنچ گیا جبکہ گزشتہ سال کے دوران دہشت گرد حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 45 فیصد اضافے کے ساتھ 1081 ہوگئی ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مانسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس (آئی ای پی) کی جانب سے شائع کردہ گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025 میں گزشتہ 17 برسوں کے دوران دہشت گردی کے اہم رجحانات اور نمونوں کا جامع خلاصہ فراہم کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں دہشت گردی کے اثرات کے لحاظ سے 163 ممالک (دنیا کی آبادی کا 99.                
      
				
یہ مسلسل پانچواں سال ہے جس میں دہشت گردی سے متعلق اموات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور پاکستان کے لیے گزشتہ دہائی میں سال بہ سال سب سے بڑا اضافہ ہوا ہے، یہ رجحان دہشت گرد حملوں کی تعداد میں اضافے سے ظاہر ہوتا ہے، جو 2023 میں 517 سے بڑھ کر 2024 میں 1099 ہو گیا ہے، یہ پہلا سال ہے جب انڈیکس کے آغاز کے بعد سے حملوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
بدھ کو جاری ہونے والے 12 ویں سالانہ گلوبل ٹیررازم انڈیکس (جی ٹی آئی) کے مطابق دہشت گرد حملے ریکارڈ کرنے والے ممالک کی تعداد 58 سے بڑھ کر 66 ہوگئی ہے۔
اس سے تقریباً ایک دہائی کی بہتری الٹ گئی ہے، جس میں 45 ممالک کی حالت بگڑ رہی ہے اور 34 میں بہتری آئی ہے، 4 مہلک ترین دہشت گرد گروہوں نے 2024 میں تشدد میں اضافہ کیا، جس سے ہلاکتوں میں 11 فیصد بڑھیں ، مغرب میں اب انفرادی دہشت گرد حملوں کا غلبہ ہے، جو گزشتہ5 برسوں کے دوران ہونے والے مہلک حملوں کا 93 فیصد ہے۔
غزہ تنازع نے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کو بڑھا دیا ہے اور مغرب میں نفرت پر مبنی جرائم کو ہوا دے رہا ہے جبکہ ایران میں دہشت گردی سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے، 2024 میں عالمی دہشت گردی میں ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہا، دہشت گردی سے سب سے زیادہ ہلاکتیں برکینا فاسو، پاکستان اور شام میں ہوئیں، برکینا فاسو دنیا بھر میں ہونے والی اموات کا پانچواں حصہ ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) تیزی سے بڑھتا ہوا دہشت گرد گروہ بن کر ابھری ہے، اور ہلاکتوں میں 90 فیصد اضافے کا سبب بنی ہے، کالعدم ٹی ٹی پی دوسرے سال بھی پاکستان کی مہلک ترین دہشت گرد تنظیم بنی ہوئی ہے، یہ 2024 میں پاکستان میں 52 فیصد اموات کی ذمہ دار تھی۔
گزشتہ سال ٹی ٹی پی نے 482 حملے کیے جن کے نتیجے میں 558 ہلاکتیں ہوئیں جو گزشتہ سال کے 293 ہلاکتوں کے مقابلے میں 91 فیصد زیادہ ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، افغانستان سے سرگرم دہشت گرد گروہوں نے بالخصوص پاک افغان سرحد پر اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے صوبے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے ہیں، 2024 میں پاکستان میں ہونے والے 96 فیصد سے زائد دہشت گردی کے حملے اور ہلاکتیں مغربی سرحدی علاقوں میں ہوئیں۔
افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے ٹی ٹی پی نے آپریشنل آزادی اور سرحد پار محفوظ پناہ گاہوں تک رسائی میں اضافے کا فائدہ اٹھایا ہے، طالبان کی اقتدار میں واپسی نے کالعدم ٹی ٹی پی کو زیادہ سے زیادہ استثنیٰ کے ساتھ حملوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد کرنے کی اجازت دی ہے۔
ٹی ٹی پی ریاستی اختیار کو کمزور کرنے اور فوجی کارروائیوں میں خلل ڈالنے کے لیے سیکیورٹی فورسز اور بنیادی ڈھانچے کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہے،اس کے جواب میں حکومت پاکستان نے آپریشن عزم استحکام جیسے انسداد دہشت گردی اقدامات متعارف کرائے ہیں۔
بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) 2024 میں پاکستان میں مہلک ترین دہشت گرد حملے کی ذمہ دار تھی، جب بلوچستان کے کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر ایک خودکش بمبار نے کم از کم 25 شہریوں اور فوجیوں کو شہید کر دیا تھا۔
بی ایل اے اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) جیسے بلوچ عسکریت پسند گروہ پاکستان کے اندر جاری عدم استحکام کا فائدہ اٹھارہے ہیں، ان گروہوں کے حملے 2023 میں 116 سے بڑھ کر 2024 میں 504 ہو گئے ہیں جبکہ اموات کی تعداد چار گنا بڑھ کر 388 ہو گئی جو گزشتہ سال 88 تھی۔
مزید برآں، بلوچ عسکریت پسند گروہوں کی سرگرمیوں میں اضافے نے 2024 میں پاکستان میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی سطح میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، بی ایل اے نے وسائل نکالنے سے متعلق حکومتی پالیسیوں کی کھل کر مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ بلوچستان کے قدرتی وسائل کا استحصال مقامی آبادی کے لیے مساوی ترقی یا معاوضے کے بغیر کیا جا رہا ہے۔
گروپ نے غیر ملکی سرمایہ کاری، خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت چینی اقدامات کو بھی نشانہ بنایا ہے، جس کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ وہ بلوچ عوام کو حاشیے پر رکھتا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: میں پاکستان میں دہشت گردی کے میں اضافہ گزشتہ سال کی تعداد ٹی ٹی پی گئی ہے بڑھ کر ہے اور سے بڑھ گیا ہے بی ایل
پڑھیں:
فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی‘غزہ میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی‘تر جمان پاک فوج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251104-01-21
پشاور(خبرایجنسیاں) پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی، اسے سیاست سے دور رکھا جائے اور غزہ میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔پشاور میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھاکہ بس بہت ہوگیا افغانستان سرحد پار دہشت گردی ختم کرے، افغان طالبان سے سیکورٹی کی بھیک نہیں مانگیں گے، طاقت کے بل بوتے پر امن قائم کرینگے، افغانستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے یا ہمارے حوالے کرے جب کہ افغانستان میں نمائندہ حکومت نہیں، ہم افغانستان میں عوامی نمائندہ حکومت کے حامی ہیں۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بھارت اس بار سمندر کے راستے کارروائی کی تیاری کر رہا ہے تاہم مکمل الرٹ اورنظر رکھے ہوئے ہیں اور بھارت کوجو بھی کرنا ہے کرلے، اگر دوبارہ حملہ کیا تو پہلے سے زیادہ شدید جواب ملے گا۔ان کاکہنا تھاکہ افغانستان سے کوئی حملہ ہوا تو جنگ بندی ختم تصور کی جائے گی اور دراندازی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔پاک فوج کے ترجمان نے پریس کانفرنس میں افغانستان میں ڈرون حملوں کے حوالے سے سوال پر کہا کہ ہمارا امریکا سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔انہوں نے امریکی ڈرونز کے پاکستان سے افغان فضائی حدود میں جانے کے الزام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم نے خود اب تک کوئی باضابطہ شکایت بھی نہیں کی ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز ہے، افغانستان میں ہرقسم کی دہشت گرد تنظیم موجود ہے اور افغانستان دہشت گردی پیدا کررہا ہے اور پڑوسی ممالک میں پھیلا رہا ہے۔فوجی ترجمان نے کہا کہ افغانستان کی طرف سے رکھی گئی شرائط کی کوئی اہمیت نہیں، اصل مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سلامتی کی ضامن پاک فوج ہے، افغانستان نہیں اور یہ بھی واضح کیا کہ اسلام آباد نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا، کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) جیسی تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ استنبول میں افغان طالبان کو واضح طور پر کہا گیا کہ وہ دہشت گردی کو کنٹرول کریں، یہ ان کا کام ہے کہ وہ کیسے کریں۔ان کا کہنا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی آپریشن کے دوران دہشت گرد افغانستان بھاگ گئے، انہیں ہمارے حوالے کریں، ہم آئین و قانون کے مطابق ان سے نمٹیں گے۔ ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کا نارکو اکنامی سے تعلق ہے، جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گرد تنظیموں کے درمیان گٹھ جوڑ موجود ہے، خیبرپختونخوا میں 12 ہزار ایکڑ پر پوست کاشت کی گئی ہے، فی ایکڑ پوست پر منافع 18 لاکھ سے 32 لاکھ روپے بتایا جاتا ہے،مقامی سیاستدان اور لوگ بھی پوست کی کاشت میں ملوث ہیں، افغان طالبان اس لیے ان کو تحفظ دیتے ہیں کہ یہ پوست افغانستان جاتی ہے، افغانستان میں پھر اس پوست سے آئس اور دیگر منشات بنائی جاتی ہیں، تیراہ میں آپریشن کی وجہ سے یہاں افیون کی فصل تباہ کی گئی، وادی میں ڈرونز، اے این ایف اور ایف سی کے ذریعے پوست تلف کی گئی۔ایک سوال کے جواب میں ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ میں پبلک سرونٹ ہوں کسی پر الزام نہیں لگا سکتا، سہیل آفریدی خیبرپختونخوا کے چیف منسٹر ہیں، ان سے ریاستی اور سرکاری تعلق رہے گا، کورکمانڈر پشاور نے بھی ریاستی اور سرکاری تعلق کے تحت ملاقات کی جب کہ خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا فیصلہ تصوراتی ہے، یہ فیصلہ ہمیں نہیں وفاقی حکومت کوکرنا ہے۔ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ ملک میں 2025ء کے دوران 62 ہزار سے زاید آپریشنز کیے گئے، اس دوران آپریشنز میں 1667 دہشت گرد مارے گئے جب کہ دہشت گرد حملوں میں 206 سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے، سیکورٹی فورسز نے جھڑپوں میں 206 افغان طالبان اور 100 سے فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔