کراچی: ہراساں کرنے کے الزام سے متعلق خاتون کی درخواست پر ایف آئی اے اہلکاروں کو نوٹس جاری
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بینچ نے ہراساں کرنے کے الزام سے متعلق خاتون کی درخواست پر ایف آئی اہلکاروں کو نوٹس جاری کردیئے۔
ہائی کورٹ کے آئینی بینچ کے روبرو ہراساں کرنے کے الزام سے متعلق خاتون کی درخواست کی سناعت ہوئی۔
درخواستگزار کے وکیل شوکت حیات ایڈووکیٹ نے مؤقف دیا کہ ایف آئی اے شازیہ خاتون کو باربار نوٹسز جاری کررہاہے، خاتون کے شوہر کے خلاف زرمبادلہ کے قوانین کی خلاف ورزی کا مقدمہ ہے، کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی، جواب جمع کرادیا ہے، خاتون کا شوہر کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں وہ گھریلو اور پردہ نشیں خاتون ہیں۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر اے ایم ایل سرکل مسعود احمد بار بار انہیں طلبی کے نوٹسز جاری کررہا ہے، ایف آئی اہلکاروں کو ہراساں کرنے سے روکا جائے، کال آپ نوٹسز واپس لینے کا حکم دیا جائے۔
عدالت نے ایف آئی اہلکاروں کو نوٹس جاری 16 اپریل تک ایف آئی اے سے جواب طلب کرلیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اہلکاروں کو ایف آئی
پڑھیں:
حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ؛ پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
سوشل میڈیا پر حساس اداروں اور سربراہ کے خلاف توہین آمیز پوسٹ کرنے پر شہری کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔
سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔
اندراج مقدمہ کے بعد پولیس نے مزید قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا۔
دوسری جانب، پیکا ایکٹ ترمیم کے خلاف دائر درخواست پر پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ارشد علی اور جسٹس جواد احسان اللہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔
عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کر دیا۔
درخواست گزار کے وکیل نعمان محب کاکا خیل کا موقف تھا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم کرکے غلط اور جھوٹی خبروں پر سزائیں متعارف کروا دی گئی ہیں، پیکا ایکٹ کے سیکشن 26 اے سمیت متعدد سیکشنز میں ترمیم کی گئی ہے لیکن ترمیم مبہم ہے اور فیک نیوز کی تشریح نہیں کی گئی کہ فیک نیوز کونسی ہوگی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ترمیم میں خلاف ورزی پر بڑی بڑی سزائیں رکھی گئی ہیں۔ ترمیم میں جج، اراکین اسمبلی اور دیگر اداروں کے خلاف کوئی بھی بات کرنے پر سزا مقرر کی گئی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے خلاف ہے کیونکہ آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے، یہ ترمیم جمہوریت اور انسانی حقوق اور احتساب پر وار ہے، یہ ترمیم اپوزیشن کی آواز کو دبانے کے لیے کی گئی ہے۔
عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے ایک ماہ کے اندر جواب طلب کر لیا۔