Express News:
2025-07-26@01:11:22 GMT

ٹرمپ کی پالیسیاں اور عالمی تجارتی جنگ

اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تجارتی شراکت داروں پر ٹیرف لگانے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے مستقبل میں بھی مزید محصولات عائد کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے، یوں امریکا کی جانب سے کینیڈا اور میکسیکو پر 25 فیصد اضافی ٹیکس کا نفاذ ہوگیا ہے، جس کے ساتھ ہی چین سے درآمد کی جانے والی اشیا پر بھی اضافی رقوم کا اطلاق شروع ہو گیا ہے، جس کے جواب میں تینوں ممالک نے فوری اور سخت ردعمل دیا ۔

 امریکی صدر ٹرمپ اگر ایسی ہی پالیسیوں پر گامزن رہے تو اقوام متحدہ کے اداروں کے ساتھ ساتھ عالمی تجارت کی روانی پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت ذرا مختلف ہے۔ وہ اس بار پہلے سے زیادہ منظم ہیں اور انھوں نے اپنی ٹیم کو ایسے عہدوں پر تعینات کر دیا ہے جہاں وہ ان کے ایجنڈے پر مؤثر طریقے سے عمل کر سکیں جس میں ان کی تباہ کن خواہشات بھی شامل ہیں۔

اسی لیے ایک ماہ کی معطلی کے بعد کینیڈا اور میکسیکو پر 25 فی صد محصولات عائد کیے جا چکے ہیں جب کہ چین پر بھی اضافی ٹیکس لگا کر مجموعی طور پر محصول کو 20 فی صد کر دیا گیا، یہ محصولات درآمد کنندگان، بندرگاہوں اور سرحدی گزرگاہوں پر ادا کرتے ہیں۔ نظریہ یہ ہے کہ یہ ٹیکس مقامی صنعتوں کو تحفظ فراہم کریں گے لیکن عملی طور پر معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ یہ محصولات 918 ارب ڈالر کی امریکی درآمدات پر لاگو ہوں گے، جس سے ایواکاڈو سے لے کر امریکی گھروں کی تعمیر کے لیے ضروری لکڑی تک، سب کچھ متاثر ہوگا۔ اضافی محصولات کے نفاذ کے باعث امریکی، یورپی اور ایشیائی اسٹاک مارکیٹوں میں مندی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔

تجارتی جنگ کے بڑھنے سے عالمی منڈیوں میں مندی دیکھی گئی۔ وال اسٹریٹ کے بڑے انڈیکس ایس اینڈ پی 500 میں تیزی سے کمی آئی، جس سے ٹرمپ کے انتخاب کے بعد ہونے والے تمام فوائد مٹ گئے۔ امریکا کے لیے کینیڈا ایک اچھا فراہم کنندہ ہے کیونکہ وہ بالکل پڑوس میں ہے اور اس کا ایک قابل اعتماد اتحادی بھی ہے بلکہ تھا۔ اس کا ناگزیر نتیجہ یہ نکلے گا کہ امریکا میں تیل اور بجلی مزید مہنگی ہو جائے گی۔ جب کاروبار کو بڑھتی ہوئی لاگت کا سامنا ہوتا ہے تو ان کے پاس دو راستے ہوتے ہیں یا تو وہ خود اس بوجھ کو برداشت کریں یا اسے صارفین تک منتقل کر دیں یعنی عام امریکی شہری تک۔ نئی صورت حال میں زیادہ تر کاروباری طبقے دوسرا راستہ اپنانا پسند کریں گے۔

محصولات (ٹیرف) کے بارے میں کوئی بحث نہیں۔ یہ مہنگائی میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ جب مہنگائی بڑھتی ہے تو مرکزی بینک کا اگلا قدم کیا ہوتا ہے؟ وہ شرحِ سود میں اضافہ کرتے ہیں، جس سے گھریلو اورکاروباری قرض لینے والے متاثر ہوتے ہیں اور معاشی ترقی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ ٹرمپ کے اس فیصلے سے امریکا کی بطور اچھے تجارتی شراکت دار ساکھ بھی متاثر ہوگی کیونکہ ممکن ہے کہ تجارتی راستے کسی اور سمت مڑ جائیں۔ اس بات کے کچھ شواہد موجود ہیں کہ گزشتہ بار بھی ایسا ہوا تھا۔ٹرمپ کی اس پالیسی کا دوسرا مقصد ملکی آمدنی میں اضافہ ہے۔

امریکا کا قرض اب جی ڈی پی کے 124 فی صد تک پہنچ چکا ہے جب کہ برطانیہ کا قرض اس کے جی ڈی پی کے 95 فی صد سے کچھ زیادہ ہے۔ دراصل آمدنی بڑھانے کا اس سے زیادہ تباہ کن طریقہ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ محصولات لگا کر معیشت کو مزید نقصان پہنچایا جائے۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس وقت دنیا کو حیران کردیا، جب اس نے غزہ پر قبضہ کر کے اسے امریکا کی ملکیت بنانے اور غزہ کے بائیس لاکھ باسیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرکے اردن اور مصر میں بسانے کا اعلان کیا۔

مصر، اردن اور عرب ممالک کے علاوہ یورپین ممالک نے بھی اس منصوبے کو نسل پرستانہ قرار دیا ہے جو علاقے میں مزید تباہی، انتہا پسندی اور عدم استحکام کو جنم دے گا۔ ٹرمپ کے مطابق وہ اردن اور مصر کو ہر سال اربوں ڈالرز دیتے ہیں اور اگر انھوں نے فلسطینیوں کواپنے ہاں آباد نہ کیا تو وہ یہ امداد بند کر دیں گے۔ گزشتہ سال ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے غزہ کو شہریوں سے خالی کر کے ’’واٹر فرنٹ پراپرٹی‘‘ کے طور پر استعمال کرنے کی تجویز دی تھی۔ بین الاقوامی ماہرین ٹرمپ کی دھونس اور دھمکیوں کی پالیسیوں کو ہٹلر کی حکمت عملی سے مماثل قرار دے رہے ہیں۔

دنیا کی سپر طاقت امریکا کے صدر ٹرمپ کی دھمکیوں نے عالمی سطح پر کشیدگی پیدا کر دی ہے اور ممالک اپنی خود مختاری کو برقرار رکھنے کی فکر میں متبادل طریقوں پر غورکر رہے ہیں، دنیا کے کئی ممالک میں ڈالرز کے بجائے اپنی مقامی کرنسیوں میں تجارت کا عمل کچھ سالوں سے بڑھا ہے، سب سے پہلے چین نے دیگر ممالک کے ساتھ اپنی کرنسی یو این میں تجارت شروع کی، چین نے اپنے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت کرنے کی پالیسی اس وقت اختیار کی جب امریکا کی مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاؤ ہو رہا تھا، لہذا یورپ نے بھی اسی سمت میں قدم بڑھایا اور یورپی یونین نے یورو کو عالمی تجارت میں ایک مضبوط کرنسی کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا، تاہم یہ رجحان تیزی سے مقبول ہوا اور کئی ممالک نے اپنی مقامی کرنسیوں میں تجارتی معاہدے کیے تاکہ ڈالرز پر انحصار کم کیا جاسکے۔

دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی معیشتوں پر مشتمل برکس گروپ جن میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ ہیں، یہ گروپ اقتصادی، سیاسی، اور تجارتی تعاون کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے، اور عالمی سطح پر ڈالر کے بجائے متبادل مقامی کرنسیوں میں تجارت کو فروغ دینے کی کوشش میں مصروف عمل ہے، امریکی صدر ٹرمپ کو صدارت سنبھالنے کے بعد جب بھی موقع ملا، وہ برکس ممالک کو بھاری ٹیرف عائد کرنے سے ڈراتے دھمکاتے رہے ہیں، وہ برکس ممالک سمیت کسی بھی بڑھتی ہوئی طاقت سے پریشان ہیں انھیں ڈر ہے کہ اگر برکس ممالک نے اپنی کرنسی بنا لی تو امریکا برباد ہو جائے گا، نیز ٹرمپ نے دھمکی آمیز لہجے میں یہ بھی کہا کہ یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ برکس ممالک خود کو ڈالر سے دور کر رہے ہیں اور ہم دیکھتے ہی رہیں گے۔

 ان نام نہاد حریف ممالک کو واضح طور پر وعدہ کرنا ہوگا کہ وہ طاقتور امریکی ڈالر کو بدلنے کے لیے نہ تو نئی برکس کرنسی بنائیں گے اور نہ ہی کسی دوسری کرنسی کی حمایت کریں گے، اگر ایسا نہ ہوا تو انھیں 100 فیصد ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا، یہی نہیں بلکہ انھیں امریکا کی عظیم مارکیٹ میں اپنا سامان بیچنا بھی بھولنا پڑے گا، یہ ممالک کوئی اور ملک تلاش کرسکتے ہیں اور انھیں امریکا کو بھی الوداع کہنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ان کی 150 فیصد ٹیرف کی دھمکی نے برکس گروپ کو توڑ دیا ہے، عالمی تناظر میں اس دھمکی کے دور رس نتائج نکلیں گے، کیونکہ امریکا پر کوئی بھروسہ نہیں کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

جغرافیائی سیاست میں بڑھتے ہوئے تنازعات کے پس پردہ عوامل میں تیسری عالمی جنگ کی دھمک سنائی دیتی ہے، جیسا کہ روس اور یوکرین کی جنگ، چین اور تائیوان کے درمیان کشیدگی، اسرائیل فلسطین تنازع، امریکا اور ایران کے درمیان تناؤ، یہ سب ایسے عوامل ہیں جو دنیا میں جنگوں کو بڑھا سکتے ہیں، اس وقت جنگیں روایتی ہونے کے بجائے معاشی سائبر اور پراکسی جنگوں کی شکل میں جاری ہیں عالمی حالات میں کشیدگی کے سبب دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑی عالمی طاقتیں اگر باہمی تباہی کی گارنٹی (MAD)Mutually Assured destruction کے اصول پر کاربند رہیں گی تو جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے براہ راست تصادم سے گریز کریں گی۔امریکی صدر ٹرمپ کے متضاد بیانات عالمی سطح پر تشویشناک صورتحال اختیار کر تے جا رہے ہیں، میامی میں ایف آئی آئی کے سربراہ اجلاس سے خطاب میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’تیسری عالمی جنگ سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا مگر یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ یہ جنگ اب دنیا سے دور نہیں ہے‘‘ ٹرمپ کا یہ بیان واضح اعلان جنگ ہے ۔

ٹرمپ کے حالیہ بیان کے پس پردہ عوامل اور ریاکاریاں بھی پوشیدہ ہیں، جس سے تیسری عالمی جنگ کے خدشے کو تقویت ملتی ہے، امریکا اس وقت یوکرین جنگ کا خاتمہ اس وجہ سے چاہتا ہے کیونکہ اس پر مالی اور عسکری دباؤ بڑھ رہا ہے، دوسری طرف غزہ پر امریکا کی توجہ معنی خیز ہے۔ایسی صورتحال کے پیش نظر اگر روس مشرق وسطیٰ میں کھل کر مداخلت کرتا ہے چاہے وہ ایران، شام یا کسی اور مقام سے ہو، تو یہ امریکا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا، امریکا براہ راست جنگ سے گریز کرے گا اور اپنے اتحادیوں کو روسی اثر و رسوخ کے خلاف مضبوط کرے گا اور خاص طور پر اسرائیل کو مزید عسکری امداد فراہم کرے گا، جیسا اس نے یوکرین میں کیا،لہٰذا ممکنہ روسی مداخلت کے بڑھنے کی صورت میں امریکا اسے اپنے عالمی اثر و رسوخ میں کمی کے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے براہ راست عسکری کارروائی کا فیصلہ کر سکتا ہے، اور اگر یہ ایسا ہوا تو ایک بڑی جنگ میں بدل سکتا ہے جو ممکنہ طور پر عالمی جنگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کی دنیا کے ممالک کو نفرت انگیز دھمکیاں برکس ممالک خاص کر روس اور چین کو ایسے اقدامات کرنے پر مجبور کر سکتی ہیں جس سے امریکا کی معاشی بالا دستی کو شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا، یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب روس اور چین برکس گروپ میں توسیع کر کے ڈالر کے متبادل کو عملی جامہ پہنا دیں، جو کہ امریکا کے لیے ایک بڑا خطرہ ہو سکتا ہے،جس کی وجہ سے امریکا خود کسی بڑی جنگ کی طرف بڑھے گا پھر یہ معاملات عالمی جنگ میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امریکی صدر ٹرمپ برکس ممالک امریکا کی سے امریکا عالمی جنگ امریکا کے ممالک نے ممالک کو سکتا ہے ٹرمپ کی ہیں اور کے ساتھ رہے ہیں ٹرمپ کے کے لیے

پڑھیں:

اسحاق ڈار کی امریکی ہم منصب سے ملاقات،امریکا کا عالمی امن میں پاکستان کے مثبت کردار اور دہشتگردی کیخلاف جنگ میں لازوال قربانیوں کا ایک بار پھر اعتراف

اسحاق ڈار کی امریکی ہم منصب سے ملاقات،امریکا کا عالمی امن میں پاکستان کے مثبت کردار اور دہشتگردی کیخلاف جنگ میں لازوال قربانیوں کا ایک بار پھر اعتراف WhatsAppFacebookTwitter 0 25 July, 2025 سب نیوز

واشنگٹن(سب نیوز)امریکا نے عالمی امن میں پاکستان کے مثبت کردار اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لازوال قربانیوں کا ایک مرتبہ پھر اعتراف کرتے ہوئے دوطرفہ تعلقات کے فروغ اور مختلف شعبہ جات میں مضبوط اور منظم روابط استوار کرنے کے ضمن میں مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
تفصیلات کے مطابق نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے امریکی ہم منصب مارکو روبیو سے واشنگٹن ڈی سی میں اہم ملاقات کی جہاں امریکی محکمہ خارجہ(اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ)پہنچنے پر امریکی حکام کی جانب سے اسحاق ڈار کا استقبال کیا گیا۔امریکا میں پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ بھی نائب وزیر اعظم کے ہمراہ تھے اور وفود کی سطح پر ہونے والی ملاقات میں دونوں فریقین کی جانب سے سینئر حکام نے شرکت کی۔
پاکستا ن اور امریکا کے وزرائے خارجہ کے درمیان یہ پہلی بالمشافہ ملا قات ہے، اس سے قبل دونوں رہنماں کے درمیان ٹیلی فونک روابط قائم تھے، ملاقات میں پاک،امریکا تعلقات اور مختلف شعبہ جات میں ممکنہ تعاون پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔ملاقات میں دوطرفہ تجارتی اور اقتصادی روابط کے فروغ، سرمایہ کاری، زراعت، ٹیکنالوجی، معدنیات سمیت اہم شعبہ جات میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا، انسداد دہشت گردی اور علاقائی امن کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی۔
اس موقع پر نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے عالمی امن کے فروغ کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی قیادت کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا۔اسحاق ڈار نے کہا کہ حالیہ پاک-بھارت کشیدگی کے حوالے سے صدر ٹرمپ کا کردار اور کاوشیں لائق تحسین ہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی لازوال قربانیوں کا اعتراف کیا اور کہا کہ عالمی و علاقائی امن کے حوالے سے پاکستان نے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ پاک-امریکا دوطرفہ تعلقات میں مزید وسعت اور استحکام کے خواہاں ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان جاری ٹریڈ ڈائیلاگ میں مثبت پیش رفت کے حوالے سے پر امید ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکی کاروباری برادری اور سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش منزل ہے، علاقائی امن کے حوالے سے دونوں ممالک کے نکتہ نظر اور مفادات میں ہم آہنگی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا میں موجود پاکستانی کمیونٹی دونوں ممالک کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر رہی ہے۔اس موقع پر دونوں رہنماوں نے دوطرفہ تعلقات کے فروغ اور مختلف شعبہ جات میں مضبوط اور منظم روابط استوار کرنے کے ضمن میں مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا سے پاکستان ٹینس فیڈریشن کے صدر اعصام الحق قریشی کی ملاقات چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا سے پاکستان ٹینس فیڈریشن کے صدر اعصام الحق قریشی کی ملاقات راولپنڈی میں ایک اور لڑکی غیرت کے نام پر قتل، عدالت کا قبر کشائی کا حکم، 8افراد گرفتار اسلام آباد ہائیکورٹ کے نوٹس پر سینیٹ میں شدید ہنگامہ، اٹارنی جنرل کو طلب کرنے کا مطالبہ ہفتہ وار مہنگائی کی شرح بڑھ کر 4.07فیصد ہو گئی ، 14اشیائے ضروریہ مزید مہنگی پی ڈی ایم اے پنجاب نے مون سون بارشوں کے پانچویں اسپیل کا الرٹ جاری کردیا چیئرمین سی ڈی اے کی زیر صدارت اجلاس،نالوں پر قائم تجاوزات کے فوری خاتمے کی ہدایت TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • امریکا کا عالمی امن میں پاکستان کے مثبت کردار اور دہشتگردی کیخلاف جنگ میں لازوال  قربانیوں کا ایک بار پھر اعتراف
  • اسحاق ڈار کی امریکی ہم منصب سے ملاقات،امریکا کا عالمی امن میں پاکستان کے مثبت کردار اور دہشتگردی کیخلاف جنگ میں لازوال قربانیوں کا ایک بار پھر اعتراف
  • امریکا سے گوشت نہ خریدنے والے ممالک ‘نوٹس’ پر ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کا انتباہ
  • ٹرمپ کا ‘اے آئی ایکشن پلان’ کا اعلان، کیا امریکا چین کی مصنوعی ذہانت میں ترقی سے خوفزدہ ہے؟
  • ٹرمپ کا گوگل، مائیکرو سافٹ جیسی کمپنیوں کو بھارتی شہریوں کو ملازمتیں نہ دینے کا انتباہ
  • ’ بھارتی شہریوں کو نوکری پر رکھنا بند کرو‘ امریکی صدر کی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ہدایت 
  • امریکی کمپنیاں بھارتی شہریوں کو ملازمت پر نہ رکھیں، ٹرمپ کی ہدایت
  • تیل کی قیمت نیچے لانا چاہتے ہیں، امریکا میں کاروبار نہ کھولنے والوں کو زیادہ ٹیرف دینا پڑے گا، ٹرمپ
  • امریکی صدر کا مختلف ممالک پر 15 سے 50 فیصد تک ٹیرف عائد کرنے کا اعلان
  • جوہری طاقت کے میدان میں امریکی اجارہ داری کا خاتمہ، دنیا نئے دور میں داخل