سورج کی روشنی میں ہی سحری، افطار اور نماز تراویح، دنیا کا یہ منفرد رمضان کہاں؟جانیں
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
دنیا بھر میں مسلمانوں کا مقدس مہینہ رمضان المبارک جاری ہے تاہم ایک خطہ میں دن کے وقت ہی سحری، افطار اور تراویح ہوتی ہے۔اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں کا مقدس مہینہ رمضان المبارک جاری ہے۔ اس ماہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے روزہ رکھتے ہیں۔ سحری (وقت فجر شروع ہونے کا وقت) سے افطار (وقت مغرب) تک بھوکا پیاسا رہتے ہیں۔
دنیا کے مختلف ٹائم زون کے حساب سے ہر ملک میں سحر اور افطار کے الگ الگ اوقات ہوتے ہیں تاہم رواں سال مختلف ممالک میں روزے کا دورانیہ ساڑھے گیارہ گھنٹے سے لے کر 20 گھنٹے سے زائد تک ہے۔دنیا کے کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جہاں سورج بہت کم وقت کے لیے غروب ہوتا ہے یا بالکل ہی غروب نہیں ہوتا۔ ان میں اکثر مکہ اور مدینہ یا پھر قریب ترین علاقوں کے اوقات کے مطابق سحر اور افطار کرتے ہیں۔
ایسا ہی ایک شہر کینیڈا میں ہے۔ نوویک برفیلے آرکٹک سرکل پر واقع ہے اور اس سال ماہ رمضان میں یہاں سورج کبھی بھی غروب نہیں ہوگا۔یہاں کی آبادی سورج کی روشنی میں ہی سحری کرتی، دن میں ہی افطار کرتی اور تراویح کی نماز بھی ادا کرتی ہے۔اس علاقے میں موجود مڈ نائٹ سن مسجد دنیا کے سب سے شمال میں واقع مساجد میں سے ایک ہے۔ یہاں آباد مسلمان اسلامی تعلیمات اور طریقوں کے مطابق سحری، افطار اور تراویح کے لیے اوقات کار طے کرتے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور:3 برس میں تقریباً 30 لاکھ پاکستانی ملک کو خیرباد کہہ گئے، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری نے ملک کے نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔ بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاو ¿نٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔
پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاو ¿نٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔ باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔
بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔ خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔