القسام کے ترجمان نے مزید کہا کہ دشمن کی طرف سے جنگ کی طرف لوٹنے کی دھمکی ہمیں صرف اس بات پر مجبور کرے گی کہ ہم اس کے وقار کو توڑنے کی طرف لوٹ جائیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مستقبل کے کسی بھی محاذ آرائی میں دشمن کو نقصان پہنچے گا۔ دشمن کی دھمکی کمزوری، شکست، اور ذلت کے احساس کی علامت ہے اور مزاحمت اور ہمارے لوگوں کی طاقت کا ثبوت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ فلسلطین کی اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ نے باور کرایا ہے کہ صہیونی دشمن نے جو کچھ جنگ ​​کے ذریعے نہیں لیا، وہ دھمکیوں اور چالوں سے بھی نہیں لے سکے گا۔ ابو عبیدہ نے جمعرات کی شام ایک ویڈیو ٹیپ شدہ تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ سب سے مختصر راستہ یہ ہے کہ دشمن کو وہ کرنے پر مجبور کیا جائے جس پر اس نے معاہدہ کیا ہے۔ دشمن کی جنگ کی دھمکیاں اسے مایوسی کا باعث بنیں گی اور اس کے قیدیوں کی رہائی کا باعث نہیں بنیں گی۔ انہوں نے قابض دشمن کے قیدیوں کے اہل خانہ کو متنبہ کیا کہ ہمارے پاس باقی زندہ قیدیوں کے لیے آج تک زندگی کا ثبوت موجود ہے۔ قابض دشمن ہی اپنے قیدیوں کی موت کے علاوہ ان کے مصائب کا سبب بنتا ہے۔ اسے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنے قیدیوں کو زندہ واپس کرنا چاہتا ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم تمام امکانات کے لیے تیار ہیں۔ ہمارے لوگوں کے خلاف جارحیت میں اضافہ دشمن کے متعدد قیدیوں کی ہلاکت کا باعث بنے گا۔

القسام کے ترجمان نے مزید کہا کہ دشمن کی طرف سے جنگ کی طرف لوٹنے کی دھمکی ہمیں صرف اس بات پر مجبور کرے گی کہ ہم اس کے وقار کو توڑنے کی طرف لوٹ جائیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مستقبل کے کسی بھی محاذ آرائی میں دشمن کو نقصان پہنچے گا۔ دشمن کی دھمکی کمزوری، شکست، اور ذلت کے احساس کی علامت ہے اور مزاحمت اور ہمارے لوگوں کی طاقت کا ثبوت ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا کہ مزاحمت نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے اور قیدیوں کے تبادلے کی شرائط کو دنیا اور ثالثوں کے سامنے پیش کیا۔ دشمن کی تمام تر کوششوں کے باوجود ہم نے اپنے لوگوں کے خون کو بہانے اور دشمن کے حیلوں بہانوں کو دور کرنے اور معاہدے پر عمل کرنے کو ترجیح دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اپنے برادر ثالث ممالک کے وعدوں کا احترام کرتے ہوئے اس معاہدے کا پابند کیا۔ دشمن نے اپنے بہت سے وعدوں سے چشم پوشی کی ہے جو ہمارے لوگوں کے بنیادی حقوق ہیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دشمن نے غنڈہ گردی، تاخیر اور تشدد کا مظاہرہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ غزہ، لبنان، شام اور پورے خطے میں قابض کے ذہن میں جرائم اور سفاکیت کا گڑھ بسا ہوا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ دشمن کی قیادت اب بھی فلسطینی عوام کے خلاف جارحیت کی مشق کرنے کے لیے امریکی کور حاصل کرنے کی کوشش میں معاہدے سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا کہ دنیا نے دیکھا ہے کہ دشمن نے ہمارے لوگوں کے قیدیوں کو کس طرح ذلیل و رسوا کیا ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ دنیا نے وحشیانہ جنگ کے دوران اپنی جانیں بچانے کی مشکل کے باوجود دشمن کے قیدیوں کی اچھی صحت دیکھی۔ انہوں نے یمن کی مزاحمتی قوت کو ان کے جرات مندانہ موقف پر سلام پیش کیا جس میں انہوں نے حمایت اور دشمن پر حملہ کرنے کی تیاری کے فیصلے کو جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ ابو عبیدہ نے مغربی کنارے کے کیمپوں میں فلسطینی عوام اور ان کے مزاحمت کاروں کو اسرائیلی جارحیت اور بے گھر کرنے، نسل کشی اور فاقہ کشی کی کوششوں کے سامنے ثابت قدم رہنے پر سلام پیش کیا۔

القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے مغربی کنارے کے بہادر عوام اور جارحیت کے مقابلے میں ان کی ثابت قدمی اور گھروں سے زبردستی بے گھر ہونے والوں کو سلام پیش کیا۔ القسام کے ترجمان نے بہادرانہ کارروائیوں کے ہیروز کی کوششوں کی بھی تعریف کی جو دشمن کو الجھاتے ہیں، اس کی سلامتی چھین لیتے ہیں اور اسے ہمارے لوگوں کی زندگی اور فخر کی یاد دلاتے ہیں۔ ابوعبیدہ نے اپنے پیغام میں کہا جب تک اس مقدس سرزمین کو غاصبوں کے ناپاک وجود سے پاک نہیں کیا جاتا، امت مسلمہ دیگر اقوام میں کوئی مقام حاصل نہیں کر سکتی۔ ہم اس امت کے دو ارب افراد کو یاد دلاتے ہیں کہ فلسطینی عوام تمہاری آنکھوں کے سامنے نسل کشی، بھوک اور جبری ہجرت کا شکار ہو رہے ہیں۔ ابوعبیدہ نے کہا کہ مقاومت، عالمی برادری اور ثالثوں کے ساتھ ہونے والے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر کاربند ہے، لیکن قابض صہیونی حکومت کی جنگی ذہنیت نے صرف غزہ ہی نہیں، بلکہ لبنان، شام اور پورے خطے کے لئے خطرات ایجاد کیے ہیں۔

ترجمان نے اسرائیلی حکام پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ امریکی حمایت حاصل کرنے اور فلسطینی عوام پر مزید مظالم ڈھانے کے لیے معاہدے سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ جنگ کے حالات میں بھی مقاومت نے صیہونی قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک کیا۔ دشمن کے لیے سب سے مختصر راستہ یہی ہے کہ وہ دھمکیوں کے بجائے جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری کرے۔انہوں نے انتباہ کیا کہ صیہونی غاصب خود اپنے قیدیوں کی ہلاکت کا سامان فراہم کر رہی ہے۔ ہم ہر ممکنہ صورتحال کے لیے تیار ہیں۔ غزہ کے خلاف کسی بھی جارحیت کے نتیجے میں صیہونی یرغمالیوں کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اس بات پر زور فلسطینی عوام ہمارے لوگوں قیدیوں کے کے ترجمان قیدیوں کی کے قیدیوں کی دھمکی انہوں نے لوگوں کے دشمن کی دشمن کو پیش کیا کہ دشمن نے اپنے دشمن کے کی طرف کے لیے کہا کہ نے کہا

پڑھیں:

ایک بھیانک جنگ کا سامنا

اسلام ٹائمز: رہبر انقلاب اسلامی نے قوم کے دلوں سے ہر طرح کے خوف کو نکال باہر کرنے اور انہیں خود اعتمادی کی دولت سے آشنا کرنے کو امام خمینی (رح) کا عظیم کارنامہ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ ہماری قوم نے محسوس کیا کہ وہ اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرکے عظیم کام انجام دینے کی طاقت رکھتی ہے اور دشمن جس طرح اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے، حقیقت میں اتنا طاقتور نہیں ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عسکری میدان میں خوف پیدا کرنے اور پسپائی پر مجبور کرنے کو دشمن کی نفسیاتی جنگ کا اہم ہدف قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم کی تعبیر کے مطابق کسی بھی میدان میں حکمت عملی کے بغیر عقب نشینی اختیار کرنا، چاہے وہ عسکری میدان ہو یا سیاسی اور معاشی میدان، خدا کے غضب کا باعث بنتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

دنیا میں ایک خاموش اور بے رحم جنگ جاری ہے۔ سوچ پر غلبہ حاصل کرنے کی جنگ۔ یہ جنگ دماغ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کی جنگ ہے اور اس جنگ کا آخری نتیجہ ذہنی سرحدوں پر قبضہ کرنے کے بعد جغرافیائی سرحدوں پر بلاچون و چرا اور بغیر کسی فوجی کارروائی کے قبضہ کرنا ہے۔ اس جنگ میں دشمن ہماری سرزمین کو فتح کرنے کے لیے پہلے ہمارے قلب و ذہن کے دروازے کو عبور کرتا ہے اور اس کے لئے نت نئے ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ آج کی جنگ معلومات، افواہوں اور ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے سے شروع ہوتی ہے۔ آج کے اس نئے دور میں قوموں کے ذہنوں اور ادراک کی سرحدوں پر موجود مورچوں کو فتح کرنے کے لیے نظریاتی میزائل اور ڈرونز استعمال کئے جاتے ہیں۔ اگر دشمن کے دل و دماغ کے مورچے فتح ہو جائیں تو ایک بھی گولی چلائے بغیر وہ ہتھیار ڈال دیتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا تھا۔ منصوبہ یہ ہے کہ انگلستان اور امریکہ کے لیڈروں کی رائے تمام دنیا کی رائے بن جائے۔۔۔۔ یہ سوچ اور دماغوں پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کسی قوم کے دماغ پر قبضہ ہو جائے تو وہ قوم اپنی سرزمین کو دونوں ہاتھوں سے پلیٹ میں رکھ کر دشمن کے حوالے کر دیتی ہے۔ سوچ و فکر پر غلبے کے لئے نوجوانوں کے قلب و ذہن کو سب سے پہلے نشانہ پر لیا جاتا ہے۔ تحریف اور بہتان اسی کے لیے بہترین ہتھیار ہیں۔ یہ انداز جنگ دشمن کی نفسیاتی کارروائیوں کے خطرے کو اجاگر کرتا ہے۔ ایک خفیہ جنگ جس کا مقصد علاقوں پر فوجی قبضہ کرنے کے بجائے لوگوں کے ذہنوں اور دلوں کو فتح کرنا ہے۔ علمی جنگ، سادہ الفاظ میں، انسانی ادراک، عقیدہ اور فیصلہ سازی کو متاثر کرتی ہے اور متاثر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی جنگ میں انسانی دماغ اہم میدان جنگ ہوتا ہے۔

مغربی فوجی ماہرین کے الفاظ میں، ’’انسانی دماغ اکیسویں صدی کا  اصلی میدان جنگ ہے۔‘‘ مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے بجائے، دشمن طاقتیں ٹارگٹ معاشرے کے خیالات کو اپنی مرضی کی ہدایت دینے کے لیے معلومات، میڈیا اور سائنسی آلات کا استعمال کرتی ہیں۔ نیٹو کے محققین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ نیورو سائنس، نفسیات، ڈیٹا مائننگ اور مصنوعی ذہانت میں پیشرفت نہ صرف انسانی ادراک کو فوراً متاثر کرتی ہے بلکہ اس کے نظریاتی ہتھیاروں کو بھی بے کار بنا سکتی ہے۔ اس کے خیالات، یادوں اور فیصلوں کو اس طرح بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ اسے خود یقین ہونے لگتا ہے کہ وہ یہ سب فیصلے خود کر رہا ہے۔ اس وجہ سے اس جنگ کو کلاسیکل نفسیاتی جنگ (پروپیگنڈا) سے الگ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس میں پیغام کے مواد میں براہ راست ہیرا پھیری کرنے کے بجائے مخاطب کے ذہن میں معلومات کو اس طرح منتقل کیا جاتا ہے کہ پیغام موصول کرنے والا اس میں باہر کی مداخلت کو محسوس ہی نہیں کر پاتا۔

دوسرے لفظوں میں، دشمن کے ذہن پر اس کے علم کے بغیر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگلے مرحلے میں اسے ریموٹ کنٹرول کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ تزویراتی نقطہ نظر سے، کسی قوم کے ذہن پر قبضہ اس کی سرزمین پر قبضے کا متبادل بھی ہوسکتا ہے۔ نیٹو نے اپنی دستاویزات میں اس علمی جنگ کی تعریف اس طرح کی ہے: "رویوں اور طرز عمل کو متاثر کرنے والی سرگرمیوں کے ذریعے حقیقت کے ادراک کو تبدیل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر معاشرے کے حقائق میں ہیرا پھیری کرنا۔ درحقیقت علمی جنگ میں حقیقت کو مسخ کرنا اور مخالف کو کمزور کرنے کے لیے سچائیوں کو الٹ پلٹ کر بیان کرنا ہے۔ یہ ترقی یافتہ نرم جنگ کسی ملک کے لوگوں کو صحیح اور غلط کی تمیز سے روکتی ہے اور وہ اپنی مرضی سے یا نہ چاہتے ہوئے بھی دشمن کے خیالات اور خواہشات کی پیروی کرنے لگتا ہے۔

روایتی جنگوں کے برعکس جس کا دائرہ کار محدود اور صرف فوجی مقاصد تک محدود ہوتا ہے، اس جنگ کا دائرہ کار زیادہ وسیع، پائیدار اور پورے معاشرے کو اپنے گھیرے میں لے سکتا ہے۔ یہ پورے معاشرے کو گھیرے ہوئے ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ 1990ء کی دہائی کے اوائل سے یہ تصور فوجی میدان سے آگے سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور سماجی شعبوں تک پھیلا ہوا ہے۔ نئی انفارمیشن ٹیکنالوجیز کا ہر صارف علمی جنگ میں ممکنہ ہدف ہے اور یہ جنگ کسی قوم کے تمام انسانی سرمائے کو نشانہ بناتی ہے۔ سیدھے الفاظ میں، آبادی کے تمام افراد، خاص طور پر نوجوان، اس چھپی ہوئی جنگ کی فائر لائن میں ہیں۔ دشمن اپنی علمی جنگ کو آگے بڑھانے کے لیے کلاسک نفسیاتی آپریشنز اور نئی میڈیا ٹیکنالوجیز کے امتزاج کا استعمال کرتا ہے۔ ان تمام تکنیکوں کا مشترکہ مقصد براہ راست فوجی تصادم کے بغیر لوگوں کے جذبات اور عقائد کو متاثر کرنا ہے۔

جھوٹ پھیلانا اور حقائق کو مسخ کرنا نفسیاتی آپریشن کے سب سے اہم ہتھیار ہیں۔ جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ایک خطاب میں اشارہ کیا ہے کہ افواہوں، جعلی خبروں اور بہتانوں کا ایک سیلاب معاشرے کے فعال ذہنوں بالخصوص نوجوانوں پر اثر انداز ہونے کی نیت سے پیدا کیا اور پھیلایا جاتا ہے۔ سائنسی تحقیق اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ سائبر اسپیس میں جھوٹی معلومات اور افواہیں سچ سے کہیں زیادہ تیزی سے اور وسیع پیمانے پر پھیلتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک تازہ ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ "جھوٹ سچائی سے کافی دور، تیز اور گہرا سفر کرتا ہے۔" اس بات کو افسوس کے ساتھ قبول کرنا پڑتا ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں، غلط معلومات کا تیزی سے پھیلاؤ سچائی کے سامنے آنے سے پہلے رائے عامہ کو متاثر کرچکا ہوتا ہے۔ مغربی تجزیہ کاروں کے الفاظ میں، جب غلط معلومات زور پکڑ لیتی ہیں تو اس سے پہلے کہ  سچائی مخاطب تک پہنچنے جھوٹ عوام پر اپنا اثر مرتب کرچکا ہوتا ہے۔

کیا اس جنگ کا مقابلہ ممکن ہے۔؟ اس سوال کا جواب رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے اس خطاب کے اقتباس میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب نے نفسیاتی جنگ کے حوالے سے ایران کے بدخواہوں کی چالوں کا ذکر کرتے ہوئے ایرانی قوم کو مختلف میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے اور دشمن کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے بچنے کو اس جنگ کے مقابلے کا اہم ذریعہ قرار دیا اور کہا: شہداء اپنی قربانیوں اور جدوجہد سے اس نفسیاتی جنگ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ناکام بنا دیا۔ لہذا شہداء کے ایام مناتے وقت اس سچائی کو اجاگر کیا جائے اور اسے زندہ رکھا جائے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے دشمن کی صلاحیتوں کے بارے میں مبالغہ آمیزی کو ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ کے بنیادی اصولوں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی وہ ہماری قوم کو مختلف طریقوں سے امریکہ، برطانیہ اور صیہونیوں سے ڈرانے کے حربے استعمال کرتے آرہے ہیں۔

انہوں نے قوم کے دلوں سے ہر طرح کے خوف کو نکال باہر کرنے اور انہیں خود اعتمادی کی دولت سے آشنا کرنے کو امام خمینی (رح) کا عظیم کارنامہ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ ہماری قوم نے محسوس کیا کہ وہ اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرکے عظیم کام انجام دینے کی طاقت رکھتی ہے اور دشمن جس طرح اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے، حقیقت میں اتنا طاقتور نہیں ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عسکری میدان میں خوف پیدا کرنے اور پسپائی پر مجبور کرنے کو دشمن کی نفسیاتی جنگ کا اہم ہدف قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم کی تعبیر کے مطابق کسی بھی میدان میں حکمت عملی کے بغیر عقب نشینی اختیار کرنا، چاہے وہ عسکری میدان ہو یا سیاسی اور معاشی میدان، خدا کے غضب کا باعث بنتا ہے۔

انہوں نے کمزوری اور تنہائی کے احساس اور دشمن کے مطالبات کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کو سیاسی میدان میں اس کی طاقت کی وسعت کے اثرات قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ وہ حکومتیں جو آج بڑی اور چھوٹی قوموں کے ساتھ مل کر استکبار کے مطالبات کے سامنے سرتسلیم خم کرتی ہیں۔ وہ اپنی قوموں کی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے اور دشمن کے کھوکھلی طاقت کا ادراک حاصل کر لیں تو وہ دشمن کو ”آنکھیں“ دکھا سکتی ہیں اور اس کے مطالبات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتی ہیں۔ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دشمن کی ثقافت سے مرعوب ہونے اور اپنی ثقافت کو حقیر سمجھنے کو ثقافتی میدان میں دشمن کی برتری تسلیم کرنے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس طرح کی کمزوری کا نتیجہ دوسرے فریق کے طرز زندگی کو قبول کرنے اور یہاں تک کہ اغیار کی زبان کو استعمال کرنے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • حماس کو ’شکار کیا جائے گا‘، ٹرمپ وحشیانہ دھمکیوں پر اتر آئے
  • حکومت کی پی ٹی آئی تحریک میں دلچسی نہ کوئی خوف: عرفان صدیقی
  • پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہے، اسحاق ڈار
  • قاسم، سلمان خوشی سے آئیں ،پی ٹی آئی کی تحریک سے کوئی خوف نہیں، عرفان صدیقی
  • ایک بھیانک جنگ کا سامنا
  • بین الاقوامی یونیورسٹیاں پنجاب میں کیمپس بنانے کیلئے تیار، ایجوکیشن ویجی لینس سکواڈ کی منظوری
  • اسرائیل کیساتھ جنگ کیلئے تیار، پر امن مقاصد کیلئے جوہری پروگرام جاری رہے گا، ایرانی صدر
  • سندھ حکومت بارشوں کے بڑے اسپیل سے نمٹنے کیلئے تیار(غیر قانونی تعمیرات کیخلاف کارروائی جاری)
  • نومئی کرنے اور کرانے والے پاکستان کے اصل دشمن ہیں، عظمی بخاری
  • سیلابی صورتحال کی 1912ء کے ماڈل سے لوگوں کو ارلی وارننگ دی جا رہی ہے: شیری رحمان