ایک غیر یقینی دنیا میں، آپ چین پر اعتماد کر سکتے ہیں، ظفرالدین محمود
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
ایک غیر یقینی دنیا میں، آپ چین پر اعتماد کر سکتے ہیں، ظفرالدین محمود WhatsAppFacebookTwitter 0 8 March, 2025 سب نیوز
بیجنگ :پاکستانی وزیر اعظم کے سابق معاون خصوصی ظفرالدین محمود نے کہا ہے کہ ایک غیر یقینی دنیا میں، آپ چین پر اعتماد کر سکتے ہیں ۔ چین کی نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) کے سالانہ اجلاس کے دوران چینی وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس نے بیرونی دنیا کو اس جملے کے بارے میں مزید واضح انداز میں بتایا
۔ڈیڑھ گھنٹے میں سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کے پولیٹیکل بیورو کے رکن اور وزیر خارجہ وانگ ای نے اہم ممالک کے تعلقات، علاقائی ہاٹ اسپاٹس، انٹرنیشنل گورننس اور دیگر پہلوؤں پر گفتگو کی۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تبدیلیوں سے بھری اس دنیا میں، چین ایک قیمتی اور” مستقل عنصر” ہے جو دنیا میں یقین کا باعث ہے.
بڑھتی ہوئی تحفظ پسندی کے پیش نظر، چین اپنے کھلے پن کو وسعت دینے کے لئے پرعزم ہے۔ آج جدیدیت کے چینی راستے نے زیادہ ممالک کی جانب سے پذیرائی حاصل کی ہے ۔یہ سب چین کی جانب سے استحکام کے لئے فراہم کردہ قوت ہے۔سال 2025 میں فاشسٹ مخالف عالمی جنگ میں فتح اور اقوام متحدہ کے قیام کی اسیویں سالگرہ ہے۔
اس نازک موڑ پر چین نے ایک بار پھر واضح کیا کہ وہ بین الاقوامی انصاف کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے اور طاقت اور بالادستی کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کو جنگل کے قانون اور سانحات سے بچنے کے لئے ، چین کی کوششوں اور عزم میں تسلسل رہا ہے ۔
ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
طالبان دہشت گردوں کی سہولت کاری کر رہے ہیں، پاکستان اپنی سیکیورٹی خود یقینی بنائے گا، ڈی جی آئی ایس پی آر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
راولپنڈی: ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی سلامتی و استحکام کی ذمہ داری اور ضمانت مسلح افواج ہیں اور یہ ضمانت کسی بیرونی دارالحکومت یا کابل کو نہیں دی جا سکتی، دہشت گردی، منشیات کی کشتکاری اور غیر ریاستی عناصر کے ساتھ مل کر کام کرنے والے گروپس کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی۔
سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے جنرل احمد شریف نے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا اور واضح کیا کہ ریاستی اداروں کا رویہ واضح ہے، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف آپریشنز جاری ہیں، ملک کی سکیورٹی کا نظم و نسق فوج کے کنٹرول اور ذمہ داری میں ہے اور اس ضمانت کا تقاضا کابل سے نہیں کیا جا سکتا۔
ڈرونز کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کا امریکا کے ساتھ کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے جس کے تحت ڈرونز پاکستان سے افغانستان جا رہے ہوں، اور وزارت اطلاعات نے بھی اس بارے میں وضاحتیں جاری کی ہیں، طالبان رجیم کی جانب سے ڈرون آپریشن کے حوالے سے کوئی باقاعدہ شکایت موصول نہیں ہوئی۔
جنرل نے استنبول میں طالبان کو واضح ہدایات دینے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کو قابو میں رکھنا اور ان کے خلاف کارروائی کرنا افغان فریق کی ذمہ داری ہے،جو عناصر ہمارے خلاف آپریشنوں کے دوران بھاگ کر افغانستان چلے گئے، انہیں واپس کر کے آئین و قانون کے مطابق نمٹایا جائے تو بہتر ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے علاقائی مسائل پر بھی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اصل مسئلہ دہشت گردی اور جرائم پیشہ عناصر کا مشترکہ گٹھ جوڑ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ منشیات کی کاشت اور اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی جنگجوؤں، وار لارڈز اور بعض افغان گروہوں کو منتقل ہوتی ہے، جس نے خطے میں بدامنی کو تقویت دی ہے۔
سرحدی امور پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان افغانستان سرحد تقریباً 2,600 کلومیٹر طویل ہے اور ہر 25 تا 40 کلو میٹر پر چوکیوں کی موجودگی کے باوجود پہاڑی اور دریا ئی علاقوں کی وجہ سے ہر جگہ چوکی قائم کرنا ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان سرحدی گارڈز بعض اوقات دہشت گردوں کو سرحد پار کروانے کے لیے فائرنگ میں معاونت کرتے ہیں، جس کا پاکستان جواب دیتا ہے۔
فوجی عہدوں کے قیام یا دیگر انتظامی امور کے بارے میں انہوں نے واضح کیا کہ اس نوعیت کے فیصلے حکومت کا اختیار ہیں، فوج نے وادی تیرہ میں براہِ راست آپریشن کا دعویٰ نہیں کیا اور اگر کوئی آپریشن ہوا تو اسے شفاف انداز میں بتایا جائے گا؛ تاہم انٹلی جنس بیسڈ کارروائیوں میں کافی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔