کانگریس پارٹی کے آدھے لوگ بی جے پی سے ملے ہوئے ہیں، راہل گاندھی
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
کانگریس لیڈر نے کہا کہ گجرات کانگریس میں دو طرح کے لوگ ہیں، ایک وہ جو پارٹی کے نظریے کے تئیں پابند عہد ہیں اور عوام کیلئے کام کررہے ہیں اور دوسرے وہ جو بی جے پی سے ملے ہوئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر اور کانگریس کے سینیئر لیڈر راہل گاندھی گجرات کے دورے پر ہیں۔ راہل گاندھی نے دورے کے دوسرے دن احمدآباد میں کانگریس کارکنان کو خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 30 سالوں سے کانگریس گجرات میں اقتدار سے باہر ہے، لیکن اب تبدیلی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کانگریس کارکنان کو متحد ہونے کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ پارٹی کے نظریے کے خلاف کام کررہے ہیں، ان کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی۔
راہل گاندھی نے کہا کہ گجرات کانگریس میں دو طرح کے لوگ ہیں، ایک وہ جو پارٹی کے نظریے کے تئیں پابند عہد ہیں اور عوام کے لئے کام کر رہے ہیں اور دوسرے وہ جو بی جے پی سے ملے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں کو الگ کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو کانگریس کے نام پر کام تو کر رہے ہیں، لیکن عوام کا احترام اور کام نہیں کر رہے ہیں۔ راہل گاندھی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کانگریس میں لیڈران کی کمی نہیں ہے، لیکن تنظیم کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک کانگریس اپنی ذمہ داری نہیں نبھائے گی تب تک گجرات کی عوام پارٹی کو الیکشن میں حمایت نہیں دے گی۔
انہوں نے کارکنان کو متحد ہوکر عوام کی خدمت میں مصروف ہونے کی گزارش کی۔ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے کہا کہ گجرات اس وقت مختلف مسائل میں پھنسا ہوا ہے اور اسے صحیح سمت دکھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مہاتما گاندھی اور سردار پٹیل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کی مضبوط بنیاد انہیں عظیم لیڈران نے رکھی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ گجرات کے نوجوان، کسان، تاجر اور خواتین کے لئے آئے ہیں اور ان کے حق کی لڑائی لڑتے رہیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ راہل گاندھی نے پارٹی کے ہیں اور
پڑھیں:
اسرائیلی حکومت غزہ کے عوام کو مکمل طور پر ختم کرنے کا منصوبہ بناچکی ہے، جماعت اسلامی ہند
سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ اسرائیلی مصنوعات اور اس نسل کشی میں شریک کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں اور فلسطینی مزاحمت کے خلاف پھیلائی جارہی گمراہ کن معلومات کا مؤثر جواب دیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے غزہ میں جاری نسل کشی اور انسانی بحران پر اپنی شدید مذمت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے بھارتی حکومت سمیت عالمی طاقتوں اور دنیا بھر کے باضمیر شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ غزہ میں ہونے والے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اسرائیل کے مسلسل حملوں کو فوری طور پر روکنے کے لئے عملی اقدامات کریں۔ میڈیا کے لئے جاری اپنے بیان میں سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ غزہ میں 21 لاکھ سے زائد فلسطینی جن میں 11 لاکھ سے زائد بچے شامل ہیں، مسلسل محاصرے اور شدید بمباری کی زد میں ہیں۔ 18 مارچ 2025ء کو جنگ بندی کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے اپنی فوجی جارحیت کو مزید تیز کردیا ہے اور بنیادی ضروریات اور امداد پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے عوام بھوک سے مر رہے ہیں۔ ان کے گھر تباہ ہوچکے ہیں اور ان کی آوازیں خاموش کردی گئی ہیں۔ غزہ کی صورتحال انتہائی نازک ہے اور فوری توجہ کی مستحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت غزہ کے عوام کو مکمل طور پر ختم کرنے کا منصوبہ بنا چکی ہے، اب یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس المیے کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق غزہ کے 90 فیصد طبی مراکز تباہ یا ناکارہ ہوچکے ہیں۔ پورے غزہ میں صرف چند غذائی مراکز کام کررہے ہیں جبکہ ہزاروں ٹن خوراک اور دوائیں کئی مہینوں سے سرحدی راستوں پر رکی ہوئی ہیں۔ صفائی، پینے کے صاف پانی اور طبی سہولیات کی تباہی کے باعث اسہال، ہیپاٹائٹس اے اور سانس کی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ یونیسیف کے مطابق 6 لاکھ 60 ہزار بچے اسکولوں سے محروم ہیں اور 17 ہزار سے زائد بچے یتیم یا اکیلے رہ گئے ہیں، اگر غزہ کا محاصرہ ختم نہ ہوا تو ستمبر 2025ء تک مکمل قحط پڑنے کا خطرہ ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر نے عالمی برادری سے فیصلہ کن اقدام کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ عالمی نظام کے لئے ایک سخت آزمائش کا وقت ہے۔ ہم تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل سے فوجی اور معاشی تعلقات ختم کریں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے تعلق سے امیر اور طاقتور ممالک بالخصوص امریکہ کی دوہری پالیسی کا خاتمہ ہونا چاہیئے، امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو رسمی بیانات سے آگے بڑھ کر امن اور انصاف کے بنیادی اصولوں پر عمل کرنا چاہیئے، جن کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔
سید سعادت اللہ حسینی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا تاریخی اور اخلاقی فریضہ ادا کرے، بھارت نے ہمیشہ فلسطین کے جائز موقف کی حمایت کی ہے۔ اس نازک وقت میں ہماری آواز پہلے سے زیادہ بلند اور واضح ہونی چاہیئے۔ حکومت کو اسرائیلی مظالم کی کھل کر مذمت کرنی چاہیئے، اس کے ساتھ تمام عسکری اور اسٹریٹجک تعلقات معطل کرنے چاہئیں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے بین الاقوامی اقدامات کی پرزور حمایت کرنی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری آواز سیاسی مصلحتوں کے بجائے آئینی اقدار اور تہذیبی ورثے سے رہنمائی حاصل کرے۔ نسل کشی کے وقت غیر جانبدارانہ سفارتکاری کی پالیسی انسانی قدروں کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے آخر میں ملک کے عوام سے پرامن مزاحمت میں فعال شرکت کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی مصنوعات اور اس نسل کشی میں شریک کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں اور فلسطینی مزاحمت کے خلاف پھیلائی جا رہی گمراہ کن معلومات کا مؤثر جواب دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ہر فورم، سوشل میڈیا، عوامی اجتماعات اور ذاتی روابط کا استعمال کرتے ہوئے غزہ کی حقیقت دنیا کے سامنے رکھنی چاہیئے اور مظلوموں کے ساتھ کھل کر کھڑے ہونا چاہیئے۔