اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 مارچ 2025ء) شام میں بحیرہ روم کا ساحل ملک کی علوی اقلیت کا ایک گڑھ ہے، جو شیعہ اسلام کے پیروکار ہیں اور سنی اکثریتی آبادی والے ملک شام کی مجموعی آبادی کے نو فیصد حصے پر مشتمل ہیں۔ معزول شامی صدر بشار الاسد کا تعلق بھی علوی برادری سے ہے، ان کی معزول حکومت کے سکیورٹی اور فوجی ڈھانچے میں غیر متناسب نمائندگی کے ذریعے علویوں کو ان کے حصے سے کئی زیادہ نمائندگی دی گئی تھی۔
اسد خاندان کی پانچ دہائیوں پر مشتمل آمرانہ حکومت کے دور میں شہریوں کو قید کرنا ان پر تشدد اور قتل و غارت عام تھی۔
الاذقیہ اور طرطوس کے ساحلی علاقوں میں اب بھی شامی فوج کے ایسے عناصر موجود ہیں، جو اسد خاندان کے ساتھ وفادار ہیں، نیز نئے عبوری صدر شراع اور اس کے باغی اسلام پسند گروپ حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کی طرف سے برطرف کیے گئے سرکاری ملازمین اور دیگر سابق حکومتی اہلکار بھی یہیں موجود ہیں۔
(جاری ہے)
انڈیپینڈینٹ ریسرچ فاؤنڈیشن سنچری انٹرنیشنل سے منسلک آرون لونٹ کے مطابق عبوری حکومت کے فوجیوں کی جانب سے کی جانے والی مہلک انتقامی کارروائیوں نے نئی حکومت کی ''کمزوری‘‘ کو ظاہر کر دیا ہے۔ انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''دونوں فریقوں کو ایسا لگتا ہے کہ وہ حملے کی زد میں ہیں، دونوں فریقوں کو دوسرے فریق کے ہاتھوں خوفناک زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور دونوں فریق مسلح ہیں۔
‘‘ان کا مزید کہنا تھا، ''نئی حکومت کا اختیار زیادہ تر بنیاد پرست جہادیوں پر ہے، جو علویوں کو خدا کا دشمن سمجھتے ہیں۔‘‘ لونٹ نے وضاحت کی، "جب بھی کوئی حملہ ہوتا ہے، تو عبوری حکومت سے منسلک گروہ علوی دیہاتوں پر چھاپے مارتے ہیں، جن میں نہ صرف مسلح سابق فوجی ہوتے ہیں بلکہ عام نہتے شہری بھی ہوتے ہیں۔‘‘
ش ر⁄ ع ب ( اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
جس کے ہاتھ میں موبائل ہے، اس میں ہاتھ میں اسرائیل کا ٹکڑا موجود ہے: نیتن یاہو
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مغربی مقبوضہ بیت المقدس: اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکی کانگریس کے وفد سے ملاقات میں کہا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی لوگ موبائل فون رکھتے ہیں، بنیادی طور پر ان کے ہاتھ میں “اسرائیل کا ایک ٹکڑا” ہے۔
انہوں نے اس بیان کے دوران اسرائیل کی ادویات، ہتھیار اور بیٹری/فون بنانے کی صلاحیتوں کو سراہا۔
نیتن یاہو نے کہا کہ بعض ممالک نے ہتھیاروں کے اجزاء کی ترسیل روک دی ہے جس پر تنقید ہو رہی ہے، مگر انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل اس چیلنج پر قابو پانے کے قابل ہے کیونکہ “ہم ہتھیار بنانے میں اچھے ہیں”۔ اُنھوں نے شرکاء سے سوال کیا کہ کیا ان کے پاس موبائل فونز ہیں اور بتاتے ہوئے کہا کہ فونز، زرعی پیداوار اور دیگر اشیاء میں بھی اسرائیل کا حصہ ہوتا ہے۔
وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ امریکا کے ساتھ شیئر کی جانے والی انٹیلی جنس میں بڑا حصہ اسرائیل فراہم کرتا ہے اور دونوں ممالک دفاعی نظاموں میں معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق یہ روابط عالمی سطح پر کئی معاملات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب غزہ میں فوجی کارروائیوں اور ہتھیاروں کی ترسیل پر بین الاقوامی سطح پر سخت تنقید جاری ہے، اور بعض ملکوں نے اسرائیل کے خلاف سفارتی اور تجارتی دباؤ بڑھایا ہے۔