Express News:
2025-04-25@11:44:23 GMT

اعلیٰ تعلیم کا چیلنج

اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT

پاکستان میں اختیارات کی جنگ ہو یا طاقت کی حکمرانی عمومی طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان معاملات میں متحد نظر آتی ہیں۔ان کی کوشش ہوتی ہے کہ آئین اور قانون کی حکمرانی سے زیادہ ان کے شخصی اور ذاتی مفادات کو تقویت ملے اور اسی بنیاد پر ایسی پالیسیاں اور قانون سازی کی جاتی ہیں جو ملکی مفاد سے زیادہ ان کے ذاتی مفادات کی ترجمانی کرتی ہیں۔

اس تناظرمیں ایک معاملہ ہمیں پاکستان کی اعلیٰ تعلیم سے بھی جڑا ہوا نظر آتاہے۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس بات پر متحد ہیں کہ انھوں نے اعلیٰ تعلیم کے تناظر میں بھی عدم مرکزیت کے بجائے مرکزیت پر مبنی سوچ اور پالیسی کو آگے بڑھانا ہے۔

اگرچہ 18ویں ترمیم کے بعد یہ اصول طے کر دیا گیا تھا کہ اعلیٰ تعلیم بھی صوبائی سطح کا سبجیکٹ ہوگا۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت صوبوں کو اعلیٰ تعلیم کے تناظر میں با اختیار نہیں بنانا چاہتی اور اسی طرح صوبائی حکومتیں اپنے اپنے صوبوں میں اعلیٰ تعلیم کو با اختیار دیکھنا نہیں چاہتی۔یہ ہی وجہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر موجود اعلیٰ تعلیمی کے لیے قائم ادارے کے درمیان عدم توازن اور بداعتمادی کے پہلو دیکھنے کو ملتے ہیں۔

اہم پہلو یہ ہے کہ بلوچستان اور خبر پختون خواہ میں مختلف وجوہات کی بنیاد پر یہ ہائر ایجوکیشن کمیشن آج تک قائم نہیں ہوسکے اور نہ ہی ان کی کوئی جوابدہی ہوسکی۔پنجاب اور سندھ میں جہاں یہ کمیشن بنے وہاںاسے صوبائی حکومتوں نے اپنے کنٹرول میں رکھا اور بیوروکریسی کی مدد سے اس نظام کو چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بنیادی طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہائر ایجوکیشن سے جڑے اداروں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہیں اور ان کی خود مختاری کو ہر سطح پر چیلنج کیا جاتابھی کیا جاتا ہے۔اسی بنیاد پر ہر سطح پر ہمیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سیاسی عملی طور پر ہائر ایجوکیشن سے جڑے معاملات میں میرٹ سے زیادہ سیاسی اقرباپروری کے پہلوؤں کا سامنے آنا ہے، جو منفی عمل ہے۔یہ مسئلہ کسی ایک وفاقی یا صوبائی حکومتوں کا نہیں بلکہ یہ مجموعی سیاسی بحران ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں۔

آج کل یہ بحث بھی کافی شدت سے اٹھائی جا رہی ہے کہ جامعات کے معاملات کو چلانے کے لیے ہمیںسرکاری افسروں میں سے کچھ لوگوں کو جامعات کا سربراہ بنانا چاہیے۔اسی تناظر میں سندھ حکومت نے ایک قانون منظور کیا ہے جس کے بعد ماہر تعلیم کے ساتھ ساتھ بیوروکریٹس کو بھی جامعات کا وائس چانسلر تعینات کرنے کی اجازت ہوگی۔

اس قانون میں سندھ حکومت نے پی ایچ ڈی کی شرط کو حذف کر دیا ہے حالانکہ اساتذہ کی بھرتی کے لیے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی شرط لازمی ہے مگر جامعات کے سربراہ کے لیے اس شرط کو ختم کیا جارہا ہے ۔ سندھ حکومت کے بعد دیگر صوبوں میں ایسی قانون سازی کرنے کی کوشش ہوگی کہ نان پی ایچ ڈی کو بطور وائس چانسلرز لایا جائے۔

اہم بات یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر کنٹرول میں لانے کے لیے ساری حکومتیں متحد بھی نظر آتی ہیں ۔اسی طرح ہم اگر دیکھیں توصوبائی سطح پروزیر اعلیٰ اور گورنر کے درمیان بھی جامعات کے تناظر میں مختلف قسم کے مسائل دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ وائس چانسلرز کی تقرری کے معاملات میں تاخیری مسائل نے ان کی شفافیت کو چیلنج بھی کیا ہے۔

 وفاقی اور صوبائی سطح پر اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت ان میں کٹوتی کی جا رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ آپ جامعات کی سطح پر کیا سیاسی ،انتظامی اور مالی سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور اس سرمایہ کاری کی بنیاد پر ہم کیا بڑے نتائج کی توقع کرتے ہیں۔جامعات کی سطح پر موجود سنڈیکیٹ میں بھی دو ارکان اسمبلی کی شمولیت بھی سیاسی مداخلت کی ایک واضح شکل ہے۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد جس طرح سے صوبائی حکومتوں کو اپنے صوبائی معاملات میں اعلیٰ تعلیم سے لے کر تمام شعبوں میںشفافیت کو پیدا کرنا چاہیے تھا مگر وہ ایسا نہیں کر سکے۔اس لیے اٹھارویں ترمیم کی اہمیت کم ہو رہی ہے اور لگتا ایسا ہے اٹھارویں ترمیم کو بھی صوبائی حکومتیں اپنے مفادات کے لیے ایک بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔صوبائی حکومتوں کا مقصد اپنی اجارہ داری کو قائم کرنا ہے۔

دوسری طرف یونیورسٹیز کے اساتذہ میں بھی اپنے مسائل کے حوالے سے کافی بے چینی پائی جاتی ہے۔ ان کا احتجاج ریسرچر کو ملنے والے 25 فیصد انکم ٹیکس چھوٹ کے خاتمے،ایل پی آر، نئے پنشنررولز کے خلاف،لیو انکیشمنٹ کی بحالی ،رول 17-Aکی بحالی،ٹیکس ریبیٹ اور دیگر الاؤنسز کے حوالے سے ہے۔

اسی طرح جامعات کی خود مختاری سمیت ان کو مالی طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے زیادہ وسائل ملنے چاہیے کیونکہ مسئلہ محض جامعات کا نہیں ہے بلکہ یہ طلبہ و طالبات پر مستقبل کے تناظر میں ایک بڑی سرمایہ کاری ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سامنے لانے کا سبب بنے گی۔

اصولی طور پر اس وقت اہم مسلہ جامعات اور اعلیٰ تعلیم کی خود مختاری ہے۔کیونکہ جب تک ہم اعلیٰ تعلیم سے جڑے معاملات میں اس کی خود مختاری کے اصول کو قبول نہیں کریں اور اس پر بڑی سیاسی،انتظامی اور مالی سرمایہ کاری نہیں کریں گے، ہم اس میدان میں کچھ بڑا نہیں کرسکیں گے۔

ہمیں دنیا کے جدید نظام میں دیکھنا ہوگا کہ انھوں نے اعلیٰ تعلیم کے کیا معیارات قائم کیے ہیں اور کس طرح سے اپنے ملکوں میں جامعات کی خود مختاری کو ممکن بنا کر ان میں شفافیت پیدا کی ہیں ۔

یہ ہی وجہ ہے ان ممالک کی جامعات کی درجہ بندی اوپر جارہی ہے اور مسلسل پیچھے کی طرف جارہے ہیں۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اعلیٰ تعلیم ، تحقیق اور تعلیمی معیارات کی بہتری اور اچھے طالب علم یا اساتذہ کو پیدا کرنا اور اس نظام میں بہتری لانا جامعات کی خود مختاری سے ہی جڑا ایک اہم نقطہ ہے۔جب تک ریاستی اور حکومتی ترجیحات میں تعلیم کے نظام کی خودمختاری نہیں ہوگی،ہم پیچھے ہی رہیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: وفاقی اور صوبائی صوبائی حکومتیں صوبائی حکومتوں ہائر ایجوکیشن کی خود مختاری کے تناظر میں معاملات میں سرمایہ کاری جامعات کی سے زیادہ بنیاد پر تعلیم کے یہ ہے کہ نہیں کر کے بعد اور اس رہی ہے کے لیے

پڑھیں:

ںہروں کا مسئلہ حل، دھرنے ختم کیے جائیں، وزیر اعلیٰ سندھ

اسلام آباد:

  وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ نئی نہروں کی تعمیر کا معاملہ حل ہو گیا ہے اور  یہ فیصلہ ہوا ہے کہ نہروں کے معاملے پر وفاقی حکومت  پیش رفت نہیں کرے گی۔

وزیر اعلیٰ سندھ  مراد علی شاہ  نے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو  کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج یہ  فیصلہ ہوا ہے کہ نہروں کے معاملے پر  وفاقی حکومت  پیش رفت نہیں کرے گی، میں شکر گزار ہوں آج میٹنگ میں یہ فیصلہ ہوا۔

انہوں نے  بتایا کہ  دو مئی کو سی سی آئی کا اجلاس  ہو گا۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ دریا=ں میں اتنا پانی نہیں کہ نئی نہروں کا منصوبہ بنایا جائے.

ان کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) میں بھی یہ  طے ہو گا کہ دریاؤں میں پانی نہیں تو  نئی نہریں بھی نہ بنیں۔ اگر صوبوں کا اتفاق رائے پیدا ہو جائے تب تو اس منصوبے کو سامنے لائیں۔

وزیر اعلیٰ سندھ  مراد علی شاہ  نے کہا کہ دھرنے دینے والوں کو کہوں گا کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے اور وفاقی حکومت نے ہمارا موقف مان لیا ہے لہذا  دھرنے ختم کیے جائیں۔

انہوں  نے کہا کہ نئی نہروں کا منصوبہ ختم ہو گیا ہے  اور شکر ہے کہ  سندھ  عوا م میں پھیلی ہوئی بے چینی ختم ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ جون 2024 میں نئی نہریں بنانے کا فیصلہ کیا، تب سے سی سی آئی کی میٹنگ نہیں ہوئی ، لوگوں میں بے چینی پھیل گئی، کچھ بیانات ایسے آ رہے تھے جیسے کوئی نئی نہر بن رہی ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ  مراد علی شاہ  نے کہا کہ اس وجہ سے ہم نے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا ، ہم نے کہا جو فیصلہ ہوا وہ  غلط  اعداد و شمار پر ہوا، ہم نے  نہروں کی تعمیر کے معاملے پر آئینی طریقہ اختیار کیا۔

بھارتی جارحیت  سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ  مراد علی شاہ  نے  کہا کہ جو آج  قومی سلامتی کمیٹی میں  حکومت نے فیصلے کیے  پیپلز پارٹی اور قوم اس  کے پیچھے کھڑی ہے ، سند طاس معاہدہ بھارت ختم نہیں کرسکتا۔

انہوں نے کہا کہ ہلاکتوں کے واقعے کی مذمت سب نے کی لیکن جو  بھارتی  حکومت کا ردعمل آیا اس کی بھی مذمت کرنی چاہیے،  بھارت نے  بغیر سوچے سمجھے بغیر ہی پاکستان کیخلاف پروپیگنڈا شروع کردیا۔

متعلقہ مضامین

  • اولاد کی تعلیم و تربیت
  • ںہروں کا مسئلہ حل، دھرنے ختم کیے جائیں، وزیر اعلیٰ سندھ
  • ٹائمز ہائرایجوکیشن ایشیا یونیورسٹی رینکنگ، پاکستانی جامعات کی پوزیشن کیا ہے؟
  • وفاق و صوبائی حکومتیں ناکام ہو چکیں، اپوزیشن کا کوئی باضابطہ اتحاد نہیں: فضل الرحمن
  • اسلام آباد، وفاقی وزیر امیر مقام سے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی ملاقات
  • وزیر اعلیٰ بلوچستان سے سابق وفاقی وزیر جنرل( ر ) عبدالقادر بلوچ اور سابق سینیٹر و سفیر میر حسین بخش بنگلزئی کی ملاقات
  • دھاندی سے بنی وفاقی و صوبائی حکومتیں ناکام ہوچکیں، کے پی میں حکومت کی رٹ ہی نہیں ، فضل الرحمان
  • فیصل بینک کے اعلیٰ سطحی وفد کا دورہ حبیب یونیورسٹی
  • ترقیاتی منصوبے، آئی ایم ایف کا نیا مطالبہ سامنے آگیا
  • آئی ایم ایف کا وفاقی بجٹ سے ترقیاتی منصوبے ختم کرنے کا مطالبہ