پاکستان میں اختیارات کی جنگ ہو یا طاقت کی حکمرانی عمومی طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان معاملات میں متحد نظر آتی ہیں۔ان کی کوشش ہوتی ہے کہ آئین اور قانون کی حکمرانی سے زیادہ ان کے شخصی اور ذاتی مفادات کو تقویت ملے اور اسی بنیاد پر ایسی پالیسیاں اور قانون سازی کی جاتی ہیں جو ملکی مفاد سے زیادہ ان کے ذاتی مفادات کی ترجمانی کرتی ہیں۔
اس تناظرمیں ایک معاملہ ہمیں پاکستان کی اعلیٰ تعلیم سے بھی جڑا ہوا نظر آتاہے۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس بات پر متحد ہیں کہ انھوں نے اعلیٰ تعلیم کے تناظر میں بھی عدم مرکزیت کے بجائے مرکزیت پر مبنی سوچ اور پالیسی کو آگے بڑھانا ہے۔
اگرچہ 18ویں ترمیم کے بعد یہ اصول طے کر دیا گیا تھا کہ اعلیٰ تعلیم بھی صوبائی سطح کا سبجیکٹ ہوگا۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت صوبوں کو اعلیٰ تعلیم کے تناظر میں با اختیار نہیں بنانا چاہتی اور اسی طرح صوبائی حکومتیں اپنے اپنے صوبوں میں اعلیٰ تعلیم کو با اختیار دیکھنا نہیں چاہتی۔یہ ہی وجہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر موجود اعلیٰ تعلیمی کے لیے قائم ادارے کے درمیان عدم توازن اور بداعتمادی کے پہلو دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اہم پہلو یہ ہے کہ بلوچستان اور خبر پختون خواہ میں مختلف وجوہات کی بنیاد پر یہ ہائر ایجوکیشن کمیشن آج تک قائم نہیں ہوسکے اور نہ ہی ان کی کوئی جوابدہی ہوسکی۔پنجاب اور سندھ میں جہاں یہ کمیشن بنے وہاںاسے صوبائی حکومتوں نے اپنے کنٹرول میں رکھا اور بیوروکریسی کی مدد سے اس نظام کو چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
بنیادی طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہائر ایجوکیشن سے جڑے اداروں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہیں اور ان کی خود مختاری کو ہر سطح پر چیلنج کیا جاتابھی کیا جاتا ہے۔اسی بنیاد پر ہر سطح پر ہمیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سیاسی عملی طور پر ہائر ایجوکیشن سے جڑے معاملات میں میرٹ سے زیادہ سیاسی اقرباپروری کے پہلوؤں کا سامنے آنا ہے، جو منفی عمل ہے۔یہ مسئلہ کسی ایک وفاقی یا صوبائی حکومتوں کا نہیں بلکہ یہ مجموعی سیاسی بحران ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں۔
آج کل یہ بحث بھی کافی شدت سے اٹھائی جا رہی ہے کہ جامعات کے معاملات کو چلانے کے لیے ہمیںسرکاری افسروں میں سے کچھ لوگوں کو جامعات کا سربراہ بنانا چاہیے۔اسی تناظر میں سندھ حکومت نے ایک قانون منظور کیا ہے جس کے بعد ماہر تعلیم کے ساتھ ساتھ بیوروکریٹس کو بھی جامعات کا وائس چانسلر تعینات کرنے کی اجازت ہوگی۔
اس قانون میں سندھ حکومت نے پی ایچ ڈی کی شرط کو حذف کر دیا ہے حالانکہ اساتذہ کی بھرتی کے لیے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی شرط لازمی ہے مگر جامعات کے سربراہ کے لیے اس شرط کو ختم کیا جارہا ہے ۔ سندھ حکومت کے بعد دیگر صوبوں میں ایسی قانون سازی کرنے کی کوشش ہوگی کہ نان پی ایچ ڈی کو بطور وائس چانسلرز لایا جائے۔
اہم بات یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر کنٹرول میں لانے کے لیے ساری حکومتیں متحد بھی نظر آتی ہیں ۔اسی طرح ہم اگر دیکھیں توصوبائی سطح پروزیر اعلیٰ اور گورنر کے درمیان بھی جامعات کے تناظر میں مختلف قسم کے مسائل دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ وائس چانسلرز کی تقرری کے معاملات میں تاخیری مسائل نے ان کی شفافیت کو چیلنج بھی کیا ہے۔
وفاقی اور صوبائی سطح پر اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت ان میں کٹوتی کی جا رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ آپ جامعات کی سطح پر کیا سیاسی ،انتظامی اور مالی سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور اس سرمایہ کاری کی بنیاد پر ہم کیا بڑے نتائج کی توقع کرتے ہیں۔جامعات کی سطح پر موجود سنڈیکیٹ میں بھی دو ارکان اسمبلی کی شمولیت بھی سیاسی مداخلت کی ایک واضح شکل ہے۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد جس طرح سے صوبائی حکومتوں کو اپنے صوبائی معاملات میں اعلیٰ تعلیم سے لے کر تمام شعبوں میںشفافیت کو پیدا کرنا چاہیے تھا مگر وہ ایسا نہیں کر سکے۔اس لیے اٹھارویں ترمیم کی اہمیت کم ہو رہی ہے اور لگتا ایسا ہے اٹھارویں ترمیم کو بھی صوبائی حکومتیں اپنے مفادات کے لیے ایک بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔صوبائی حکومتوں کا مقصد اپنی اجارہ داری کو قائم کرنا ہے۔
دوسری طرف یونیورسٹیز کے اساتذہ میں بھی اپنے مسائل کے حوالے سے کافی بے چینی پائی جاتی ہے۔ ان کا احتجاج ریسرچر کو ملنے والے 25 فیصد انکم ٹیکس چھوٹ کے خاتمے،ایل پی آر، نئے پنشنررولز کے خلاف،لیو انکیشمنٹ کی بحالی ،رول 17-Aکی بحالی،ٹیکس ریبیٹ اور دیگر الاؤنسز کے حوالے سے ہے۔
اسی طرح جامعات کی خود مختاری سمیت ان کو مالی طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے زیادہ وسائل ملنے چاہیے کیونکہ مسئلہ محض جامعات کا نہیں ہے بلکہ یہ طلبہ و طالبات پر مستقبل کے تناظر میں ایک بڑی سرمایہ کاری ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سامنے لانے کا سبب بنے گی۔
اصولی طور پر اس وقت اہم مسلہ جامعات اور اعلیٰ تعلیم کی خود مختاری ہے۔کیونکہ جب تک ہم اعلیٰ تعلیم سے جڑے معاملات میں اس کی خود مختاری کے اصول کو قبول نہیں کریں اور اس پر بڑی سیاسی،انتظامی اور مالی سرمایہ کاری نہیں کریں گے، ہم اس میدان میں کچھ بڑا نہیں کرسکیں گے۔
ہمیں دنیا کے جدید نظام میں دیکھنا ہوگا کہ انھوں نے اعلیٰ تعلیم کے کیا معیارات قائم کیے ہیں اور کس طرح سے اپنے ملکوں میں جامعات کی خود مختاری کو ممکن بنا کر ان میں شفافیت پیدا کی ہیں ۔
یہ ہی وجہ ہے ان ممالک کی جامعات کی درجہ بندی اوپر جارہی ہے اور مسلسل پیچھے کی طرف جارہے ہیں۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اعلیٰ تعلیم ، تحقیق اور تعلیمی معیارات کی بہتری اور اچھے طالب علم یا اساتذہ کو پیدا کرنا اور اس نظام میں بہتری لانا جامعات کی خود مختاری سے ہی جڑا ایک اہم نقطہ ہے۔جب تک ریاستی اور حکومتی ترجیحات میں تعلیم کے نظام کی خودمختاری نہیں ہوگی،ہم پیچھے ہی رہیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وفاقی اور صوبائی صوبائی حکومتیں صوبائی حکومتوں ہائر ایجوکیشن کی خود مختاری کے تناظر میں معاملات میں سرمایہ کاری جامعات کی سے زیادہ بنیاد پر تعلیم کے یہ ہے کہ نہیں کر کے بعد اور اس رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
اس صوبے میں کسی قسم کے اپریشن کی اجازت نہیں دیں گے
پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 24 جولائی2025ء) وزیر اعلٰی خیبرپختونخواہ علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ اس صوبے میں کسی قسم کے اپریشن کی اجازت نہیں دیں گے، اسحاق ڈار اور محسن نقوی میرے صوبے کی بات نہیں کرسکتے، محسن نقوی آپ کو بہت پیارا ہوگا لیکن وہ میرے صوبے کو نہ وہ جانتا ہے نہ کچھ کر سکتا ہے۔ تفصیلات کےمطابق جمعرات کے روز پشاورمیں وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی میزبانی میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی، صوبائی کابینہ اراکین اور ممبران صوبائی اسمبلی کے علاوہ سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی،جمعیت علمائے اسلام (س)، پاکستان مسلم لیگ(ن)، پاکستان تحریک انصاف اور قومی وطن پارٹی شامل ہیں۔ شراکاء کو صوبے امن و امان کی موجودہ صورتحال امن و امان کے لئے صوبائی حکومت کی کوششوں اور اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔(جاری ہے)
کانفرنس کے اختتام پر مشرکہ لائحہ عمل پیش کیا گیا۔اعلامیہ کے مطابق صوبے میں دیرپا امن کی بحالی کے لئے جامع اور مربوط اقدامات فوری طور پر کیے جائیں۔ خوارج کے خاتمے کے لیے خفیہ معلومات کی بنیاد پر ہدفی کارروائیاں عمل میں لائی جائیں۔
دیرپا امن کی کاوش اور دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے تمام سیاسی جماعتیں ، مشران، عوام ، حکومت خیبر پختونخوا ، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بلاتفریق بھر پور کاروائی کا اعادہ کرتے ہیں۔ صوبے کو عسکریت پسندی کے چنگل سے نجات دلائی جائے گی اور امن بحال کیا جائے گا، جو علاقے میں خوشحالی اور پائیدار ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوگا۔تمام سیاسی جماعتیں اور عوامی نمائندے ضلعی سطح پر انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مسلسل اور بھر پور تعاون کا اعادہ کریں۔