خیبر پختونخوا کے عوام نے افغان مہاجرین کے فوری انخلا کو خوش آئند قرار دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
افغان مہاجرین کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں اور حکومت نے ان کا بھرپور خیال رکھا مگر حالیہ دہشتگردی میں افغان مہاجرین ملوث پائے جا رہے ہیں۔
حالیہ دہشتگردی کے پیش نظر حکومت پاکستان نے غیر قانونی غیر ملکیوں اور افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز کے انخلا کا فیصلہ کیا، افغان باشندوں کو 31 مارچ تک پاکستان چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔
خیبر پختونخوا کی عوام نے اس حوالے سے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ صوبے کے رہائشی افغان مہاجرین کو صوبے اور ملک پر بوجھ سمجھتے ہیں اور ان کے فوری انخلا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے خیبر پختونخوا کے عوام کا کہنا تھا کہ افغان باشندے دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں جہاں حکومت اور عوام ان کا بھرپور خیال رکھتے ہیں، افغان باشندوں کو ہر صوبے میں پناہ دی گئی اور ان کا بھرپور خیال رکھا گیا۔
مزید پڑھیں؛ حکومت کا افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو 31 مارچ تک ملک چھوڑنے کا حکم
شہریوں کا کہنا ہے کہ ملکک میں جاری بدامنی، دہشت گردی اور چوری کے واقعات میں زیادہ تر دخل اندازی افغانستان سے ہو رہی ہے، لہٰذا حکومت پاکستان کا افغان مہاجرین کو نکالنے کا بہترین فیصلہ ہے۔ پاکستان میں ہونے والے بیشتر دہشت گردی کے واقعات افغان مہاجرین ملوث پائے گئے ہیں اور یہ بہترین فیصلہ ہے کہ انہیں 31 مارچ تک ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔
انکا کہنا ہے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ اس کے بعد پاکستان میں امن و امان برقرار رہے گا اور دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئے گی، افغان مہاجرین ہمارے بھائی ہیں مگر دہشت گردی کے تانے بانے افغانستان سے جڑتے ہیں۔ حالیہ خبروں کے مطابق کئی واقعات کا تعلق افغانستان سے جڑ رہا ہے۔
شہریوں کے مطابق یہ افسوسناک ہے کہ ہم ان کی مہمان نوازی کر رہے ہیں جبکہ وہ نہتے پاکستانیوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنا رہے ہیں، افغان مہاجرین کا انخلا بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا، ہماری حکومت سے گزارش ہے کہ افغان مہاجرین کے انخلا کو یقینی بنایا جائے۔
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی کہ انخلا کے دوران کسی سے بدسلوکی نہیں کی جائے گی۔ حکومتِ پاکستان کا یہ بھی کہنا تھا کہ واپس جانے والوں کے لیے خواراک اور صحت کی سہولیات کے انتظامات مکمل کر لیے ہیں، غیر ملکیوں کو پاکستان میں رہنے کے لیے قانونی تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افغان مہاجرین پاکستان میں رہے ہیں گردی کے
پڑھیں:
کے پی سے فوج کا انخلا
تحریک انصاف کی تنظیمی کمیٹی نے ایک متفقہ قرارداد پا سکی ہے جس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں آئین کے آرٹیکل 245کے تحت جو فوج تعینات کی گئی ہے، اس نوٹیفکیشن کو پندرہ دن کے اندر واپس لیا جائے۔ ویسے تو شاید تحریک انصاف کی کے پی کی تنظیمی کمیٹی کو یہ علم نہیں کہ وفاق براہ راست کسی صوبے میں فوج کی تعیناتی کے احکامات نہیں دے سکتا۔ پہلے صوبائی حکومت سفارش کرتی ہے، پھر وفاق آٗئین کے آرٹیکل 245کے تحت کسی جگہ فوج تعینات کرتا ہے۔
لہٰذا خیبرپختونخوا میں کہیں بھی فوج تعینات ہے تو وہ صوبائی حکومت کی مرضی سے تعینات ہے۔پی ٹی آئی یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ ہماری حکومت سے پہلے حکومت نے فوج تعینات کر دی تھی کیونکہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی مسلسل تیسری حکومت ہے۔ تحریک انصاف تنظیمی کمیٹی کو اپنی اس قرارداد میں یہ واضح کرنا چاہیے تھا کہ ہماری حکومت کی درخواست پر تعینات فوج کو ہماری ہی حکومت واپس بھیجے۔
کے پی میں دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے سویلین اینڈ آرمڈ آرڈیننس کے تحت فوج کو خصوصی اختیارات دیے گئے تھے۔ اس آرڈیننس کو قانون کا درجہ تحریک انصاف کی کے پی حکومت نے دیا تھا۔ اس کا دائرہ اختیار پورے کے پی تک بانی تحریک انصاف کے دور وزات عظمیٰ میں کیا تھا۔
پشاور ہا ئی کورٹ نے اس قانون کو ایک درخواست میں ختم کر دیا تھا۔ لیکن بانی تحریک انصاف کی ہدایت پر خیبرپختونخوا حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کیا۔ آج کے پی میں دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے پاک فوج کے پاس جو اضافی اختیارات ہیں، وہ تحریک انصاف کی حکومت کے پاس کر دہ قانون اور اس کی حکومت کے حاصل کردہ حکم امتناعی کی وجہ سے ہیں۔
اس میںن لیگ‘ پیپلزپارٹی یا کسی اور سیاسی جماعت کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اب دیکھنا یہ بھی ہے کہ جب تحریک انصاف کی تنظیمی کمیٹی اپنی ہی حکومت سے فوج کی تعیناتی ختم کرنے کا کہہ رہی ہے تو وہ کس کا کام کر رہی ہے۔ کیا فوجی انخلاء کا مطالبہ، پی ٹی آئی کا بیانیہ یا دشمن کی زبان نہیں؟کیا دہشت گرد یہ نہیں چاہتے؟ کیا پاکستان کے دشمن یہ نہیں چاہتے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ تحریک انصاف کی تنظیمی کمیٹی کا یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صوبے میں دہشت گردی عروج پر ہے اور پاک فوج روزانہ 190 سے زائد انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز میں مصروف ہے اور روزانہ کی بنیادوں پر قربانیاں دے رہی ہے۔ کیافوجی انخلاء کا مطالبہ دراصل دہشت گردوں کے لیے سہولت کاری کے مترادف نہیں ہے۔ کیا یہ وہی مطالبہ نہیں جو بھارتی پراکسیز اور دشمن طاقتیں استعمال کررہی ہیں چاہے،فتنہ الخوارج ہو، فتنہ الہندوستان یا بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اب پی ٹی آئی بھی اسی بیانیے کو دہرا رہی ہے۔
تیرہ، بنوں، کرم اور پاراچنار جیسے واقعات دراصل 12 سالہ پی ٹی آئی حکومت کی ناقص حکمرانی اور گورننس کے خلاء کا نتیجہ ہیں۔کیا آج امن وامان کی جو صورتحال ہے اس کی ذمے د اری کے پی حکومت کی نہیں ہے؟ ڈی جی آئی ایس پی آر متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان آرمی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خلاف اپنی جانوں کے نذرانے دے رہے ہیں۔ یہ قربانیاں ان پالیسیوں کا نتیجہ ہیں جو 2021 میں دہشت گردوں کی واپسی اور بحالی سے متعلق پی ٹی آئی حکومت نے اختیار کی اور اب گورننس کے یہ خلاء پاک فوج اپنے خون سے پورا کر رہی ہے جو اصل میں صوبائی حکومت کی ذمے داری تھی۔ صوبائی حکومت اپنی ناقص کارکردگی کی ذمے داری اب فوج پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
2022 کی پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا CTD اپنا 96 فیصد بجٹ صرف تنخواہوں پر خرچ کرتا ہے۔صرف 4 فیصد بجٹ آپریشنز کے لیے مختص ہے، جب کہ جدید سازوسامان، تربیت اور انفرااسٹرکچر کی کوئی تیاری نہیں کی گئی۔ خیبر پختونخوا میں CTD کے افسران اور ملازمین کی تعداد ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے، مگر یہ عملہ نااہل، کم تعلیم یافتہ اور ناکافی سہولیات سے لیس ہے۔جب آپریشن کے لیے بجٹ ہی نہیں ہے تو سی ٹی ڈی کیاکام کرے گی۔ صرف بھرتیوں سے تو سی ٹی ڈی کارکردگی بہتر نہیں ہو سکتی۔ آپ کو دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے انھیں بجٹ اور سہولیات بھی دینی ہیں، اس ضمن میں تحریک انصاف کی کے پی حکومت کی کارکردگی صفر ہے۔ اس کے مقابلے میں پنجاب اور سندھ نے اپنی سی ٹی ڈی کی فورس کو کافی مضبوط کیا ہے وسائل اور بجٹ بھی دیے ہیں۔
یہ ایک واضح ثبوت ہے کہ کے پی کی صوبائی حکومت نے انسداد دہشت گردی کے لیے سنجیدگی سے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ فوجی انخلاء کا مطالبہ دراصل پی ٹی آئی کی اپنی کرپشن، نا اہلی خصوصاً 5 اگست کے ناکام احتجاج سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ صوبائی حکومت کا یہ رویہ سیکیورٹی کے حساس ترین معاملات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی خطرناک مثال ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر ضم شدہ اضلاع سے فوج نکالی گئی تو دہشت گرد یقیناً دوبارہ منظم ہو جائیں گے‘ایسی صورت میں نہ صرف قبائلی علاقے بلکہ پورا پاکستان خطرے میں ہوگا۔
پاک فوج وہ خلا پر کر رہی ہے جوصوبائی سول حکومت اپنی نااہلی کے باعث پیدا کر چکی ہے۔ یہ مطالبات اس بیانیے کی واضح نفی کرتے ہیں جو پی ٹی آئی دے رہی ہے، اور ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے مطالبات صرف اندرونی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور دشمن قوتوں کے مقاصد کو تقویت دینے کی ایک کوشش ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ایسے حساس معاملات پر نہ تو سیاست کرنی چاہیے اور نہ ہی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنی چاہیے۔ اگر تحریک انصاف کی اسٹبلشمنٹ سے محاذ آرائی ہے بھی تو اس میںیہ خطرناک کھیل نہیں کھیلنا چاہیے۔
لاء اینڈ آرڈر صوبائی حکومت کا کام ہے مگر ملکی سلامتی کی خاطر پاک فوج وہاں اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہیں اور ہر روز قربانیاں اپنے خون سے دے رہی ہے لیکن اگر صوبائی حکومت اپنی باقی نا اہلیوں کو چھپانے کے لیے یہ انتہائی خطرناک قدم اٹھانا چاہتی ہے تو صوبائی حکومت کے اس فیصلے کے بعد فوج ایک دن بھی وہاں نہیں ٹھہرے گی لیکن فوج کے جانے کے بعد خیبر پختونخوا میں جو کچھ بھی ہوگا اس کی ساری ذمے داری گنڈاپور اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومت پر ہوگی۔ پھر ذمے دار بھی وہی ہوںگے۔