جنگبندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا فلسطینیوں کی نسل کشی میں امریکی شراکت داری کا واضح ثبوت ہے، حماس
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
اپنے ایک جاری بیان میں حماس کا کہنا تھا کہ تمام ممالک و عالمی ادارے صیہونی وزیراعظم پر دباؤ ڈالیں تاكہ جارحیت كا خاتمہ ہو، نسل کشی کا سلسلہ بند ہو اور انسانیت سوز جرائم پر صیہونیوں کو بین الاقوامی فوجداری عدالت میں انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" نے ایک بیان جاری كیا۔ جس میں انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو ناکام بنانے کے لئے امریکہ کی جانب سے ویٹو کے استعمال پر ردعمل ظاہر کیا۔ بیان میں کہا گیا کہ امریکہ کا ویٹو استعمال کرنا، اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ صیہونی رژیم کی جانب سے فلسطینی عوام کے خلاف ہونے والی نسل کشی میں شریک ہے۔ یہ اقدام اسرائیل کو غزہ كی پٹی میں مزید قتل و غارت، بھوک اور وحشیانہ حملے جاری رکھنے کی کھلی اجازت دینے کے مترادف ہے۔ حماس نے ان 10 ممالک کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے یہ قرارداد سلامتی کونسل میں پیش کی۔ انہوں نے ان تمام ممالک و عالمی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ صیہونی وزیراعظم "بنیامین نیتن یاہو" کی حکومت پر دباؤ ڈالیں تاكہ جارحیت كا خاتمہ ہو، نسل کشی کا سلسلہ بند ہو اور انسانیت سوز جرائم پر صیہونیوں کو بین الاقوامی فوجداری عدالت میں انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔
یاد رہے کہ امریکہ نے جمعرات 18 ستمبر 2025ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 10 غیر مستقل ارکان کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کو ویٹو کر دیا۔ یہ قرارداد ڈنمارک کی قیادت میں پیش کی گئی۔ جس میں غزہ میں بلا مشروط و مستقل جنگ بندی سمیت تمام قیدیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 10 غیر مستقل ارکان ہیں۔ اس کے علاوہ 5 مستقل ارکان کے پاس ویٹو پاور ہے۔ جن میں سے 14 نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور امریکہ نے اپنے منفی ووٹ یا دوسرے لفظوں میں اپنے ویٹو کے حق کے ذریعے کونسل کے اجلاس میں اس قرارداد کو منظور ہونے سے روک دیا۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق اس وقت غزہ میں قحط، بھوک اور نسل کشی کا راج ہے لیکن اس کے باوجود وہاں جنگ بندی کے کوئی آثار نہیں۔ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ ادارے IPC کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ویسے تو سارے غزہ میں شدید غربت اور بھوک پائی جاتی ہے تاہم اس کے بعض علاقوں میں باقاعدہ طور پر قحط کی حالت موجود ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سلامتی کونسل اقوام متحدہ قرارداد کو
پڑھیں:
قطر پر حملہ؛ مسلم ملکوں کو بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے،اسحاق ڈار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے قطر پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم ملکوں کو بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔
وزیراعظم، وزرا اور عسکری قیادت کی دوحا آمد کے پس منظر میں نائبِ وزیراعظم و وزیرِ خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے واضح اور مؤقف سے بھرپور پیغام دیا ہے کہ مسلم اُمّت کے سامنے اب محض اظہارِ غم و غصّہ کافی نہیں رہا۔ انہوں نے زور دیا کہ قطر پر یہ حملہ محض ایک ملک کی حدود کی خلاف ورزی نہیں، بلکہ ایک بین الاقوامی اصول، خودمختاری اور امن ثالثی کے عمل پر کھلا وار ہے۔
اسحاق ڈار نے اپنے انٹرویو میں واضح کیا کہ جب بڑے ممالک ثالثی اور امن مذاکرات میں حصہ لے رہے ہوتے ہیں تو ایسے حملے اس عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہیں اور مسلم امت کی حیثیت و وقار کے لیے خطرہ ہیں۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے صومالیہ اور الجزائر کے ساتھ مل کر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں فوری نوعیت کا اجلاس طلب کروایا اور جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کو بھی اس سلسلے میں متحرک کیا گیا، تاکہ عالمی فورمز پر اسرائیلی جارحیت کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔
انہوں نے کہا کہ محض قراردادیں اور بیانات کافی نہیں، اب ایک واضح، عملی لائحۂ عمل درکار ہے ۔ اقتصادی پابندیاں، قانونی چارہ جوئی، سفارتی محاذ پر یکسوئی اور اگر ضرورت پڑی تو علاقائی سیکورٹی کے مجموعی انتظامات تک کے آپشنز زیرِ غور لائے جائیں گے۔
اسحاق ڈار نے پاکستان کی دفاعی استعداد کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ہماری جوہری صلاحیت دفاعی ہے اور کبھی استعمال کا ارادہ نہیں رہا، مگر اگر کسی بھی طرح ہماری خودمختاری یا علاقائی امن کو خطرہ پہنچایا گیا تو ہم ہر ممکن قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ فوجی راستہ آخری انتخاب ہوگا، مگر اگر جارحیت رکنے کا نام نہ لیا تو عملی، مؤثر اور متحدہ جواب بھی لازم ہوگا۔
پاکستانی وزیرِ خارجہ نے نشاندہی کی کہ مسئلہ فلسطین صرف خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ دو ارب مسلمانوں کے سامنے اخلاقی اور سیاسی امتحان ہے۔ اگر مسلم ریاستیں اس مقام پر صرف تقاریر تک محدود رہیں گی تو عوام کی نظروں میں ان کی ساکھ مجروح ہوگی اور فلسطینیوں کی امیدیں پامال ہوں گی۔