سابق سینیٹر مشتاق احمد کے بڑے بھائی کو گھر کے سامنے قتل کردیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
صوابی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 09 مارچ 2025ء ) جماعت اسلامی خیبرپختونخواہ کے سابق امیر اور سابق سینیٹر مشتاق احمد کے بڑے بھائی کو گھر کے سامنے قتل کردیا گیا۔
(جاری ہے)
تفصیلات کے مطابق سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کے بڑے بھائی شکیل احمد ہمسائے کی فائرنگ سے جاں بحق ہوگئے، شکیل احمد کو صوابی کے گاؤں احد خان کلے شیخ جانہ میں ان کے گھر کے سامنے گولیاں مار کر قتل کیا گیا، اس حوالے سے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر صوابی محمد اظہر نے بتایا کہ ملزم نے پہلے والد کا قتل کیا، مقتول شکیل احمد بیچ بچاؤ کیلئے گئے تھے کہ فائرنگ کا نشانہ بن گئے، مبینہ طور پر ملزم نشے کا عادی ہے، دماغی توازن بھی درست نہیں، ملزم کی گرفتاری جلد یقینی بنائی جائے گی۔
جماعت اسلامی خیبرپختونخواہ کے سابق امیر اور سابق سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ بڑے بھائی کو گھر کے سامنے شہید کیا گیا، یہ بدترین درندگی ہے، بڑے بھائی مجھے بہت عزیز تھے، وہ میرے دست و بازو تھے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سابق سینیٹر مشتاق احمد گھر کے سامنے بڑے بھائی
پڑھیں:
سینیٹ الیکشن میں ہمیں تیار پرچیاں دی گئیں: شکیل خان
شکیل خان—فائل فوٹوپی ٹی آئی کے رکنِ خیبر پختونخوا اسمبلی شکیل خان کا کہنا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں ہمیں تیار پرچیاں دی گئیں۔
یہ بھی پڑھیے سینیٹ الیکشن خوش اسلوبی سے ہوئے: بیرسٹر گوہر سینیٹ انتخاب میں ن لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی کا کردار شرمناک ہے: نعیم الرحمٰن بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر شکیل خان کیخلاف انکوائری کی گئی، گڈ گورننس کمیٹی’جیو نیوز‘ سے گفتگو میں پی ٹی آئی رکنِ اسمبلی شکیل خان کا کہنا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں تیار ووٹ ملا جو بیلٹ بکس میں جا کر ڈالا۔
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اپوزیشن لیڈر نے بتایا کہ دیگر ووٹرز کو بھی تیار بیلٹ پیرز دیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں سینیٹ انتخابات میں بیلٹ پیپرز باہر آنے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔
ذرائع کے مطابق کسی بھی رکن نے اپنا ووٹ خود پول نہیں کیا، پہلا ووٹ ڈالنے والے رکن اسمبلی نے خالی پرچی بیلٹ بکس میں ڈالی اور اپنا بیلٹ پیپر باہر لا کر وہاں موجود حکومت اور اپوزیشن کے رہنماؤں کو دیا جنھوں نے ان پر نشان اور نمبر لگائے۔ بیلٹ پیپر دوسرے رکن کو دیا گیا جس نےپہلے رکن کاووٹ ڈالا اور اپنا بیلٹ پیر باہر لایا۔
یہ سلسلہ پھر سارا دن چلتا رہا، کسی رکن نے اپنا ووٹ خود نہیں ڈالا۔ تمام عمل میں حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق تھا۔ وزیراعلیٰ نے سب سے آخر میں اپنا ووٹ ڈالا۔