UrduPoint:
2025-07-26@13:55:21 GMT

پاکستان کا لسانی ورثہ: 74 زبانوں کا ادبی عجائب گھر

اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT

پاکستان کا لسانی ورثہ: 74 زبانوں کا ادبی عجائب گھر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 مارچ 2025ء) اسلام آباد میں قائم کیے جانے والے ’’پاکستانی زبانوں کے ادبی عجائب گھر‘‘ کو 74 زبانوں کے تحفظ اور ان کے ثقافتی ورثے کے فروغ کے لیے وقف کیا گیا ہے۔ پاکستان کا لسانی تنوع اس کی ثقافتی شناخت کی بنیاد ہے مگر عالمگیریت اور آبادیاتی تبدیلیوں کے باعث یہاں کئی زبانیں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

پاکستان کا پہلا لسانی میوزیم

یہ ادبی عجائب گھر پاکستان میں زبانوں کے تحفظ اور فروغ کی پہلی کاوش ہے، جہاں 74 زبانوں کی بنیادی معلومات، رسم الخط اور قدیم مخطوطات محفوظ کیے گئے ہیں۔ منتظمین کے مطابق مستقبل میں سمعی و بصری مواد اور انٹرایکٹیو سہولیات شامل کی جائیں گی تاکہ نوجوان نسل ان زبانوں کے لہجوں، موسیقی اور لوک کہانیوں سے آشنا ہو سکے۔

(جاری ہے)

اکادمی ادبیات پاکستان کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس ادبی عجائب گھر میں نایاب اور معدومیت کے خطرات سے دوچار زبانوں کو شامل کیا گیا ہے، جن میں چترال کی دو زبانوں پر خصوصی دستاویزی فلمیں بھی تیار کی گئی ہیں۔ ان کے مطابق یہ میوزیم قومی شناخت کے استحکام میں معاون ثابت ہو گا، تاہم اس کے عملی اثرات کو مؤثر بنانے کے لیے مزید کام کی ضرورت ہے۔

وہ کہتی ہیں، ’’یہ ایک منفرد پروجیکٹ ہے، جو ملک کے ثقافتی ورثے اور لسانی تنوع کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ تنوع ہماری طاقت ہے اور صدیوں پرانی تہذیب و فکری ارتقا کا ثبوت ہے۔‘‘

ادبی شخصیت ڈاکٹر سعدیہ کمال نے بتایا کہ زبانیں اس وقت معدوم ہوتی ہیں، جب انہیں بولنے والا کوئی نہ رہے اور پاکستان میں اس وقت کئی زبانیں اس خطرے سے دوچار ہیں۔

ان کے بقول زبانوں کے تحفظ کی یہ کاوش نہ صرف ثقافتی ورثے کے تحفظ بلکہ آئندہ نسلوں تک اس کی منتقلی کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل کا سنگم

وفاقی سیکرٹری حسن ناصر جامی نے پاکستانی زبانوں کے ادبی عجائب گھر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اس تہذیبی و ثقافتی ورثے کو ماضی، حال اور مستقبل کا سنگم قرار دیا۔ حسن ناصر کا کہنا تھا کہ ہر زبان قابلِ احترام ہے اور اس کا تحفظ ہماری قومی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے مادری زبانوں کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ حکومت کا قائم کردہ یہ عجائب گھر ملک کے لسانی و ثقافتی ورثے کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرے گا۔

کیا پاکستان میں نئی زبانیں دریافت کی منتظر ہیں؟

یونیسکو کے عالمی لسانی اٹلس کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 8,324 زبانیں ریکارڈ کی گئی ہیں، جن میں بولی جانے والی اور اشاروں کی زبانیں شامل ہیں۔

ان میں سے تقریباً 7,000 زبانیں اب بھی بولی جاتی ہیں۔ تاہم دنیا بھر میں زبانوں کی تعداد وقت کے ساتھ گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 70 سے زائد زبانیں بولی جاتی تھیں لیکن اب ان میں سے تقریباً 65 زبانیں باقی رہ گئی ہیں۔ زبانوں کا ایک حسین ورثہ

ڈاکٹر نجیبہ کے مطابق پاکستان میں بولی جانے والی مختلف زبانیں اس کے غیرمعمولی لسانی تنوع کو ظاہر کرتی ہیں۔

ان میں کئی قدیم زبانیں شامل ہیں، جو صدیوں سے مقامی ثقافت اور تہذیب سے جڑی ہوئی ہیں۔ وقت کے ساتھ ان زبانوں میں تبدیلیاں آتی ہیں مگر ان کی بنیادیں خطے کی قدیم روایات میں مضبوطی سے پیوست رہتی ہیں۔

پاکستان ایک کثیر لسانی ملک ہے، جہاں 70 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ 2023 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں پنجابی، پشتو، سندھی، سرائیکی، اردو، بلوچی، ہندکو، براہوی، میواتی اور کوہستانی شامل ہیں۔

تاہم گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے اعداد و شمار شامل نہ ہونے کے باعث شینا اور بلتی زبانوں کی درست آبادی معلوم نہیں۔ تقریباً 60 زبانیں ایسی ہیں، جن کے بولنے والوں کی تعداد 10 لاکھ سے کم ہے۔ اشاراتی زبان بھی قومی ورثہ!

ڈاکٹر سعدیہ کمال کے مطابق پاکستان جیسے متنوع ملک میں تمام زبانوں کا تحفظ ضروری ہے، خاص طور پر خیبر پختونخوا کی وہ زبانیں، جو معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

انہوں نے اشاراتی زبان کی شمولیت کو بھی اہم قرار دیا، جو وسیع سطح پر ابلاغ کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ان کے مطابق کچھ زبانیں بغیر تحریری رسم الخط کے تھیں لیکن اکادمی ادبیات نے انہیں محفوظ کرنے کا اہتمام کیا، جو نہ صرف زبانوں بلکہ ثقافتی ورثے اور قومی شناخت کے تحفظ کی ایک بڑی کوشش ہے۔ ماضی کی میراث، مستقبل کا چیلنج

ڈاکٹر نجیبہ کے مطابق گندھارا اور وادی سندھ کی تہذیبوں کا مرکز یہ خطہ تاریخی و ثقافتی لحاظ سے انتہائی اہم ہے۔

قدیم زبانوں کا تحفظ تاریخی شناخت کے لیے ضروری ہے، تاہم جدید مواصلاتی ترقی سے ثقافتوں پر اثرات بڑھ رہے ہیں۔ تاریخ میں طاقتور اقوام کی زبانیں حاوی رہی ہیں جبکہ کمزور زبانیں پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔ یہی رجحان آج بھی موجود ہے، جہاں طاقتور طبقات کی زبانوں کو فوقیت حاصل ہونے سے گہرے سماجی و ثقافتی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق دشوار گزار علاقوں تک محدود ہونے کے باعث کئی پاکستانی زبانیں زوال کا شکار ہیں۔

جدید مواصلاتی ترقی اور بڑھتے روابط نے ان پر دیگر زبانوں کے اثرات مرتب کیے، جس سے ان کا تحفظ مشکل ہو گیا۔ نئی نسل ان زبانوں سے ناواقف ہوتی جا رہی ہے اور اب صرف معمر افراد ہی انہیں روانی سے بول سکتے ہیں۔ زبانوں کی بقا کا راستہ

ڈاکٹر سعدیہ کمال کے مطابق یہ ایک اہم علمی و ادبی خدمت ہے مگر اس پر مزید کام کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زبانوں کو صرف تحریری نہیں بلکہ صوتی اور ڈیجیٹل شکل میں بھی محفوظ کرنا چاہیے تاکہ یہ ایک جامع معلوماتی ذخیرہ بن سکے۔ یہ منصوبہ پاکستان کی لسانی و ثقافتی تاریخ کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرے گا۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ادبی عجائب گھر ثقافتی ورثے پاکستان میں زبانوں کا زبانوں کی زبانوں کے زبانوں کو سے دوچار کے مطابق کے تحفظ کا تحفظ ہے اور کے لیے

پڑھیں:

تحریک تحفظ آئین پاکستان اور پی ٹی آئی کا ملک میں آئین و قانون کی بحالی، منصفانہ انتخابات کیلئے نئی سیاسی تحریک شروع کرنے کااعلان

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔24جولائی 2025) تحریک تحفظ آئین پاکستان اور پی ٹی آئی نے ملک میں آئین و قانون کی بحالی،منصفانہ انتخابات اورعام آدمی کے حقوق کے تحفظ کیلئے نئی سیاسی تحریک شروع کرنے کااعلان کردیا، ہم ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن، آئین کی بالادستی، اور عام شہری کے بنیادی حقوق کی حفاظت کیلئے پرعزم ہیں،اسلام آبادمیں محمود خان اچکزئی نے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ یہ اتحاد کسی کھیل تماشے کیلئے نہیں بلکہ سنجیدہ قومی جدوجہد کیلئے بنایا جا رہا ہے۔

ملک کی تمام اپوزیشن جماعتیں ایک بڑے اتحاد کی طرف بڑھ رہی ہیں۔نہ ہم گالی دے رہے اور نہ ڈنڈا مار رہے ہیں۔ ہم آئین کی بات کر رہے ہیں۔محمود خان اچکزئی نے اعلان کیا کہ 31 جولائی اور 1 اگست کو ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائی جا رہی ہے جس میں ملک کی تمام جماعتوں کو دعوت دی جائے گی تاکہ ملکی حالات پر سنجیدہ غور کیا جا سکے۔

(جاری ہے)

اگر ابھی مسائل کو حل نہ کیا گیا تو صورتحال مزید کشیدہ ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ اتحاد کچھ لوگوں کو ہضم نہیں ہو رہا لیکن ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ جس جماعت نے سب سے زیادہ ووٹ لئے اسی کو انصاف سے محروم رکھا جا رہا ہے اور بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت بھی صرف مخصوص افراد کو دی جا رہی ہے جب کہ ان کی بہنوں کو بھی ان سے ملنے نہیں دیا جا رہا۔محمود اچکزئی نے کہا کہ ہم کسی فوجی افسر کے مخالف نہیں لیکن ہر شخص کو آئینی دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔

اس موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ تحریک صرف تحریک انصاف کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری صفوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل ہیں اور یہ تحریک عام آدمی کے حقوق کے تحفظ کیلئے ہے۔سلمان اکرم راجہ نے اعلان کیا کہ 5 اگست کو ملک گیر احتجاج کیا جائے گا تاکہ قوم کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ آئین، انصاف اور جمہوریت کیلئے جدوجہد جاری رہے گی۔

انہوں نے کہاکہ یہ قوم کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے، اور ہم یہ مذاق مزید برداشت نہیں کریں گے۔ تحریک انصاف اس وقت ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے لیکن صرف اس جماعت سے تعلق کی بنیاد پر اس کے رہنماؤں کو دس دس سال کی سزائیں دی جا رہی ہیں جو انصاف کے تقاضوں کے سراسر خلاف ہے۔ ان کایہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں آزادیِ اظہار پر قدغن ہے۔لوگ آزادی سے نہ بول سکتے ہیں نہ چل سکتے ہیں اور بانی پی ٹی آئی گزشتہ دو سال سے قید میں ہیں۔ فئیر ٹرائل ہر پاکستانی کا آئینی حق ہے اور بانی پی ٹی آئی سمیت تمام قیدیوں کو یہ سہولت مہیا کی جائے۔ 

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم شہباز شریف سے وفاقی وزیر قومی ورثہ و ثقافت اورنگزیب کھچی کی ملاقات(تصحیح شدہ)
  • وزیراعظم شہباز شریف سے وفاقی وزیر جہانزیب کھچی کی ملاقات
  • گندھارا تہذیب کا دوسرا بڑا عجائب گھر سوات میں
  • تحفظ آئین پاکستان کی قیادت کی اہم پریس کانفرنس
  • سینیٹ میں مخبر کے تحفظ اور نگرانی کیلئے کمیشن کے قیام کا بل منظور
  • تحریک تحفظ آئین پاکستان اور پی ٹی آئی کا ملک میں آئین و قانون کی بحالی، منصفانہ انتخابات کیلئے نئی سیاسی تحریک شروع کرنے کااعلان
  • خوراکی تحفظ کے فروغ کے لیے ایتھوپیا اور پاکستان میں تعاون کا آغاز
  • نیپال کے ساتھ تعلقات مشترکہ تاریخ، ثقافتی رشتوں پر مبنی: یوسف رضا گیلانی
  • آئین کے آرٹیکل 20 اور قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر کے مطابق اقلیتوں کے تحفظ کیلئے کوشاں ہے، نسرین جلیل
  • دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی 10 زبانوں میں اردو کا نمبر کونسا ہے؟