لاہور: میو ہسپتال کا تنازع شدت اختیار کرگیا، وزیر صحت اور سیکریٹری ادویہ کی قلت سے آگاہ تھے
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حال ہی میں میو ہسپتال لاہور کے دورے کے دوران مریضوں کی جانب سے ادویہ کی قلت کی شکایات پر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود کے بارے میں دیے گئے متنازع بیان نے ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا، جب یہ بات سامنے آئی کہ ایم ایس پہلے ہی ادارے کے 3.5 ارب روپے کے بقایاجات کے باعث استعفیٰ دے چکے ہیں جبکہ وزیر صحت اور سیکریٹری مبینہ طور پر اس معاملے سے بخوبی واقف تھے۔
نجی اخبار میں شائع خبر کے مطابق طبی برادری نے وزیراعلیٰ کے طرز پر شدید رد عمل کا اظہار کیا اور وزیراعلیٰ کے اقدام کو پیشے کے تقدس کے لیے ایک دھچکا قرار دیا۔ اس واقعے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے طبی برادری نے کہا کہ اس سے پنجاب کے وزیر صحت اور سیکریٹری کی نااہلی کھل کر سامنے آ گئی ہے جنہوں نے گزشتہ دو سال سے میو ہسپتال کو درپیش مالی بحران کے بارے میں حکومت اور عوام کو گمراہ کیا۔
ذرائع کے مطابق وزیر صحت پنجاب خواجہ سلمان رفیق نے گزشتہ چند ماہ کے دوران ہسپتال کے تقریباً پانچ دورے کیے اور ہر دورے میں ادارےکی انتظامیہ نے انہیں فنڈز کی شدید قلت اور مریضوں کی شکایات سے آگاہ کیا۔
اسی عرصے کے دوران سیکرٹری صحت پنجاب عظمت محمود بھی مبینہ طور پر وزیر صحت کے ہمراہ دو مرتبہ ہسپتال آئے اور فنڈز کی کمی کا معاملہ ان کے سامنے رکھا گیا، ایم ایس کی جانب سے خدشات کا اظہار کیا گیا کہ وینڈرز نے اربوں روپے کے بقایاجات کے باعث ادویات کی فراہمی بند کردی ہے اور ہر گزرتے مہینے کے ساتھ صورتحال خراب ہوتی جارہی ہے۔
معاملے سےآگاہ ایک عہدیدار نے بتایا کہ میو ہسپتال کی انتظامیہ نے ان پر فنڈز جاری کرنے کے لیے دیا تھا، انہوں نے کہا کہ بار بار درخواستوں پر بھی جب کوئی عمل نہیں ہوا تو پروفیسر فیصل مسعود نے ذاتی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے 2 فروری کو استعفیٰ دے دیا۔
پروفیسر فیصل مسعود کے 12 فروری کے استعفے میں کہا گیا ہے کہ ’مودبانہ عرض ہے کہ ذاتی وجوہات کی بنا پر میں میو ہسپتال لاہور کے چیف آپریٹنگ آفیسر اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کا اضافی چارج جاری رکھنے سے قاصر ہوں، اس لیے مجھے فوری طور پر اس ذمہ داری سے فارغ کیا جائے‘۔
سیکریٹری صحت کی دانستہ غفلت کے بارے میں بات کرتے ہوئے عہدیدار نے کہا کہ سیکریٹری صحت عظمت محمود نے وزیراعلیٰ کے طے شدہ دورے سے ایک روز قبل پروفیسر مسعود کو ناراضی کا خط لکھا تھا حالانکہ وہ حقائق سے آگاہ تھے کہ وہ چار ہفتے قبل ہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔
عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ خط تیار کرنے کا مقصد صرف وزیر اعلیٰ پنجاب کی توجہ ہٹانا اور ان کے محکمے کی غفلت کا سارا بوجھ اسپتال انتظامیہ پر ڈالنا تھا کیونکہ عظمت محمود کو اگلے دن وزیراعلیٰ کے اسپتال کے متوقع دورے کا علم تھا۔
محکمہ صحت کی جانب سے 5 مارچ کو جاری کیے گئے ناپسندیدگی کے خط میں کہا گیا ہے کہ ’مجھے ہدایت کی گئی ہے کہ میو ہسپتال لاہور کے شعبہ ہنگامی حالت میں غیر موثر پروٹوکول پر عمل کرنے پر مجاز اتھارٹی کی جانب سے شدید عدم اطمینان کا اظہار کیا جائے‘۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ضروری ادویات کی مسلسل عدم دستیابی انتہائی تشویشناک ہے جس کی وجہ سے شدید بیمار مریضوں کو بروقت اور موثر دیکھ بھال فراہم کرنے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
عہدیدار نے کہا کہ ایک بیانیہ تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ مذکورہ بالا دو خطوط سکریٹری صحت اور وزیر صحت پر ذمہ داری عائد کرنے کے لیے حقیقی تصویر بیان کر رہے تھے جو ہسپتال کی اصل صورتحال سے آگاہ تھے۔
وزیراعلیٰ کے اسپتال کے دورے کے بعد طبی برادری نے اس پر سخت رد عمل کا اظہار کیا اور سینئر اساتذہ کی گرفتاری کی دھمکیوں کو ’صحت کے مرتے ہوئے شعبے کے تابوت میں آخری کیل‘ قرار دیا۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے عہدیدار ڈاکٹر ملک شاہد شوکت نے کہا کہ یہ واقعہ ڈاکٹر برادری کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے اور صحت کے شعبے میں گورننس ماڈل پر ایک داغ ہے۔
پروفیسر شوکت نے کہا کہ میڈیکل اساتذہ کی توہین اور وزیراعلیٰ پنجاب کے سامنے دیگر سینئر پروفیسرز کی خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحت کا پیشہ بدترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔
یہ کارروائی توقعات سے بالاتر تھی کیونکہ حکومت نے میو ہسپتال کی 3.
ڈاکٹر شوکت نے کہا کہ اہم اسامیوں پر من پسند افسران کی تعیناتی اور صحت کے شعبے میں بدترین قسم کی نجکاری کی وجہ سے صحت کے دو محکمے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔
ینگ کنسلٹنٹس ایسوسی ایشن آف پاکستان (وائی سی اے) نے وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے میو ہسپتال لاہور کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) کی بے عزتی کی مذمت کی ہے۔
ایسوسی ایشن نے الزام عائد کیا ہے کہ ادویات کی قلت پنجاب حکومت کی جانب سے اسپتال کو فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے ہے، ایسوسی ایشن نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ واقعہ مزید برین ڈرین کا سبب بنے گا۔
وائی سی اے کے چیئرمین ڈاکٹر اسفندیار خان اور صدر ڈاکٹر حامد مختار بٹ کی جانب سے جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پروفیسر فیصل مسعود کو ہٹانا نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ ایک طبی پیشہ ور کی توہین بھی ہے۔
پروفیسر فیصل مسعود ایک ممتاز ماہر تعلیم اور آرتھوپیڈک سرجن ہیں جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں آرتھوپیڈک سرجری کے شعبے کے سربراہ ہیں، آرتھوپیڈک سرجنوں کی تعلیم میں ان کی گرانقدر خدمات اور مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے ان کی غیر متزلزل لگن نے انہیں طبی برادری میں بے پناہ احترام اور تعریف دلائی ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر اسفندیار خان نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنی ناکامی پر ایک ہیلتھ پروفیشنل کے ساتھ بدسلوکی کی۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے ادویہ اور دیگر سہولیات کی قلت کا مسئلہ حل نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ پروفیسر فیصل مسعود وزیراعلیٰ کو جواب دے سکتے تھے لیکن انہوں نے صرف ایک خاتون اور اپنی پیشہ ورانہ دیانت داری کا احترام کیا، انہوں نے متنبہ کیا کہ یہ واقعہ پاکستان سے مزید برین ڈرین کا باعث بن سکتا ہے۔
Post Views: 1ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پروفیسر فیصل مسعود کا اظہار کیا ایسوسی ایشن کی جانب سے گیا ہے کہ نے کہا کہ انہوں نے صحت اور سے آگاہ صحت کے کے لیے کی قلت
پڑھیں:
پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: جماعتِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی، اگر جماعت اسلامی اپنے بیانیے کو طالبان حکومت کے ساتھ ہم آہنگ کرے تو اس سے فکری اور نظریاتی سطح پر ضرور فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔
جسارت کے اجتماعِ عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ طالبان کا پہلا دورِ حکومت 1996ء سے 2001ء اور دوسرا دور 2021ء سے اب تک جاری ہے، پہلے دور میں طالبان کی جماعتِ اسلامی کے ساتھ سخت مخالفت تھی لیکن اب ان کے رویّے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے مگر اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ امیرالمؤمنین ملا ہبت اللہ اور ان کے قریبی حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں موجود ہیں، جس کی مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی دو روزہ بندش کو قرار دیا، ستمبر کے آخر میں طالبان حکومت نے انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہےمگر دو دن بعد خود ہی فیصلہ واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے، اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے، گزشتہ دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی نے گہرے منفی اثرات چھوڑے ہیں،
آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں ۔
انہوں نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیانات کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی، وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی بے وقوفی کی انتہا ہے، خواجہ آصف ماضی میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان ہمارا دشمن ہے اور محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دے چکے ہیں جو تاریخ سے ناواقفیت کی علامت ہے۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے مطالبہ کیا کہ حکومت وزیر دفاع کو فوری طور پر تبدیل کرے اور استنبول مذاکرات کے لیے کسی سمجھدار اور بردبار شخصیت کو مقرر کرے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے لازم ہے کہ پشتون وزراء کو مذاکرات میں شامل کیا جائے جو افغانوں کی نفسیات اور روایات کو سمجھتے ہیں۔
انہوں نے وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیان پر بھی ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا کہ ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے انتہائی ناسمجھی ہے، تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا، اور طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ اقتدار میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، بلکہ نادانی ہیں۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے زور دیا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ احترام، بات چیت اور باہمی اعتماد کے ذریعے افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے کیونکہ یہی خطے کے امن و استحکام کی واحد ضمانت ہے۔