عمر ایوب نے حکومت کیخلاف تحریک تیز کرنے کا اعلان کردیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
ہری پور(نیوز ڈیسک)قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے قانون کی حکمرانی کے لیے حکومت کے خلاف تحریک تیز کرنے کا اعلان کردیا اور کہا ہے کہ پیکا ایکٹ کے تحت میڈیا پر تلوار لٹکا دی گئی، کرپشن بڑھ گئی، 2 سال سے کوئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی، تحریک تحفظ آئین کے پلیٹ فارم سے مل کر احتجاج کریں گے۔
ہری پور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمر ایوب کا کہنا تھا کہ تحریک تحفظ آئین پاکستان کے پلیٹ فارم سے سب پارٹیوں سے مل کر پلان بن رہا ہے، اخترمینگل اور سراج ترین پر جھوٹی ایف آئی آرز کی مذمت کرتے ہیں، لوگوں کے دلوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
عمر ایوب نے کہا کہ بڑی وجہ مسنگ پرسن ہیں، چیف جسٹس سے ملاقات میں بھی مسنگ پرسنز کی بات کی تھی، آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہوگا، قانون کی حکمرانی کے لیے اپنی تحریک تیز کریں گے۔
اپوزیشن لیڈر کا مزید کہنا تھا کہ ملک کی معیشت روز بروز خراب ہو رہی ہے، روپے کی قدر میں کمی سے 4 ہزار ارب روپے کا نقصان ہوا، ملک کے مختلف ڈیپارٹمنٹس میں کرپشن بڑھ گئی، گزشتہ 2 سال سے ملک میں کوئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی، مزید 2 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2 سالوں میں 20 لاکھ لوگ پاکستان سے ہجرت کر گئے، 20 لاکھ لوگوں کےجانےسے27ارب ڈالرکیش ملک سے چلا گیا، مسلط شدہ حکومت آئی ایم ایف سے محض ڈیڑھ ارب ڈالر مانگ رہی ہے، حکومت ہر جگہ ناکام نظر آ رہی ہے، خیبرپختونخوا کے 1100 ارب ڈالر کے واجبات ہیں، جو ادا نہیں کیے گئے۔
عمرایوب کا کہنا تھا کہ پیکا ایکٹ کے تحت میڈیا پر تلوار لٹکا دی گئی، ملک میں شفاف الیکشن ہی مسائل کا واحد حل ہے۔
مزیدپڑھیں:چیمپئنز ٹرافی کیلئے سب سے زیادہ سفر کس ٹیم نے کیا؟ تفصیلات سامنے آگئیں
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: عمر ایوب
پڑھیں:
جہادِ افغانستان کے اثرات
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1988 کے جنیوا معاہدے کے تحت جب 15 فروری 1989 کو روسی فوجیں گورباچوف کے پراسترائیکا اورگلاسنوسٹ فلسفے کے تحت افغانستان کو چھوڑکر واپس چلی گئیں تو جنرل ضیاء کی موت کے بعد، افغان جہاد امریکا نے پاکستان کی مدد سے جاری رکھا۔
بعد ازاں پیپلزپارٹی حکومت کے وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر نے پاکستان ہی میں طالبان کی تشکیل کا اعلان کیا اور وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے طالبان کی تشکیل کو درست عمل قرار دیا، اس عمل کے دوران امریکا اور نیٹو کی فوجی قیادت کا خیال تھا کہ پاکستان کی مدد و تعاون سے روس کے افغانستان سے انخلا کے بعد روس کی افواج کی جگہ طالبان کی گوریلا فوج امریکی ایما پر افغانستان میں امریکی من مرضی کے تحت پالیسیوں پر عمل کرے گی۔
یاد رہے کہ امریکی ڈالرزکی خطیر رقم اور فلاحی پلاٹ دینے کی پالیسیوں کے تحت بعض مدارس طالبان کی تربیت کے لیے قائم کیے گئے جہاں طلبہ کو جہادی لٹریچر پڑھایا گیا بلکہ یہی جہادی لٹریچر عسکری تربیت کے لیے بھی لازم قرار دیا گیا، تاکہ طالبان جہادیوں کی حمایت جاری رہے اور امریکی ڈالرز آنے کا سلسلہ کسی طور نہ رک سکے۔
افغانستان سے روس کے انخلا کو جہاد افغانستان کی فتح قرار دیا گیا تھا، جب کہ یہ نہ جہاد افغان کی فتح تھی اور نہ ہی روس کی پسپائی تھی، بلکہ یہ وہ جال تھا کہ جس جال سے روس نے نکل کر امریکا سمیت تمام افغان جہادیوں کو افغانوں سے نمٹنے کا ایک چیلنج دیا تھا، یہ اُس وقت کے روس کی وہ سیاسی یا فوجی حکمت عملی تھی جو بظاہر شکست نظر آرہی تھی مگر دوسرے لمحے ہی روسی فوج کا انخلا روس کا وہ دور رس قدم تھا جو کہ مستقبل میں امریکی سازش اور ان کے حمایتی افغان جہادیوں کے لیے ایک ایسا امتحان تھا، جس کو آج تک حکومتیں حل کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔
افغان اور پاکستان کے اس نظریاتی جنگ کے تضادات کا اندازہ اس وقت سے ہونا شروع ہو گیا تھا جب دیر اور سوات میں نفاذ شریعت محمدی کے مولانا صوفی محمد افغانستان کے ہزاروں جہادیوں سمیت لوٹے اور انھوں نے ملک میں شریعت محمدی نافذ کرنے کی تحریک کا آغازکیا۔
ابتدا میں یہ تحریک ایک مذہبی مقاصد کے لیے سمجھی گئی مگر بعد میں صوفی محمد کی یہ تحریک متشدد ہوتی چلی گئی،جس پر خیبر پختونخوا میں امن کی خاطر تحریک شریعت محمدی اور خیبر پختونخوا کی حکومت کے مابین 6 نکاتی ’’امن فارمولا‘‘ طے پایا، جس کے مطابق شریعت محمدی تحریک نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے یا کسی بھی متشدد کارروائی سے خود کو الگ رکھنے کا وعدہ تحریر میں کیا۔
جب اس 6 نکاتی فارمولے کا اعلان صوفی محمد نے ایک جلسے میں کیا تو اعلان طے شدہ فارمولے کے بالکل برعکس تھا۔ اس سلسلے میں جب تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ مولانا صوفی محمد نے دستخط شدہ معاہدے کو جلسہ عام میں خود پیش کرنے اور پڑھنے پر اصرارکیا۔
لیکن ہوا یہ کہ انھوں نے معاہدے کی شرائط پڑھنے کے بجائے عوامی اجتماع میں جمہوریت کو غیر اسلامی اور حکومت کے خلاف کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی مسلح مزاحمت کو جائز قرار دے دیا، جب کہ تحریری معاہدے میں یہ کہا گیا تھا کہ دونوں کالعدم تنظیموں کا شرعی نظام کے نفاذ کا مطالبہ تسلیم کیے جانے کے بعد اب ہر قسم کی مسلح مزاحمت کے خاتمے اور ہتھیار پھینکنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس وقت خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر میاں افتخار حسین نے انکشاف کیا تھا کہ بعد میں مولانا صوفی محمد نے بتایا کہ جلسہ عام میں معاہدے کی شرائط پڑھنے کی صورت میں انھیں دو خودکش بمباروں کے ذریعے ہلاک کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔
2009 کے اوائل میں صوفی محمد کے داماد مولانا فضل اللہ کے سوات میں پرتشدد حامیوں کے خلاف آپریشن کیا گیا تو تحریک طالبان کا فضل اللہ گروپ افغانستان چلا گیا، اسی کارروائی کے دوران مولانا فضل اللہ اچانک غائب ہوگئے اور بعد میں انھوں نے بی بی سی کو ٹیلی فون کر کے افغانستان چلے جانے کی تصدیق کی اور ان کی پاکستان کے کسی علاقے میں موجودگی کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
اسی دوران فضل اللہ سمیت دیگر شدت پسندوں نے افغانستان کے علاقوں کنڑ اور نورستان میں محفوظ ٹھکانے بنا لیے تھے اور وہ وہیں سے پاکستانی علاقوں میں شدت پسندوں کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے رہے، جن میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول کا حملہ بھی شامل ہے جس میں 148 افراد جاں بحق ہو گئے تھے جن میں سے بیشتر بچے تھے۔
2021 میں جب امریکی فوجوں کو افغانستان سے نکال کر طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو کابل یا افغانستان کی قبضہ کی گئی حکومت کے تین فریق اس وقت افغانستان کا نظم و نسق اپنے اپنے مضبوط علاقوں کی بنیاد پر چلا رہے ہیں، جن میں جنوب مغربی افغانستان کو مرکزی دھارے میں شامل طالبان کنٹرول کرتے ہیں، ان کا اصل مرکز قندھار میں ہے۔
حقانی نیٹ ورک جنوب مشرقی افغانستان پر قابض ہے اور شمالی افغانستان میں غیر پشتون افغان طالبان اور وسط ایشیائی جنگجوؤں پر مشتمل گروہ ہے جس کے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
اہم سوال یہ ہے کہ افغانستان کی مذکورہ حکومت کی تثلیث میں اہم کردار ادا کرنے والے افراد کو کس نے افغانستان میں حکومت کی موجودہ تثلیث بنانے کا فارمولا دیا؟ اور وہ کونسے عوامل تھے کہ کچھ قوتیں افغانستان کی موجودہ حکومت کے قیام کے لیے متحرک ہوئی تھیں، افغانستان کی موجودہ قیادت کے معاملے میں یہ رازکب تک سر بستہ رہے گا، یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔
مگر قرائن اور بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کا تحریک طالبان کی جانب نرم رویہ یہ ضرور بتاتا ہے کہ ابھی تک بانی پی ٹی آئی کو بچانے میں وہ طاقت بہت مستعدی کے ساتھ ان کی پشت پر ہے۔
جنگ زدہ ماحول کے اس پیچیدہ دوراہے اور طالبان کی جانب سے مسلسل دہشت گرد کارروائیوں کے نتیجے میں سب سے اہم سوال ریاستی اداروں کی کارکردگی اور بقا کا ہے،اسی لیے موجودہ حکومت ریاستی بیانیے کے حوالے سے ’’افغانستان کی طالبان حکومت‘‘ کی پالیسیوں اور در اندازی پر سخت موقف کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔
دوحہ اور استنبول میں مذاکرات کے تین، چار دورکے بعد بھی افغانستان میں طالبان حکومت کے نمایندے کسی بھی طرح کی تحریرکی صورت میں پاکستان کے اندر ٹی ٹی بی کی دراندازی روکنے کی کوئی ٹھوس ضمانت فراہم نہیں کر پائے جس کے نتیجے میں یہ مذاکرات بے نتیجہ یا ناکام رہے، گوکہ اب دوبارہ میزبان ممالک کے اصرار پر مذاکرات شروع کرنے پر رضا مندی ظاہر کی گئی ہے۔
تحریک طالبان کے دہشت گردوں کو واپس لانے کی پی ٹی آئی حکومت کی پالیسی کے ضمن میں خطے میں تحریک طالبان کی دہشت گردی نہ صرف پاکستان بلکہ روس اور چین کی اقتصادی ترقی میں بھی وہ اہم رکاوٹ کے طور پر سامنے آئی ہے جس پر پاکستانی حکومت کی جانب سے خطے کی دہشت گردی سے نمٹنے کا سخت موقف ایک حوصلہ افزا بات ہے۔