مسائل کا ابھی ادراک نہ کیا تو بعد میں مشکل ہوگا، گورنر سندھ
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کا کہنا ہے کہ اس شہر میں وہ مسائل جنم لے رہے ہیں جن کا ادراک نہیں کیا گیا تو آنے والے دنوں میں اس قابل نہیں ہونگے کہ ان کا حل نکال سکیں۔
نارتھ کراچی میں گورنر سندھ ریسٹورنٹ پر سحری کے لئے آئے، ان کے ہمراہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خواجہ اظہار اور دیگر افراد تھے۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے گورنر سندھ نے بتایا کہ وزیر اعظم، آرمی چیف باہر کے لوگوں کی انویسٹمنٹ لارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایم این ایز کو وفاق سے پیسہ ملے گا جو اس شہر اور صوبے پر لگے گا۔
گورنر سندھ نے کہا کہ پرسوں میں نے بات کی تو پیپلز پارٹی کے دوستوں نے کہا کہ گورنر کو آئین اجازت نہیں دیتا، اگر پانی نہیں آرہا، بجلی نہیں آرہی بل آرہا ہے تو آواز نہ اٹھائیں، میں پیپلز پارٹی یا کسی منسٹر کے خلاف نہیں ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور اس صوبے کے حالات اچھے ہونے جارہے ہیں، اس وقت حکومت جن کے ہاتھ میں ہے ان کا مقصد عوام کی ترقی ہے۔
کامران ٹیسوری نے کہا کہ اگر بارش کا پانی شہر میں آئیگا تو ہر قومیت کے لوگ متاثر ہونگے۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنے شہداء کے خون کی وجہ سے گورنر بنا ہوں۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: گورنر سندھ نے کہا کہ
پڑھیں:
وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء
متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ مجلس علماء نے بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے وقف ترمیمی قانون پر عبوری حکم کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ بعض دفعات کو معطل کیا گیا ہے تاہم اس حوالے سے آئینی اور مذہبی خدشات جوں کے توں برقرار ہیں، جس نے ملت کو اضطراب اور بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے، مسلمانوں کے ان مقدس اوقاف پر ان کا حق انتظام و اختیار کمزور کرنا یا ان کی تاریخی حیثیت کو زائل کرنا ملت کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ آئین میں درج ان اصولوں کے منافی ہے جو ہر مذہبی گروہ کو اپنے دینی معاملات خود چلانے کا حق دیتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ عدالت نے کچھ عبوری راحت فراہم کی ہے جو ایک مثبت قدم ہے لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں اور بنیادی خدشات کو دور نہ کرتے، قانون کی متعدد دفعات بدستور شدید تشویش کا باعث ہیں، زیر استعمال وقف املاک کے طویل عرصے سے مسلمہ اصول کا خاتمہ صدیوں پرانی مساجد، زیارت گاہوں، قبرستانوں اور دیگر اداروں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے جو مسلسل عوامی استعمال کے سبب وقف تسلیم کیے جاتے رہے ہیں، چاہے ان کے پاس تحریری دستاویزات موجود نہ ہوں۔ وقف نامہ کی لازمی شرط تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتی ہے جہاں اکثر دستاویزات یا تو ضائع ہو چکی ہیں یا کبھی بنی ہی نہیں تھیں اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان جائیدادوں کی مسلمہ حیثیت چھین لی جائے گی۔اسی طرح سروے کے اختیارات کو آزاد کمشنروں سے منتقل کر کے ضلع کلکٹروں کو دینا غیرجانبداری کو متاثر کرتا ہے اور ریاستی مداخلت کو بڑھاتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ مجلس علماء سمجھتی ہے کہ یہ ترمیم دراصل اوقاف کو کمزور کرنے اور انہیں ہتھیانے کی دانستہ کوشش ہے جس کے نتیجے میں ناجائز قابضین کو قانونی جواز مل سکتا ہے اور اس سے حقیقی دینی و سماجی اداروں کو نقصان ہو گا۔ یہ اقدامات امتیازی ہیں کیونکہ کسی اور مذہبی برادری کے معاملات میں ایسی مداخلت نہیں کی جاتی۔مجلس علماء نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ جلد از جلد اس معاملے کی حتمی سماعت کرے اور مسلمانوں کے آئینی و مذہبی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے کیونکہ موجودہ صورت میں یہ قانون تشویشناک ہے اور پرانے وقف ایکٹ کو بحال کیا جانا چاہیے، حکومت کو چاہیے کہ وہ وقف کی حرمت کو پامال کرنے کے بجائے ان مقدس اوقاف کے تحفظ، بقا اور ترقی کے لئے عملی اقدامات کرے تاکہ یہ آنے والی نسلوں کے دینی و سماجی مفاد میں کام کرتے رہیں۔