آرمی ایکٹ میں درج جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہو گا؟ جسٹس جمال نے سوال اٹھا دیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت جاری ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
لاہور بار کے وکیل کے دلائل
لاہور بار کے وکیل حامد خان ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ گزشتہ سماعت پر پاکستان کی تاریخ پر دلائل دیے، پاکستان میں مارشل لاء اور ملٹری کورٹس کی تاریخ کا بتایا۔
جسٹس مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر کے ریمارکس
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ ایف بی علی کیس میں طے ہوا کہ آرمی ایکٹ فوج کے ممبرز کے لیے بنا ہے، مگر کیس میں یہ بھی کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن ڈی اس مقصد کے لیے نہیں بنا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اب تنازع یہ ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں ایف بی علی کیس میں سویلینز کے ٹرائل کی بھی اجازت تھی، آپ کہہ رہے ہیں کہ اجازت نہیں تھی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ایف بی علی کیس میں کہا گیا کہ پارلیمان اس معاملے پر 2 سال میں ریویو کر سکتی ہے، آج تک پارلیمان نے اس معاملے پر کچھ نہیں کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھا دیا کہ تنازع یہ نہیں کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کیا جائے یا نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ آرمی ایکٹ میں درج جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہو گا؟ آرمی ایکٹ میں درج جرائم کرنے پر اس کا دائرہ اختیار سویلینز تک بڑھایا جاسکتا ہے یا نہیں؟
سویلینز ٹرائل کی شقیں غیر آئینی ہیں: حامد خان
حامد خان نے بتایا کہ آرمی ایکٹ میں شامل وہ شقیں جن کے تحت سویلین کا ٹرائل کیا جاتا ہے وہ غیر آئینی ہیں، فوجی عدالتوں کے حق میں دلائل دینے والوں کا انحصار آئین کے آرٹیکل 8(3) پر ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: آرمی ایکٹ میں کہ آرمی ایکٹ جسٹس جمال ٹرائل کی کیس میں
پڑھیں:
فنانس ایکٹ کے تحت ایف بی آر کے اختیارات میں مزیداضافہ، جائیداد کی خریدو فروخت کیلیے ٹیکس کی شرط ختم
حکومت نے فنانس ایکٹ کے ذریعے ایف بی آر کے اختیارات میں مزید بے پناہ اضافہ کردیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق فنانس ایکٹ کے تحت ٹیکس فراڈ کے ساتھ ساتھ ٹیکس فراڈ میں معاونت کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے، جس میں معاونت کرنے والوں کو بھی گرفتار کیا جاسکے گا۔
فنانس ایکٹ کے مطابق ایف بی آر کو نئے کارگو ٹریکنگ سسٹم کے تحت چینی سمیت دیگر اشیا کی ترسیل اور انکے گوداموں کی مانیٹرنگ کرنے کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔
جائیداد کی خرید و فروخت کیلئے فائلرز، نان فائلرز، لیٹ فائلر کی کٹیگریز ختم کردی گئی ہیں جبکہ جائیداد کی خرید و فروخت کا اختیار سب کو دے دیا گیا ہے۔
پانچ کروڑ روپے سے کم مالیت کی جائیداد کی خریداری پر ساڑھے چار فیصد،پانچ کروڑ سے دس کروڑ روپے تک کی جائیداد کی خریداری پر پانچ فیصد اور دس کروڑ روپے سے زائد کی جائیدار کی خریداری پر ساڑھے پانچ فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔
فروخت کیلیے پانچ کروڑ روپے سے کم جائیداد کی فروخت پر ڈیڑھ فیصد، پانچ کروڑ سے دس کروڑ روپے تک کی جائیداد کی فروخت پردو فیصد اور دس کروڑ روپے سے زائد کی جائیدار کی فروخت پر ڈھائی فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔