6600 کلو چھالیہ کراچی منتقل کی جا رہی تھی، جس کی مالیت 66 لاکھ روپے سے زائد ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ریتی بجری کی آڑ میں ہزاروں کلو چھالیہ کراچی اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کسٹمز انفورسمنٹ نے انسداد اسمگلنگ مہم کے تحت سپرہائی وے چیک پوسٹ پر کارروائی کی، جس میں اندرون سندھ سے آنے والے ریتی بجری سے لدے مشکوک ڈمپر سے اسمگل شدہ چھالیہ برآمد کرلی گئی۔ ڈمپر نمبر TAF-329 میں ریتی بجری کی آڑ میں 6600 کلو چھالیہ کراچی منتقل کی جا رہی تھی، جس کی مالیت 66 لاکھ روپے سے زائد ہے۔ حکام نے مقدمہ درج کرکے ڈمپر اور اسمگل شدہ مضرصحت چھالیہ اے ایس او گودام منتقل کر دی۔ اسمگلنگ میں استعمال ہونے والے 2 کروڑ روپے مالیت کے ڈمپر کو بھی چھالیہ کے ساتھ ضبط کر لیا گیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ریتی بجری

پڑھیں:

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ایک اور حادثہ رونما ہوا ملیر میں ایک ڈیڑھ سالہ بچہ ڈمپر کے ٹائروں کی زد میں آکر ہلاک ہو گیا۔ تفصیلات اس واقعے کی کچھ یوں ہے کہ الفلاح تھانے کی حدود ملت ٹائون میں تیز رفتار ڈمپر کی ٹکر سے ڈیڑھ سالہ بچہ عون محمد ہلاک جبکہ اس کا ماموں شدید زخمی ہو گیا یہ معصوم بچہ اپنے ماموں کے ہمراہ دادی کے گھر جا رہا تھا حادثہ کے بعد ڈمپر ڈرائیور موقع سے فرار ہو گیا اور کلینر کو پولیس نے گرفتار کر لیا اور اس کو مشتعل افراد کے چنگل سے بچا کر تھانے منتقل کر دیا یہ تو ضابطے کی کارروائی تھی مگر اس کے بعد ایس ایچ او رائو عمیر نے جو بیان دیا وہ قابل غور ہے محترم فرماتے ہیں تیز رفتار ڈمپر نے ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے موٹر سائیکل کو ٹکر ماری تھی حادثے کے بعد ڈرائیور فرار ہو گیا جبکہ ڈمپر کو اس کا کلینر لے کر بھاگ رہا تھا تو پولیس نے اسے گرفتار کر لیا، متوفی عون محمد کے نانا نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ڈمپر نے مخالف سمت سے آتے ہوئے کھڑی ہوئی موٹر سائیکل کو ٹکر ماری اور عون محمد ڈمپر کے ٹائروں کے نیچے دب گیا۔ ایک ذمے دار پولیس افسر کا یہ اعتراف کے تیز رفتار ڈمپر نے ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے موٹر سائیکل کو ٹکر ماری کسی بھی مقدمے کے لیے ایک ٹھوس ثبوت ہے پھر ایک ڈیڑھ سالہ معصوم بچے کا ڈمپر کے ٹائروں تلے کچلا جانا سخت سے سخت انسان کے دل کو پگھلا کر موم کر دیتا ہے مگر یہ ان درندوں کا روز کا معمول ہے۔

اب ذرا ماضی کی طرف چلیے اس سے ہولناک حادثہ بھی ملیر ہی میں چند ماہ قبل رونما ہوا تھا اس وقت بھی غلط سمت سے آنے والے تیز رفتار ٹینکر نے ایک موٹر سائیکل کو ٹکر مار ی تھی جس پر ایک حاملہ خاتون سوار تھی اور ٹینکر کا پہیہ اس کے شکم کے اوپر سے اس طرح گزرا کہ وہ بچہ جس کو چھے دن بعد دنیا میں آنا تھا سڑک پر تڑپ رہا تھا گر چہ ایک رائیڈر اس کو لے کر اسپتال کی طرف بھاگا مگر وہ جاں بر نہ ہو سکا۔ یہاں بھی ڈرائیور غلط سمت سے آ رہا تھا اور اس کی غفلت ثابت ہو رہی ہے مگر کچھ نہ ہونا تھا اور کچھ نہ ہوا۔ نماز جنازہ میں سیاسی، فلاحی، مذہبی جماعتوں کے افراد نے بھرپور شرکت کی لواحقین کو صبر کی تلقین کی بعض رہنما جوش جذبات میں آکر انصاف دلانے کا بھی یقین دلا گئے مگر ایسے مقدمات جہاں ڈرائیور کی غفلت ثابت ہو رہی ہو اگر درست پیر وی کر لی جاتی تو یقینا ڈرائیور کو سزا ہو سکتی تھی مگر یہ سب کچھ تمام لواحقین پر چھوڑ دیا گیا اب وہ بیچارے اس طاقتور مافیا کے خلاف عدالت میں کیسے کھڑے ہو سکتے ہیں؟ جب کہ ان مافیاز کی پشت پر حکمرانوں کا ہاتھ ہے۔ ابھی چند دن قبل ایک اور حادثہ لکی ون شاپنگ مال کے سامنے والے روڈ پر ہوا جس میں ایک تیز رفتار ڈمپر نے موٹر سائیکل پر سوار فیملی کو روند ڈالا جس کے نتیجے میں بہن بھائی موقع پر ہی جان بحق ہو گئے اور باپ شدید زخمی ہو گیا بد قسمت باپ بچوں کو شادی کی تقریب میں ملیر لے کر گیا تھا اور اب واپسی پر راشد منہاس روڈ پر لکی ون مال کے سامنے ڈمپر کی زد میں آگیا جس کے نتیجے میں بہن بھائی موقع پر ہی ہلاک ہو گئے ہلاک ہونے والوں میں 22 سالہ ماہ نور بھی شامل تھی جس کی اگلے ماہ شادی طے تھی۔ حادثے کے بعد علاقہ میدان جنگ بن گیا اور مشتعل افراد نے سات ڈمپروں کو آگ لگا دی۔ پولیس نے 10 مشتبہ افراد کو ڈمپر نزر آتش کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ ڈمپرز ایسوسی ایشن نے احتجاج کیا اس موقع پر صوبائی وزیر شرجیل میمن نے ڈمپر مالکان سے مذاکرات کیے اور ان کو جلے ہوئے ڈمپروں کے معاوضے کی یقین دہانی کرانے کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ڈمپرز جلانے والوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے تحت مقدمات قائم کیے جائیں گے، اس کے بعد ڈمپزر مالکان نے دھرنا ختم کر دیا مگر مرنے والوں سے کسی سرکاری اہلکار نے ہمدردی کا اظہار نہ کیا۔

رواں برس اب تک تقریباً 600 افراد ٹریفک حادثات میں لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ ڈرائیور کی غفلت اور لاپروائی کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں جن کے شواہد بھی موجود ہیں مگر کوئی ایک ڈرائیور بھی حراست میں نہیں ہے وجہ صرف عدم پیروی ہے یہ کون کرے گا؟ مرنے والوں کے عزیز و اقارب میں تو یہ ہمت نہیں کہ وہ اتنے بڑے مافیاز سے ٹکر لے سکیں۔ ہم نے یہاں صرف تین حادثات کا ذکر کیا ہے جب کہ رواں سال حادثات میں 600 افراد ہلاک ہوئے ہیں جس میں نہ کسی ڈرائیور اور نہ ہی ڑمپر مالک کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی اور نہ لواحقین کی دادرسی کی گئی۔ سوشل میڈیا کے توسط سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ شرجیل میمن 71 ڈمپر کے مالک ہیں جن میں سے 20 ڈمپر سرکاری ترقیاتی کاموں میں مصروف ہیں جن کا معاوضہ شرجیل میمن وصول کر رہے ہیں اور آغازسراج درانی بھی 20 ڈمپروں کے مالک ہیں ان کے علاوہ وزیر بلدیات اور میئر کراچی کا بھی حصہ موجود ہے۔ جب کہ لیاقت محسود کے صرف چھے یا سات ڈمبر ہیں ان کو استعمال کیا جا رہا ہے دیگر سیاسی شخصیات بھی ان کی سرپرستی کر رہی ہیں تو پھر ان کے خلاف کارروائی کیسے ممکن ہے؟

متعلقہ مضامین

  • ارشد ندیم میڈل حاصل کرنے میں ناکام، ’کوشش کرکے ہار جانے پر ہم دکھی نہیں‘
  • ریلوے ڈویژن پشاور کا تجاوزات کے خلاف کامیاب آپریشن، اربوں روپے مالیت کی قیمتی ریلوے زمین واگزار کرالی گئی
  • بانی پی ٹی آئی کی بہنیں سپریم کورٹ پہنچ گئیں، عمران خان کا خط چیف جسٹس کو دینے کی کوشش ناکام
  • مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے؟
  • 200 روپے والے پرائز بانڈ کی قرعہ اندازی کے نتائج کا اعلان
  • اے پی پی میگا کرپشن کیس، 13 ملزمان کی ضمانت خارج، 7 ملزمان احاطہ عدالت سے گرفتار
  • پی آئی اے واجب الادا 20 ارب روپے وصول کرنے میں ناکام
  • حب چوکی پر بس سے اسمگل شدہ سامان نکل آیا، ضبط کرنے پر ٹرانسپورٹرز کا احتجاج، کسٹم کی ہوائی فائرنگ
  • پی آئی اے واجب الادا 20 ارب 39 کروڑ روپے کی رقم وصول کرنے میں ناکام رہا. آڈٹ رپورٹ
  • ملک میں سونا ہزاروں روپے مہنگا ہوگیا