دہشت گردی کیخلاف تعاون پر پاکستان اورامریکا کا اتفاق رائے
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
پاکستان میں تعینات امریکی ناظم الامور نیٹلی اے بیکر نے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ملاقات میں دونوں ممالک نے تجارت اور سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ انسدادِ دہشت گردی اور سکیورٹی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق امریکی قائمقام سفیر نے وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے دو طرفہ امور سمیت مختلف معاملات پر تبادلہ خیال کے دوران دہشت گردی کیخلاف باہمی تعاون پر اتفاق کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
واضح رہے کہ امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والٹزنے بھی نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار سے گزشتہ ہفتے ٹیلیفون پر رابطہ کرکے انسداد دہشت گردی کے ضمن میں پاکستانی کوششوں پرامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پیغام تشکر پہنچایا تھا۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے اپنی گفتگو میں پاکستان اورامریکا کے درمیان انسداد دہشت گردی میں تعاون جاری رکھنے پراتفاق کیا تھا۔
مزید پڑھیں:
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے فوجی ساز و سامان کی واپسی کے اعلان کو پاکستان کی جانب سے سراہا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان نے سی آئی اے کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر داعش کےکمانڈرشریف اللہ کو گرفتار کرکے امریکا کے حوالے کیا تھا، جو 2021 میں افغانستان میں امریکی فوج کے انخلا کے موقع پرکابل ایئرپورٹ پر دہشتگردی کی سازش میں ملوث تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسحاق ڈار امریکا انسداد دہشت گردی پاکستان تجارت تعاون سرمایہ کاری سیکیورٹی معاملات نائب وزیر اعظم نیٹلی بیکر وزیر خارجہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسحاق ڈار امریکا پاکستان تعاون سرمایہ کاری سیکیورٹی معاملات نیٹلی بیکر اسحاق ڈار
پڑھیں:
بھارت میں آزادیٔ اظہار جرم، اختلافِ رائے گناہ ؛ مودی سرکار میں سنسر شپ بڑھ گئی
مودی سرکار کے دورِ حکومت میں سنسرشپ کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں آزادیٔ اظہار جرم اور اختلافِ رائے گناہ بنا دیا گیا ہے۔
بھارت میں آزادیٔ اظہار اور صحافت پر بڑھتی پابندیوں کے حوالے سے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو نیوز نے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے، جس نے مودی حکومت پر سخت الزامات عائد کرتے ہوئے سنسرشپ کے بڑھتے رجحان کو بے نقاب کردیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق نریندر مودی کے دورِ حکومت میں اختلاف رائے کو گناہ سمجھا جانے لگا ہے اور میڈیا، تعلیمی ادارے حتیٰ کہ عدلیہ بھی خوف کے سایے میں کام کر رہے ہیں۔ اسی دوران آزادیٔ اظہار کو بھی جرم بنا دیا گیا ہے۔
ڈی ڈبلیو نیوز کے مطابق مودی سرکار نے ’’آپریشن سندور‘‘کی ناکامی کو چھپانے کے لیے آزادیٔ اظہار کو نشانہ بنایا۔ اس آپریشن کی ناکامی پر نیوز ویب سائٹ "The Wire" نے بھارتی طیارہ گرنے کی درست خبر شائع کی، جس کے بعد مودی حکومت نے اس پلیٹ فارم کو بند کر کے پورے میڈیا کو خاموش رہنے کا پیغام دیا۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت دنیا میں آزادیِ صحافت کی عالمی درجہ بندی میں 180 ممالک میں سے 151 ویں نمبر پر آ چکا ہے، جب کہ حکومت اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے اب تک 8000 سے زائد سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کر چکی ہے۔
مودی حکومت نے ممتاز مسلم اسکالر علی خان محمودآباد کو جنگ مخالف پوسٹ پر گرفتار کیا اور ان کے سچ کو ’’فرقہ واریت‘‘قرار دے کر جیل بھیج دیا۔
ڈی ڈبلیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پولیٹکل سائنٹسٹ پروفیسر اجے نے کہا کہ مودی راج میں اب صرف خاموشی محفوظ ہے، رائے دینا خود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں لوگ حتیٰ کہ نجی محفلوں میں بھی اپنی رائے دینے سے گریز کرتے ہیں۔
او پی جندل گلوبل یونیورسٹی کے پروفیسر دیپانشو موہن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مودی حکومت نے ’’آپریشن سندور‘‘کو ایک سیاسی ڈراما بنا کر انتخابی فائدے کے لیے استعمال کیا اور قومی سلامتی جیسے حساس معاملے کو ووٹ بینک میں بدل دیا۔
پروفیسر موہن نے مزید کہا کہ آج بھارت میں صرف وہی استاد قابل قبول ہے جو مودی کا بیانیہ پڑھاتا ہے، باقی سب کو ’ملک دشمن‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ بھی اب حکومت کی زبان بول رہی ہے اور قومی سلامتی کے نام پر اظہارِ رائے پر قدغن لگائی جا رہی ہے۔ پروفیسر کے مطابق تعلیمی اداروں میں نصاب، تدریس اور تقرریاں اب مکمل طور پر مودی حکومت کے بیانیے کی غلامی میں ہیں، مخالف آوازوں کو نہ گرانٹ دی جاتی ہے اور نہ ہی ملازمت کا حق۔
پروفیسر موہن نے عالمی برادری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں عالمی دباؤ ہی آزاد میڈیا، دانشوروں اور اختلافی آوازوں کے تحفظ کی آخری امید رہ گیا ہے۔