آبادی بڑھنے کی شرح پر بریک لگایا گیا تھا لیکن دوبارہ ایکسلیٹر پر پاوں رکھ دیا گیا: احسن اقبال
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
پشاور(ڈیلی پاکستان آن لائن ) وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آبادی بڑھنے کی شرح 2 فیصد سے 9 فیصد پر آ چکی ہے، آبادی بڑھنے کی شرح پر بریک لگایا گیا تھا لیکن دوبارہ ایکسیلیٹر پر پاوں رکھ دیا گیا ہے۔
نجی ٹی وی جیونیوز کے مطابق اڑان پاکستان سے متعلق تقریب میں خطاب کرتے ہوئے احسن اقبال کا کہنا تھاکہ یہ ملک بنا تو وسائل نہیں تھے لیکن آج ساتویں ایٹمی طاقت ہے، آج 250 سے زیادہ یونیورسٹیاں ہیں، ہمارا مقصد ہے کہ ہر صوبے میں اعلیٰ تعلیم کے مراکز قائم کریں۔
ان کا کہنا تھاکہ آج چین کی فی کس آمدنی 16 ہزار ڈالر اور ہماری فی کس آمدنی 1600 ڈالر ہے، دیگر ممالک نے حالات کے مطابق اصلاحات کیں، جس ملک کے اندر امن اور یکجہتی نہیں ہوگی وہ ملک ترقی نہیں کر سکتا، جو نظام امن کے اصولوں کے مطابق نہیں ہوگا وہ کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا، ہم دنیا کے ساتھ مل کر 1960 کے بعد آگے نہ چل سکے، چین، جنوبی کوریا اور تھائی لینڈ بہت آگے چلے گئے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھاکہ پاکستان کے بارے میں مشہور ہے کہ ہم زیادہ ذہین ہیں، تمام ترقی یافتہ ممالک میں ایک بات مشترکہ ہے وہ امن اور ہم آہنگی ہے، ہمیں یہ جاننا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ سب ممالک آگے نکل گئے اور ہم پیچھے رہ گئے، سیاسی استحکام کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا، اگر باعزت مستقبل بنانا ہے تو اگلے 22 سالوں میں تیزی سے آگے بڑھنا ہے، ترقی کیلئے امن، یکجہتی، سیاسی استحکام اور اصلاحات پر عمل کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ 2017 تک پاکستان سے بجلی لوڈشیڈنگ اور دہشتگردی کا خاتمہ ہو گیا تھا، سی پیک کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا، 2018 میں جو تبدیلی آئی، اس سے ہم پیچھے رہ گئے، ہمیں یہ سبق سیکھنا ہے کہ ہم نے اس ملک کی پالیسی کے ساتھ سیاست نہیں کرنی، ہم جس دور میں داخل ہو چکے ہیں، انسانی تاریخ میں ایسی تبدیلیاں نہیں دیکھیں، ہمیں اپنے نوجوانوں کو نئی سکلز دینی ہیں، جو یہ تبدیلیاں مینیج کر سکیں۔
احسن اقبال کا کہنا تھاکہ ہمارے ہمسایہ ملک کی سافٹ ویئر برآمدات 200 ارب ڈالرز تک چلی گئیں، اگر ہمسایہ ملک برآمدات 200 ارب ڈالرز کر سکتا ہے تو ہم 100کیوں نہیں کر سکتے، پنجاب اور مرکز میں حکومت آئی تو ہم نے طالب علموں کو لیپ ٹاپ دیے، لیپ ٹاپ اس لئے دیئے کہ ہمارے نوجوان کا ہتھیار گالی گلوچ نہ ہو بلکہ لیپ ٹاپ ہو۔
ان کا کہنا تھا پاکستان کے 5 چیلنجز کو ٹھیک کرنا ہے، انٹرپرینیور شپ اینڈ ایکسپورٹ مینجمنٹ کو ٹھیک کرنا ہے، ورلڈ مارکیٹ کے اندر میڈ ان پاکستان کو اچھی کوالٹی کے ساتھ لانا ہے، ہم ایک ایکسپورٹ لیڈ گروتھ میں جائیں تو ہم کامیاب ہو سکیں گے، ہم نے اپنی یونیورسٹیوں کو آئیڈیل بنانا ہے تاکہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی کا کہنا تھاکہ امریکا سپرپاور اپنی یونیورسٹیوں کی وجہ سے ہے، آج ہم مقابلہ کر رہے ہیں کہ کون کس کی مسجدوں پر قبضہ اور حملہ کرتا ہے، وہ لوگ اس مقابلہ میں ہیں کہ کون خلا کی بلندیوں کو چھوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیںکبھی خشک سالی کا توکبھی سیلابوں کا سامنا کرنا ہوگا جس کے لئے ہمیں اب پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانا ہے، ہمیں موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنا ہو گا، کراچی سے لےکر پشاور تک بجلی کی بہت بڑی چوری ہے، یہ بھی ایک چیلنج ہے کہ بجلی چوری کو ختم کرنا ہے، جو جتنی بجلی استعمال کر رہا ہے وہ اپنا بل دے، حکومت اس کے لئے مزید اصلاحات لے کر آرہی ہیں۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ کے پی حکومت کے ساتھ مل کر تعلیم اور صحت پر اصلاحات لائیں گے، ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں، جب تک بچے سکول نہیں جائیں گے ہمارا ملک ترقی نہیں کرسکتا، ہمیں سیاسی لانگ مارچ کی نہیں ملک میں استحکام پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھاکہ جب تک کسی ملک کی شرح خواندگی 90 فیصد نہ ہو وہ ترقی کا اہل نہیں ہوتا، آج پاکستان کی شرح خواندگی صرف 60 فیصد ہے، سیاست کے میدان میں مقابلہ نہیں بلکہ تعلیم اور صحت میں مقابلے کی ضرورت ہے۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آبادی بڑھنے کی شرح 2 فیصد سے بڑھ کر 9 فیصد تک پہنچ گئی ہے، آبادی بڑھنے کی شرح پر بریک لگایا گیا تھا لیکن دوبارہ ایکسیلیٹر پر پاوں رکھ دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اختلاف رائے کو نفرت میں تبدیل نہیں کرنا چاہئے، ہمارے رنگ، نسل الگ ہو سکتے ہیں لیکن ہمارا ڈاک خانہ ایک ہے وہ ہے پاکستان، ہم سب برابر کے پاکستانی ہیں اور پاکستان کا بھلا چاہتے ہیں، الگ پسند اور اختلاف کی وجہ سے ہم دشمن نہیں بن جاتے، اختلاف کو جب نفرت میں لے جائیں گے تو تباہی آئے گی، اختلاف رکھیں لیکن مل کر کام کرنے کی صلاحیت رکھیں۔
دو قدم ساتھ چل کر چھوڑنے والا اپنا نقصان کرے گا، قوم معاف نہیں کریگی، سلمان اکرم راجا
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: آبادی بڑھنے کی شرح احسن اقبال کا کہنا کا کہنا تھاکہ کا کہنا تھا وفاقی وزیر کے ساتھ نہیں کر گیا تھا
پڑھیں:
صحرائے چولستان میں نایاب نسل کے پرندے بھکھڑ کی آبادی میں اضافہ
لاہور:پنجاب کے صحرائے چولستان میں نایاب نسل کے پرندے گریٹ انڈین بسٹرڈ(بھکھڑ) کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان اور بھارت کے صحرا میں پائے جانے والے اس پرندے کی آبادی کا تخمینہ 80 سے 90 تک جبکہ پاکستان میں ان کی تعداد کا تخمینہ 30 سے 35 کے قریب ہے۔
وائلڈلائف کنزرویٹر سید رضوان محبوب نے بتایا کہ انہوں نے حالیہ دنوں چولستان میں گریٹ انڈین بسٹرڈ کی ویڈیو اور تصاویر بنائی ہیں، یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گریٹ انڈین بسٹرڈ صرف پاکستان کے صحرائے چولستان اور انڈیا کے راجستھان میں پایا جاتا ہے، اس کی مجموعی آبادی کا تخمینہ 80 سے 90 کے قریب ہے جبکہ پاکستان میں اس نایاب پرندے کی آبادی 30 سے 35 ہوگی۔
ڈپٹی چیف وائلڈلائف رینجرز بہاولپور ریجن سید علی عثمان بخاری نے بتایا کہ صحرائے چولستان میں بھکھڑ کے تحفظ کے لیے خصوصی طور پر پبلک وائلڈلائف ریزرو بنایا گیا ہے، پروٹیکشن اقدامات میں بہتری سے اس نایاب مقامی جنگلی پرندے کی آبادی میں اضافہ ممکن ہواہے۔
انہوں نے بتایا کہ چولستان میں نایاب پرندے بھکھڑ کی آباد ی میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گریٹ انڈین بسٹرڈ جنوبی ایشیا کا ایک نایاب اور نہایت خطرے سے دوچار پرندہ ہے، جس کی نسل معدومی کے قریب پہنچ چکی ہے، عالمی ادارہ برائے تحفظ قدرت (آئی یو سی این) نے گریٹ انڈین بسٹرڈ کو "انتہائی خطرے سے دو چار انواع کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔
واضح رہے کہ گریٹ انڈین بسٹرڈ کا شمار دنیا کے بھاری بھر کم اڑنے والے پرندوں میں ہوتا ہے، نر پرندے کا وزن 15 کلوگرام تک ہو سکتا ہے اور قد تقریباً ایک میٹر تک ہوتا ہے، اس کے پروں کا پھیلاؤ دو میٹر سے زیادہ ہوتا ہے، بھورے، سفید اور سیاہ رنگ کے امتزاج کے ساتھ یہ پرندہ اپنے مخصوص سیاہ گلے کے نشان سے پہچانا جاتا ہے، یہ سال میں صرف ایک انڈہ دیتا ہے، جس کے باعث افزائش نسل کی شرح بہت کم ہے۔
اس پرندے کی قانونی یا تجارتی خرید و فروخت مکمل طور پر ممنوع ہے، سائٹیز کے تحت اس پرندے کی بین الاقوامی تجارت پر بھی پابندی عائد ہے، عالمی مارکیٹ میں اس کی کوئی جائز قیمت موجود نہیں ہے۔
اگرچہ ہوبارا بسٹرڈ جیسے دیگر بسٹرڈ پرندے عرب شکاریوں کے شوق کی نذر ہوتے رہے ہیں لیکن گریٹ انڈین بسٹرڈ اس تجارت کا حصہ نہیں رہا، اس کی نایابی اور قانونی تحفظ کے باعث شکاری اور غیر قانونی تاجر بھی اس سے گریز کرتے ہیں۔