بی ایل اے عالمی دہشتگرد گروپ، مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ ہیں،امریکہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
اسلام آباد: امریکی سفارت خانے نے بلوچستان میں ہونے والے جعفر ایکسپریس ٹرین پرحملے کی مذمت کرتے ہوئے بی ایل اے کو عالمی دہشت گرد گروپ قراردے دیا۔
امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ جعفر ایکسپریس کے مسافروں کو یرغمال بنانے کی شدید مذمت کرتے ہیں، سفارت خانے نے اپنے بیان میں بی ایل اے کو عالمی دہشت گرد گروپ قرار دیا۔
امریکی سفارت خانہ نے مذمتی بیان میں کہا کہ ہم متاثرین سے گہری ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہیں، امریکہ پاکستان کا مضبوط شراکت دار رہے گا۔
امریکی سفارت خانہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم اس مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
واضح رہے کہ سکیورٹی ذرائع کے مطابق جعفرایکسپریس پرحملہ کرنے والے تمام دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے، تمام یرغمالیوں کو بازیاب کرا لیا گیا۔
سکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ کچھ شہید مسافروں کی تعداد کا تعین کیا جا رہا ہے، آپریشن انتہائی احتیاط اور مہارت سے کیا گیا، مسافروں کوانسانی شیلڈ کے طورپراستعمال کیا جا رہا تھا۔
سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ پہلے 190 مسافروں کو بازیاب کروایا جا چکا ہے، آپریشن انتہائی اختیاط اور مہارت کا مظاہرہ کیا گیا، معصوم جانیں بچائی گئیں، کچھ شہید مسافروں کی تعداد کا تعیُّن کیا جا رہا ہے، تمام دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: امریکی سفارت
پڑھیں:
اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان
امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے چکائی جاتی ہے۔
امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔
ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔