ملزمان کا گواہوں کے بیانات پر جرح کا حق ختم نہیں کیا جاسکتا، لاہور ہائیکورٹ کا تحریری فیصلہ جاری
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
لاہور ہائیکورٹ نے فراڈ کے مقدمے میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے ملزمان کا حقِ جرح کا حق ختم کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہےکہ ملزمان کا گواہوں کے بیانات پر جرح کا حق ختم نہیں کیا جاسکتا۔
فراڈ کے مقدمے میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے رانا عامر اعجاز کی درخواست پر 11 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق عدالت نے ٹرائل کورٹ کو ملزمان کو گواہوں کے بیانات پر جرح کرنے کا آخری موقع دینے کا حکم دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: چیئرمین نادرا کو ہٹانے کا حکم کالعدم قرار
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی ملزم کو عدالتی نظام سے کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اگر ملزمان پھر جرح نہ کریں تو ٹرائل کورٹ خود ڈیفنس کونسل مقرر کر کے جرح کی کارروائی مکمل کرائے۔
فیصلے کے مطابق اگر کوئی ملزم جان بوجھ کر جرح کےلیے وکیل پیش نہ کرے تو عدالت کو خود ڈیفنس کونسل مقرر کرنا چاہیے
واضح رہے کہ ٹرائل کورٹ نے 2023 میں فراڈ کے مقدمے میں درخواست گزار سمیت 9 ملزمان پر فرد جرم عائد کی، ٹرائل کورٹ کے فرد جرم کے بعد گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے، درخواست گزار نے متعدد مواقع ملنے کے باوجود گواہوں کے بیانات جرح نہیں کی۔
مزید پڑھیں: جوڈیشل کمیشن اجلاس :لاہور ہائیکورٹ کے لیے 9ایڈیشنل ججز کی منظوری، اعلامیہ جاری
گواہوں کو ہر پیشی پر اسلام آباد سے آنا پڑتا تھا، ٹرائل کورٹ نے درخواست گزار کو 10 ہزار روپے جرمانے کے ساتھ گواہوں کے ساتھ جرح کا آخری موقع دیا اور پھر درخواست گزار کا جرح کا ختم کردیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے مطابق، انصاف کے نظام میں گواہوں کا بیانات کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے، انصاف کے تقاضوں کے برقرار رکھنے کے لیے عام طور پر ٹرائل کورٹ ملزمان پر جرمانے عائد نہیں کرتیں۔
عدالتی فیصلے کے مطابق انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قوانین بھی جرح کو بنیادی حق تصور کرتے ہیں، بہت سے ممالک کے لیگل سسٹم میں کارروائی مکمل کرنے کے لیے حق جرح کو بڑی اہمیت حاصل ہے، پاکستان کی عدالتیں بھی تسلیم کرتی ہیں کہ ملزم کا گواہوں کے بیان پر جرح بنیادی حق ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
تحریری فیصلہ ٹرائل کورٹ جرح جسٹس طارق سلیم شیخ درخواست گزار ڈیفنس کونسل رانا عامر اعجاز فراڈ فرد جرم لاہور ہائیکورٹ لیگل سسٹم.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: تحریری فیصلہ ٹرائل کورٹ جسٹس طارق سلیم شیخ درخواست گزار ڈیفنس کونسل فراڈ لاہور ہائیکورٹ لیگل سسٹم لاہور ہائیکورٹ فیصلے کے مطابق درخواست گزار ٹرائل کورٹ کورٹ کے کے لیے جرح کا
پڑھیں:
نئی گج ڈیم کیس: وفاقی آئینی عدالت نے درخواست کے قابلِ سماعت ہونے پر دلائل جاری
وفاقی آئینی عدالت میں نئی گج ڈیم کیس کی سماعت کے دوران نجی کمپنی کے وکیل مسعود خان نے مؤقف اختیار کیا کہ کیس سے متعلق 3 تحریری جوابات عدالت میں جمع کروائے جا چکے ہیں۔
چیف جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی عدالت کے 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل سندھ ہائیکورٹ کے 2 ججز نے اس حوالے سے حکم جاری کیا تھا، تاہم وفاقی آئینی عدالت میں یہ مقدمہ اب تک قابلِ سماعت قرار نہیں دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے نئی گچ ڈیم منصوبے کی لاگت پر رپورٹ طلب کرلی
سماعت کے دوران چیف جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ آئین میں ایسا کوئی اصول یا پابندی موجود نہیں جو 2 ججز کا فیصلہ دوسرے 2 ججز کے نہ سننے سے متعلق ہو۔
انہوں نے کہا کہ یہ پابندی سپریم کورٹ رولز کا حصہ ہوا کرتی تھی، آئین کا نہیں۔
وکیل مسعود خان نے موقف اختیار کیا کہ 27ویں آئینی ترمیم کے مطابق اس نوعیت کی تمام درخواستیں وفاقی آئینی عدالت کو منتقل ہو جائیں گی۔
مزید پڑھیں:آئینی عدالتیں شاہی دربار نہیں، جو ججز کیسز نہیں سن سکتے گھر چلے جائیں: اعظم نذیر تارڑ
انہوں نے مزید کہا کہ ایف ون سی کے تحت بھی کیس کے میرٹ کا جائزہ لینے سے پہلے اس کی قابلِ سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ضروری ہے۔
وکیل نے یہ مؤقف بھی اپنایا کہ ان کے نزدیک سپریم کورٹ کے قواعد ابھی بھی قابلِ عمل ہیں۔
عدالت نے وکیل کے اعتراضات اور دلائل سننے کے بعد کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جسٹس امین الدین خان سپریم کورٹ سپریم کورٹ رولز قابل سماعت نئی گج ڈیم کیس وفاقی آئینی عدالت