کیا حکومت ضربِ عضب طرز کے کسی آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
سانحہ جعفر ایکسپریس کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت کے لیے کوئٹہ پہنچ چُکے ہیں، تو کیا اس بہت بڑے سانحے کے بعد یہ توقع کی جانی چاہیے کہ پاکستان دوبارہ سے ضربِ عضب طرز کا کوئی فوجی آپریشن کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں:جعفر ایکسپریس حملہ، ٹرین ڈرائیور نے حملے کے وقت کیا دیکھا، آنکھوں دیکھا حال بتا دیا
دہشتگردانہ کارروائی کو افغانستان سے ماسٹر مائنڈ کیا گیاپاکستان آرمی نے جعفر ایکسپریس ریسکیو آپریشن کامیابی سے مکمل کر لیا۔ آج جب ترجمان دفترِخارجہ شفقت علی خان سے یہ سوال کیا گیا کہ آیا اس بہت بڑی دہشتگردانہ کارروائی کے ڈانڈے بیرونِ ملک ملتے ہیں تو پاکستان اس حوالے سے کیا اقدامات کرنے جا رہا ہے؟ جس کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ اس دہشتگردانہ کارروائی کو افغانستان سے ماسٹر مائنڈ کیا گیا۔ ابھی ریسکیو آپریشن کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا ہے، افغانستان کے ساتھ ابھی معاملہ سفارتی سطح پر نہیں اٹھایا۔ ہم مرحلہ وار آگے بڑھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس شواہد ہیں کہ افغانستان سے کالز ٹریس کی گئی ہیں۔ ان کے ساتھ سفارتی چینل کھلے ہیں، بات چیت چلتی رہتی ہے اور ماضی میں بھی افغان عبوری حکومت کے ساتھ اس طرح شواہد کا اشتراک کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:جعفر ایکسپریس حملہ: بھارت ماضی میں ایسے واقعات میں شریک رہا ہے، دفتر خارجہ
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ اس مسئلے کے حل کے لئے پاکستان کی کثیر الجہتی پالیسی ہے۔
جنرل خالد نعیم لودھیلیفٹینٹ جنرل (ر) خالد نعیم لودھی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ ضربِ عضب طرز کا ایک اور فوجی آپریشن کیا جائے گا۔ بلکہ آج وزیراعظم، آرمی چیف اور دیگر زعماء وہاں سارے اسٹیک ہولڈرز سے بات کریں گے۔ ہاں جن لوگوں نے بندوقیں اُٹھائی ہیں اُن سے بات چیت تو نہیں کی جا سکتی۔ ناراض بلوچ جو کہ سیاست کے میدان میں ہیں جیسا کہ ڈاکٹر عبدالمالک اور اختر مینگل، اِن جیسے لوگوں سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ضرورت ہے کہ جینوئن لیڈرشپ کو آگے لایا جائے، اُن کو مین سٹریم میں لایا جائے۔ لیکن آج کے دورے میں آرمی چیف یہ ضرور پوچھیں گے کہ جن جن کی ذمے داری تھی اُنہوں نے اپنی اپنی ذمے داری پوری کیوں نہیں کی۔
سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگاجنرل خالد نعیم لودھی نے کہا کہ اس مسئلے کا حل لوہار کی طرح طاقت سے ہتھوڑا مارنے میں نہیں بلکہ سنار کی طرح سے باریک حل ہے۔ اور اس حل کی کئی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور فوجی جہتیں ہیں۔ فوج کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور باقی تمام کو بھی اپنا اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنا ہو گا۔
برگیڈئیر آصف ہارون نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردوں کے خلاف آپریشن 100 فیصد لانچ کیا جائے گا۔ ضربِ عضب تو نہیں لیکن عزمِ استحکام لانچ ہونا چاہیے، خاص طور پر جب گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی کہہ دیا کہ اب یہ ایک ڈفرنٹ بال گیم ہے۔
کارروائیوں کا آغاز ہو چُکابرگیڈئیر آصف ہارون نے کہا کہ اُن کی اطلاعات کے مطابق اِس وقت کارروائیوں کا آغاز ہو بھی چُکا ہے اور عزم استحکام اب تک لانچ ہو جانا چاہیے تھا جو نہیں ہوا، کیونکہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان اِس کے لیے تیار نہیں تھے، لیکن اب بی ایل اے کو کرش کرنے کے لیے اس طرح کا آپریشن ضروری ہے اور علاقائی ممالک اور امریکا کو اعتماد میں لے کر دوسرے ممالک میں کارروائیاں بھی کی جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے لیے پاکستان نے ایک کیس بھی تیار کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایک ہمسایہ ملک پاکستان میں دہشتگردی کا مرتکب ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جعفر ایکسپریس افغانستان سے نے کہا کہ ا کیا گیا کے لیے
پڑھیں:
کسی ’فیڈرل فورس‘ کو آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ایف سی کی ایکسٹینشن قبول نہیں، اس کے خلاف عدالت جا رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نےکہا کہ صوبے میں کسی بھی فیڈرل فورس کو آپریشن کی اجازت نہ دیں گے اور نہ ہی کوئی آپریشن قبول کریں گے، صوبے میں جو بھی کارروائیاں کی جارہی ہیں، ہمیں اُن میں اعتماد میں نہیں لیا جارہا۔
علی امین گنڈا پور نےکہا کہ امن و امان کے لیے آپریشن میں عوام اور فورسز کا نقصان ہے، گُڈ طالبان کی کوئی گنجائش نہیں، ان کی سفارش کرنے والے کیخلاف بھی کارروائی ہوگی۔
وزیراعلیٰ خبیرپختونخوا نے کہا کہ بارڈر کی سکیورٹی وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، وفاق اپنے فورسز کو بارڈر پر بھیج دے، قبائلی عوام کے ساتھ کیے گئے وعدے تاحال پورے نہیں ہوئے، وفاق جلد این ایف سی بلائے، ہمیں قبائلی علاقوں کا حق دیا جائے، قبائلی علاقوں سے مقامی لوگوں کو صوبائی پولیس میں بھرتی کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ وفاق کے سابق فاٹا، پاٹا میں ٹیکس نفاذ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں، بارڈر پر تجارت میں مشکلات کے باعث صوبے کا کاروبار متاثر ہو رہا ہے۔
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ مذاکرات میں صوبے کو بھی شامل کیا جائے، مذاکرات یا جرگے میں نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار یا وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی خیبرپختونخوا کی بات نہیں کرسکتے، صوبائی حکومت کو شامل نہ کیا گیا تو کوئی فیصلہ قبول نہیں کریں گے، محسن نقوی فلائی اوور بنا سکتا ہوگا مگر وہ میرے صوبے کی بات نہ کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جس نے کانفرنس میں شرکت نہیں کی، اُن کی تجاویز کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے امن و امان کی صورتحال پر بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہے۔