شہنشاہیت سے غربت تک کی دکھ بھری داستان، مغل خاندان کی آخری وارثہ 6 ہزار ماہانہ پینشن پر جینے پر مجبور
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
شہنشاہیت سے غربت تک کی دکھ بھری داستان، مغل خاندان کی آخری وارثہ 6 ہزار ماہانہ پینشن پر جینے پر مجبور WhatsAppFacebookTwitter 0 13 March, 2025 سب نیوز
کلکتہ(آئی پی ایس )کبھی تاج و تخت کے وارث، کبھی غلامی و زوال کے شکار، تاریخ کے صفحات ایسے بے شمار قصے سناتے ہیں، مگر کچھ کہانیاں دل کو چھو لینے والی ہوتی ہیں۔ یہ کہانی بھی ایک ایسی ہی شخصیت کی ہے، جو کبھی مغلیہ سلطنت کے شاندار ماضی سے جڑی تھی، مگر آج زندگی کی بنیادی سہولتوں کے لیے ترس رہی ہے۔جی ہاں، ہم بات کر رہے ہیں بہادر شاہ ظفر کی پڑپوتی سلطانہ بیگم کی، جو کبھی ایک شاہانہ زندگی کا خواب دیکھتی تھیں، مگر آج کولکتہ کی ایک تنگ و تاریک گلی میں گمنامی اور مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
شاہی خون، مگر بے بسی کا مقدر
سلطانہ بیگم کا نام سن کر شاید ذہن میں کسی عظیم الشان محل کا تصور ابھرے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان کی شادی 1965 میں میرزا محمد بیدار بخت سے ہوئی، جو خود کو بہادر شاہ ظفر کا پڑپوتا بتاتے تھے۔ سلطانہ بیگم اس وقت محض 14 سال کی ایک معصوم لڑکی تھیں، جبکہ ان کے شوہر 46 سال کے ایک ادھیڑ عمر مرد۔ یہ شادی محض ایک بندھن نہیں تھی، بلکہ تاریخ کی ایک ایسی کڑی تھی جس میں ماضی کی شان و شوکت اور حال کی بے بسی آمنے سامنے کھڑی تھیں۔مگر قسمت کو یہ بھی گوارا نہ ہوا۔ 1980 میں شوہر کے انتقال کے بعد، زندگی نے یکدم کروٹ بدلی اور شاہی ورثے کی یہ وارثہ دو وقت کی روٹی کے لیے بھی محتاج ہوگئی۔ کبھی جن کے آبا و اجداد ہندوستان کے تخت پر براجمان تھے، آج وہی ورثہ زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو جسے وہ اپنا گھر کہنے پر مجبور ہے۔
کولکتہ کی ایک تنگ گلی میں، شاہی خون کی آخری نشانی
سلطانہ بیگم آج ہاوڑہ، کولکتہ کی ایک خستہ حال بستی میں رہتی ہیں، جہاں روشنی کم اور اندھیرے زیادہ ہیں۔ ان کا گھر محض دو کمروں کا ایک چھوٹا سا جھونپڑا ہے، جہاں نہ مناسب پانی کی سہولت ہے، نہ ہی بجلی اور نہ ہی زندگی کی کوئی آسائش۔حکومت کی طرف سے انہیں صرف 6000 روپے ماہانہ پنشن ملتی ہے، جو آج کے دور میں زندہ رہنے کے لیے ناکافی ہے۔ ایک وقت تھا جب مغلوں کے نام سے دربار لرز جاتے تھے، اور ایک آج ہے کہ ان کی اولاد کو دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہے۔
1857 کی جنگ اور بہادر شاہ ظفر کی آخری آہ
یہ کہانی صرف سلطانہ بیگم کی نہیں، بلکہ تاریخ کے ایک المیے کی بھی ہے۔ بہادر شاہ ظفر، جو کبھی مغل تاج و تخت کے وارث تھے، 1857 کی جنگِ آزادی میں ہندوستانی باغیوں کے رہنما بنے، مگر برطانوی سامراج نے اس جنگ کو بے دردی سے کچل دیا۔ ظفر کو رنگون (موجودہ میانمار) جلاوطن کر دیا گیا، جہاں انہوں نے 1862 میں انتہائی بے بسی اور تنہائی میں جان دی۔کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ان کی پڑپوتی کو بھی اسی بے بسی اور لاچاری کی زندگی گزارنی پڑ رہی ہے؟ یا یہ تاریخ کا وہی بے رحم چکر ہے جو طاقتور سلطنتوں کو پہلے آسمان پر چڑھاتا ہے اور پھر زمین پر پٹخ دیتا ہے؟
کیا کوئی سنے گا؟
یہ سوال آج بھی اپنی جگہ موجود ہے، کیا بھارتی حکومت اس شاہی ورثے کی آخری وارثہ کو ان کا حق دے گی؟ کیا یہ صرف ایک خاندان کی کہانی ہے، یا پھر تاریخ کے ساتھ کی گئی ایک اور ناانصافی؟ یہ محض ایک فرد کی نہیں، بلکہ پوری ایک سلطنت کی درد بھری کہانی ہے، جو کبھی اپنے وقت کی سب سے طاقتور حکومت تھی، اور آج اس کا خون ایک گلی کے کونے میں بیٹھا انصاف کا منتظر ہے۔ کیا کوئی سنے گا؟ یا یہ داستان بھی وقت کے دھندلکوں میں کھو جائے گی؟
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: بہادر شاہ ظفر سلطانہ بیگم جو کبھی کی آخری کی ایک
پڑھیں:
واشنگٹن مذاکرات میں کبھی بھی غیر جانبدار ثالث نہیں رہا، جہاد اسلامی
اپنے ایک بیان میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ حماس، جنگبندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین کی مقاومتی تحریک "جہاد اسلامی" کے ترجمان "محمد الحاج موسیٰ" نے کہا کہ غزہ جنگ بندی کے مذاکرات کے بارے میں امریکی صدر کے بیان سے ظاہر ہوا کہ یہ ملک کبھی بھی غیر جانبدار ثالث نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر "ڈونلڈ ٹرامپ" کے بیانات سے واضح ہوا کہ واشنگٹن کبھی بھی غیر جانبدار ثالث نہیں تھا بلکہ غزہ میں فلسطینی قوم کے خلاف نسل کشی کے منصوبے میں ایک مکمل شریک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرامپ کے بیانات، اجتماعی قتل جیسے جرائم کے ارتکاب کے لئے اسرائیل کو گرین سگنل کی علامت ہے۔ جہاد اسلامی کے ترجمان نے کہا کہ مزاحمتی گروپوں کے درمیان مشاورت جاری ہے۔ مذاکرات میں استقامتی محاذ کے درمیان یکجہتی کے عمل نے صیہونی رژیم کی چال بازیوں کو ماند کر دیا ہے۔ مزاحمتی فرنٹ کا یہ رویہ فلسطینی قوم کے حقوق کے تحفظ کے مشترکہ عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ کسی بھی گروپ نے مذاکراتی ٹیم کو تبدیل کرنے یا غیر مستقیم جنگ بندی کے مذاکرات میں مشترکہ ٹیم تشکیل دینے کی درخواست نہیں کی۔
واضح رہے کہ امریکی صدر نے "قطر" کے شہر "دوحہ" میں مذاکرات کی ناکامی کا ملبہ حماس پر ڈالتے ہوئے کہا کہ حماس، جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار جمعہ کے روز وائٹ ہاؤس سے اسکاٹ لینڈ کے سفر پر روانگی کے وقت صحافیوں سے گفتگو میں کیا۔ ڈونلڈ ٹرامپ نے یہ بیان اس وقت دیا جب اُن کے نمائندہ برائے امور مشرق وسطیٰ "اسٹیون ویٹکاف" نے کہا کہ امریکی انتظامیہ نے حماس کی آخری پیشکش کے بعد اپنی مذاکراتی ٹیم کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی صدر نے دعویٰ کیا کہ حماس واقعی معاہدہ نہیں کرنا چاہتی۔ میرا خیال ہے کہ حماس کا برا وقت شروع ہو چکا ہے۔ انہوں نے بے بنیاد الزام عائد کیا کہ حماس، غزہ میں امدادی پیکٹس کی تقسیم میں رکاوٹ ہے۔ تاہم امریکہ کی اندرونی رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف امریکی صدر کے اس دعوے کی کوئی شہادت نہیں بلکہ اس کے برعکس اسرائیل غذائی امداد کے کارگو کو جان بوجھ کر تباہ کر رہا ہے۔