آرٹ کے ذریعے تھیراپی: سوئس ڈاکٹرز کی مریضوں کو میوزیم اور گیلری جانے کی تجویز
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
ویب ڈیسک—سوئٹزر لینڈ میں ڈاکٹرز ذہنی مسائل میں مبتلا مریضوں کو آرٹ گیلریز، میوزیم اور پارکس جانے کی تجویز دے رہے ہیں۔
مغربی سوئٹزرلینڈ کے شہر نوشیٹل کی انتظامیہ نے رواں برس فروری میں ذہنی مسائل سے دوچار افراد اور جسمانی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے ڈاکٹرز کے ساتھ مل کر ایک پائلٹ پروگرام لانچ کیا ہے۔
اس پروگرام میں شامل ڈاکٹر پیٹریشا لیہمن نے خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ آرٹ گیلری، میوزیم اور پارکس میں وقت گزارنا ایک لمحے کے لیے پریشانیوں، درد اور بیماریوں کو بھلا کر خوش گوار لمحات گزارنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
ان کے بقول جب ہم لوگوں کے جذبات کا خیال رکھتے ہیں، تو یہ کسی نہ کسی طرح انہیں صحت یابی کا راستہ تلاش کرنے میں مدد دیتا ہے۔
‘رائٹرز’ کے مطابق اس پروگرام کے تحت شہر کے تین میوزیم اور بوٹینیکل گارڈنز کو 500 مفت نسخے جاری کیے جائیں گے جس کے تحت متاثرہ لوگ مفت دورہ کر سکیں گے۔
ڈاکٹر کا نسخہ حاصل کرنے والی ایک 26 سالہ خاتون نے حال ہی میں نوشیٹل میوزیم آف آرٹ اینڈ ہسٹری کا دورہ کیا۔
خاتون نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ وہ برن آؤٹ یعنی شدید اسٹریس کی کیفیت سے دوچار تھیں۔ ان کے بقول جب وہ میوزیم گئیں تو انہیں اپنی اندھیری زندگی میں روشنی کی کرن سی محسوس ہوئی۔
نوشیٹل کی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں یہ خیال 2019 میں عالمی ادارہ صحت کی ایک تحقیق سے آیا۔ تحقیق میں بہتر صحت کے فروغ اور بیماری سے نمٹنے کے لیے آرٹ کے کردار کا جائزہ لیا گیا تھا۔
شہر کے محکمہ ثقافت کی سربراہ جولی کورسیئر کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن کے دوران میوزیم کی بندش نے لوگوں کی صحت پر منفی اثر ڈالا ہے۔
ان کے بقول "ہم چاہتے ہیں کہ یہ منصوبہ کامیابی حاصل کرے اور مریضوں کی صحت یابی سے اس کی افادیت ثابت ہو جائے گی۔
یاد رہے کہ یہ منصوبہ ایک سال کے لیے آزمائشی طور پر چلایا جائے گا اور مستقبل میں اس میں تھیٹر جیسی سرگرمیاں بھی شامل کی جائیں گی۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: میوزیم اور کے لیے
پڑھیں:
کیا پاک افغان تعلقات میں تجارت کے ذریعے بہتری آئے گی؟
19 اپریل کو پاک افغان مذاکرات کے دوران زیادہ تر گفتگو دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے معاملات میں بہتری اور افغان مہاجرین کی واپسی سے متعلق رہی۔ پاکستانی نائب وزیراعظم و وزیرِخارجہ اسحاق ڈار نے افغان قائم مقام وزیرخارجہ امیرخان متقی کے ساتھ اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں یہی بات کی کہ 2 سال سے زائد عرصے سے دونوں مُلکوں کے درمیان تجارتی معاملات پر بات چیت نہیں ہو سکی جس سے دونوں ممالک مواقع کھو رہے ہیں۔
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاک افغان تعلقات میں جو بہتری متوقع تھی وہ تو نہ آ سکی بلکہ 15 اگست 2021 کے بعد سے پاکستان کے اندر دہشتگردی کے واقعات میں ریکارڈ اضافہ ہوا جس میں زیادہ تر واقعات میں تحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کے شواہد، پاکستان نہ صرف افغان عبوری حکومت بلکہ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر شیئر کرتا رہا۔
پھر ستمبر 2024 میں تمام افغان غیر قانونی افغان مہاجرین کو اپنے وطن واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن یہ فیصلہ افغان عبوری حکومت کو پسند نہیں آیا۔ اِس پر اُنہوں نے اپنی ناراضی کا برملا اظہار بھی کیا۔
19 اپریل کو نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا دورہ کابل اس سارے عرصے میں دونوں مُلکوں کے درمیان اعلٰی سطحی مذاکرات کا پہلا موقع تھا جس کو تمام سفارتی اور سکیورٹی ماہرین کی جانب سے نہ صرف خوش آئند قرار دیا گیا بلکہ معاملات کی درستی کے لیے اُٹھایا گیا قدم قرار دیا گیا۔
اسحاق ڈار کے دورے سے ایک روز قبل افغان وزیر تجارت نورالدین عزیزی نے پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان سے افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے سلسلے میں بات چیت کی۔ افغان مہاجرین کے اس مسئلے پر دونوں مُلکوں کے درمیان کابل میں بھی بات چیت ہوئی اور آج افغان مہاجرین کے مسائل کے حل کے لیے ایک ہاٹ لائن قائم کر دی گئی۔
اسحاق ڈار کے دورے کی سب سے اہم بات دونوں مُلکوں کے درمیان ازبکستان، افغانستان پاکستان 647 کلومیٹر ریلوے ٹریک تعمیر کا اعلان تھا، ساتھ ہی ساتھ پاکستان افغانستان اور چین سہ فریقی فورم کو فعال کرنے کا اعلان بھی ہوا اور 30 جون تک پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ تجارتی معاہدے کی تجدید کی بات بھی کی گئی۔ جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک تجارتی روابط میں بہتری چاہتے ہیں۔
ایمبیسیڈر عبدالباسط
پاکستان کے سابق سینئر سفارتکار عبدالباسط نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاک افغان مذاکرات کی شروعات حوصلہ افزا ہے۔ ایک سوال کہ آیا ان مذاکرات سے پاکستان کو درپیش دہشتگردی کا معاملہ ختم ہو پائے گا؟ کے جواب میں ایمبیسیڈر عبدالباسط نے کہا کہ اُن کے خیال میں افغان طالبان ٹی ٹی پی کو تو کنٹرول کر سکتے ہیں لیکن اِسلامک سٹیٹ آف خُراسان بدستور ایک خطرہ رہے گا۔
سلمان بشیر
سابق سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی ایک معاملہ ہے جبکہ نائب وزیراعظم نے وہاں مختلف دیگر موضوعات و مسائل پر بھی گفتگو کی ہے۔
پاک افغان مذاکرات میں ٹرانزٹ ٹریڈ سے متعلق بات چیت ہوئی۔
افغان اُمور کے بعض ماہرین کی رائے ہے کہ پاک افغان تعلقات میں تلخی کا بڑا سبب دونوں مُلکوں کے تجارتی تعلقات ہیں۔ افغانستان میں کوئی صنعت نہیں اور تجارت ہی اُن کا ذریعہ معاش ہے جس کا زیادہ تر انحصار پاکستان پر ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے افغانستان نے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے سے اپنی تجارت کو فروغ دینے کی کوشش کی لیکن ایک تو یہ کہ ایران کے ساتھ افغانستان کا صرف ایک بارڈر ملتا ہے جس سے افغانستان کے تجارتی سامان کو بندرگاہ تک پہنچنے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ جبکہ پاکستان کے ساتھ افغانستان کے طورخم، خرلاچی، غلام خان، انگور اڈہ اور چمن سمیت زیادہ گزرگاہیں ہیں۔ افغان تجارت کے لیے پاکستان موزوں ترین مُلک ہے۔
افغان اُمور پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی فخر کاکاخیل کے مطابق جب پاکستان، افغانستان کے ساتھ اپنے بارڈرز کو بند کرتا ہے تو وہاں کاروبار کا شدید نقصان ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں میں غم و غصّہ بڑھتا ہے۔
نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار کے دورۂ کابل کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا فوکس تجارت ہی رہی۔ افغان اُمور کےماہرین کا خیال ہے کہ تجارت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر کر سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں