Express News:
2025-09-17@23:22:30 GMT

مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کا ایک سال

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

فروری 2025 میں مسلم لیگ (ن) کی وفاقی اور پنجاب حکومتوں نے اپنا پہلا سال اپوزیشن کی شدید مخالفت کے باوجود آسانی سے مکمل کر لیا جس طرح 2018میں پی ٹی آئی کی وفاقی پنجاب و کے پی حکومتوں نے مکمل کیا تھا۔ دونوں کے دعوے تھے کہ ان کی حکومتیں اور بالاتر ایک صفحے پر ہیں۔

پی ٹی آئی کی تینوں حکومتوں میں صرف اس کے چیئرمین کی چلتی تھی اور تینوں حکومتوں میں اس کے وزیر اعظم خود کو مکمل خود مختار سمجھ کر من مانے فیصلے کرتے تھے اور انھوں نے پنجاب و کے پی میں اپنی مرضی کے وزرائے اعلیٰ مقرر کیے تھے جن کی کارکردگی پہلے چند ماہ ہی میں ظاہر ہوگئی جس پر خود پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں نے بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا مگر وزیر اعظم نے اپنے فیصلے پر دونوں کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا جس کی سزا دونوں صوبوں کے عوام نے بھگتی۔

موجودہ وفاقی حکومت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے باہمی تعاون سے قائم ہوئی جس میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کی طرح ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان عوامی پارٹی بھی شامل ہے اور ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں نے اہم عہدے آپس میں بانٹ رکھے ہیں اور وفاقی کابینہ میں کوئی غیر ملکی شامل نہیں جب کہ موجودہ وفاقی حکومت میں پی ٹی آئی شامل نہیں جب کہ جے یو آئی پہلے بھی اپوزیشن میں تھی اور اب بھی ہے۔

پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کی اپوزیشن مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کر رہی تھیں ۔ موجودہ حکومت کو پی ٹی آئی فارم 47 کی پیداوار قرار دیتی ہے اور جے یو آئی بھی سمجھتی ہے مگر وفاقی حکومت نے آئین میں جو 26 ویں ترمیم کی ہے اس کی منظوری جے یو آئی کے بغیر ممکن نہیں تھی جس پر جے یو آئی نے اپنی شرائط پر ترمیم منظورکرائی تھی جس سے پی ٹی آئی کو اپنی مرضی کا چیف جسٹس اور ججز نہیں مل سکے تھے۔

پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی واضح اکثریت کے باعث مضبوط حکومت ہے جس کی سربراہی پہلی بار ایک خاتون مریم نواز کے پاس ہے اور پی ٹی آئی اس کی اپوزیشن ہے جب کہ پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت مسلم لیگ (ق) کے دس ووٹوں کی مرہون منت تھی جس کو پی ٹی آئی نے اسپیکر پنجاب اسمبلی کا اہم عہدہ دے رکھا تھا جب کہ اب پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کا عہدہ مسلم لیگ (ن) کے پاس ہے جب کہ مسلم لیگ (ق) بھی پنجاب حکومت میں شامل ہے۔

 البتہ گورنر پنجاب کا عہدہ پیپلز پارٹی کے پاس ہے اور وفاق میں پی پی کے صدر اور (ن) لیگ کے وزیر اعظم ہیں اور دونوں کے باہمی تعاون سے حکومت آئینی حدود میں چل رہی ہے جب کہ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم من مانیوں کے عادی تھے اور ان کے صدر مملکت کی حیثیت صدر مملکت کی نہیں ایک ’’ یس مین‘‘ کی تھی جن کو وزیر اعظم کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے تھے اور ملک میں وزیر اعظم ہی اصل طاقت تھے جو کابینہ کو بھی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ موجودہ وفاقی حکومت نے ایک سال کامیابی سے مکمل کیا ہے جو اس کے پراعتماد ہونے کا ثبوت ہے اور ایک سال گزار کر حکومت نے 21 مزید وزیر مقررکیے ہیں اور وہ اعتماد سے آگے بڑھ رہی ہے۔

 پی ٹی آئی دور میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی اہمیت ایک ڈمی کی سی تھی جب کہ اب پنجاب میں برائے راست ایک خاتون مضبوط وزیر اعلیٰ ہیں جن کے چچا وزیر اعظم ہیں اور دونوں نے باہمی تعاون اور مشاورت سے ایک سال مکمل کیا ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت نے ایک سال میں جتنی شان دار کارکردگی دکھائی ہے باقی تین حکومتیں پنجاب جیسی کارکردگی نہیں دکھا سکیں اور وفاقی اور پنجاب حکومت نے اپنی ایک سالہ کارکردگی رپورٹ میڈیا کے ذریعے اپنے اپنے حامیوں کے سامنے پیش بھی کی ہے جب کہ ماضی کی پی ٹی آئی کی وفاقی و پنجاب حکومت میں ایسا نہیں ہوا تھا اور دونوں کی توجہ اپوزیشن کو کچلنے پر مرکوز رہی تھی۔

موجودہ وفاقی کابینہ میں پہلی بار محکمہ خزانہ اور داخلہ کی وزارتیں مسلم لیگ (ن) کے پاس نہیں جب کہ (ن) لیگ کے قائد کے خیال میں ان کے سمدھی ہی وزیر خزانہ بننے کے اہل ہیں اور مجبوری میں انھیں وزیر خارجہ بنایا گیا ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ کے باعث ملکی معیشت بہتر ہوئی ہے جب کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پی ڈی ایم کی حکومت میں تقریباً ایک سال وزیر خزانہ رہ کر صرف بلند و بانگ دعوے کیے تھے مگر معیشت میں کوئی بہتری نہیں آئی تھی۔

 (ن) لیگ کی حکومت کے ایک سال میں موجودہ حکومت اپنے آٹھ ماہ میں ٹیکس ہدف حاصل کرانے میں ناکام رہی اور اس کا زور تنخواہ دار ملازمین سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصولی اور نئے ٹیکس دہندگان بڑھانے پر رہا مگر وہ مہنگائی عملی طور کم کرانے میں ناکام رہی۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں وزیر اعظم کا زیادہ زور غیر ملکی دوروں اور وزیر اعلیٰ پنجاب کا زیادہ زور پنجاب میں نئے ترقیاتی منصوبے اور عوام کی فلاح و بہبود کے کام شروع اور مکمل کرانے میں رہا اور اپنے وزیر اعظم سے کہیں آگے رہیں اور دونوں نے ایک سال میں صرف ڈی جی خان اور نارو وال میں عوامی جلسے کیے اور وزیر اعلیٰ پنجاب وزیر اعظم سے زیادہ متحرک رہیں اور انھوں نے پنجاب کے عوام کو ایک سال میں متعدد سہولتیں فراہم کرائیں عملی طور پر وفاقی حکومت عوام کو ایک سال میں کوئی ریلیف نہیں دے سکی۔

(ن) لیگ کی وفاقی حکومت اپنی پنجاب حکومت کی تقلید میں عوام کی فلاح کا کوئی منصوبہ نہ دے سکی، بس اڑان پاکستان کے منصوبے کا اعلان ضرور ہوا۔ مگر ملک کے بے بس عوام کی زندگی میں کوئی بہتری آئی نہ وہ اڑان کے قابل ہو سکے۔ وفاقی حکومت اگر پنجاب حکومت کی طرح متحرک ہوتی توکچھ تبدیلی ضرور نظر آتی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پی ٹی آئی کی وفاقی موجودہ وفاقی پنجاب حکومت وفاقی حکومت ایک سال میں وزیر اعلی حکومت میں اور دونوں جے یو آئی حکومت نے میں کوئی مسلم لیگ کی حکومت حکومت کی ہے جب کہ ہیں اور میں پی کے پاس ہے اور

پڑھیں:

حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250918-03-5
مجاہد چنا
جب آپ فطرتی ماحول ، قدرت کے فیصلوں اور پانی کے قدرتی راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کریں گے تو اس کا خمیازہ بھی آپ کو بھگتنا پڑے گا۔ موجودہ دریائی سیلاب جو کے پی اور پنجاب میں تباہی مچا رہے ہیں وہ بھی اسی کا نتیجہ ہیں۔ بادل پھٹنے کے نتیجے میں پہاڑوں سے آنے والے پنجاب میں راوی سمیت دریا ئی پانی کی گذرگاہوں پر زبردستی قبضے اور سوسائٹیز، مکانات، بنگلے، فارم ہاؤسز وغیرہ سمیت بڑی بڑی آبادیاں قائم کردینے کے باعث بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ لاکھوں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں اور جان و مال کے لحاظ سے بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کے پی میں پیر بابا بونیر میں تباہی کی وجہ پانی کو روکنے والے درختوں کی کٹائی اور دوسری وجہ اس پانی کے راستے پر بستیوں کا قیام بھی بتایا جاتا ہے۔ یہی صورتحال ملک کے سب سے بڑے شہر اور سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بھی ہوئی ہے۔ شاہراہ فیصل سے سعدی ٹاؤن تک پانی میں ڈوبنے اور شاہراہ بھٹو کے کچھ حصوں کے کٹاؤ کی بھی یہی وجہ بتائی جا رہی ہے۔ ملیر ندی کے پیٹ میں شاہراہ بھٹو بنانے اور پھر دھیرے دھیرے پوری زمین پر قبضہ کرنے کی سازش کئی دہائیوں کے بعد تیز بہنے والے پانی نے بالآخر ناکام بنا دی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ سانپ گذرنے کے بعد لکیر پیٹے رہتے ہیں۔ چند سالوں کے وقفے کے بعد ہمارے ملک میں سیلاب، زلزلے اور قدرتی آفات آتی ہیں، لیکن ہر بار یہ صرف وقتی طور پر متحرک ہوتی ہیں اور حکومت اور ادارے سو جاتے ہیں۔ پنجاب میں آنے والے سیلاب کی وجہ بھارت کی آبی دہشت گردی کہی جا سکتی ہے لیکن یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ پوری دنیا، میڈیا اور ہمارا محکمہ موسمیات دریائی اور شہری سیلابوں کی پیش گوئیاں کرتے رہے لیکن جو تباہی اور افراتفری ہوئی ہے اس سے لگتا ہے کہ ہماری حکومت صرف اشتہارات اور کرپشن کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھی۔ جب سرسے پانی چڑھا تو ہنگامی سرگرمیاں شروع کیں ، وہ بھی محض نمائشی! پنجاب حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب لوگ ڈوب رہے تھے تو وزیراعلیٰ محترمہ مریم بی بی سرکاری خرچ پر بڑی وفدکے ساتھ چین کے دورے پر گئی تھیں۔ پنجاب میں حکومتی امدادی سرگرمیوں کی متعدد ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہیں جس سے اس کی اصلیت کھل کر سامنے آئی ہے۔ ایک ویڈیو میں پولیس اہلکار صرف تھیلے پر ہاتھ رکھ کر متاثرین کو خالی ہاتھ بھیج رہے ہیں، دوسری میں ایک خاندان کو راشن کا تھیلا دیا جا رہا ہے جس میں آٹے میں نمک کے برابر سامان ہے، جب کہ متاثرین نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے والے معروف ٹی وی اینکر حامد میر کو بتایا کہ سرکاری ادارے 1122 کی امدادی کشتیاں لوگوں کو محفوظ مقام پر لے جانے کے لیے تیس سے پینتیس ہزار روپے فی شخص کرایہ وصول کر رہی ہیں۔ یہ افسوسناک مناظر میڈیا میں آئے اور حامد میر نے بھی اپنے پروگرام کیپٹل ٹاک میں دکھائے، کہاں ہے حکومت اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے؟

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے نارووال میں متاثرہ علاقوں کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سیلاب نے ہمیں 30 سال پیچھے کر دیا ہے اور 500 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ سیلاب نے ہماری تیس سال کی محنت برباد کر دی ہے۔ سیلاب نے سڑکیں، پل اور گاؤں تباہ کر دیے ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ 2010 اور 2022 کے سیلاب میں سندھ کے عوام کس تکلیف دہ صورتحال سے گزرے ہوں گے۔ اور ان دو سیلابوں نے سندھ کی ترقی کو کتنے سال پیچھے کر دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ سیلاب نے پنجاب میں خریف کی فصل کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب کے 24 اضلاع میں ہزاروں مربع کلومیٹر اراضی زیر آب آچکی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی بڑھ رہا ہے۔ بالخصوص جنوبی پنجاب میں دہان کی 60 فیصد اورکپاس کی 35 فیصد فصل تباہ ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ اس میں باسمتی چاول کی فصل کا 20 فیصد بھی شامل ہے۔کسان بورڈ پاکستان کے اختر فاروق میو نے دعویٰ کیا ہے کہ کسانوں کو کپاس، چاول، تل، مکئی اور چارہ جات کی تباہی کی وجہ سے 536 ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کئی شہروں میں سبزیوں اور دیگر جلد خراب ہونے والی اجناس کی قلت پیدا ہوگئی ہے جو آئندہ خوراک کے بحران میں بدل سکتی ہے۔

پنجاب کے بعد سندھ میں آنے والے سیلابی پانی نے سکھر، کشمور، خیرپور، دادو اور دیگر اضلاع میں تباہی مچانا شروع کر دی ہے۔ کچی آبادیوں کے سینکڑوں دیہات زیر آب آگئے ہیں اور لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اس بات پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے اب تک بین الاقوامی امداد کی اپیل کیوں نہیں کی! اگر سندھ حکومت بندوں کی مرمت سمیت بروقت حفاظتی اقدامات کرتی تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ پیپلز پارٹی کا سیلاب متاثرین کے لیے 21 لاکھ گھر بنانے کے دعوے کو بھی تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا۔ کراچی سے کشمور تک سندھ کا حال بھی آپ کے سامنے ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن پہلے قومی رہنما ہیں جنہوں نے سیالکوٹ، گجرات، لاہور اور دیگر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے الخدمت فاؤنڈیشن کی امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا اور متاثرین کی تسلی کی۔ میڈیا اورمتاثرین سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت سیلاب کی تباہ کاریوں کو قدرتی آفت قرار دے کر اپنی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتی۔ یہ تباہی ظالموں کے ظلم کا نتیجہ ہے۔ سیلاب کی تباہی ہمارے حکمرانوں کی بے حسی اور نااہلی کے ساتھ ساتھ بھارت کی آبی دہشت گردی کا نتیجہ ہے۔ 40 سال تک پنجاب پر حکومت کرنے کے بعد مریم بی بی حیران ہیں کہ گجرات میں سیوریج کا نظام نہیں ہے۔ اسی طرح 40 سال سے سندھ پر حکومت کرنے والی پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پانی میرے گھر تک ٹینکرز کے ذریعے آتا ہے! یہ لوگ عوام کے مسائل کیسے حل کر یں گے؟؟ انہوںنے سیلاب کی صورتحال کے پیش نظر شدید مہنگائی، غذائی قلت اور زرعی بحران پیدا ہونے کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ اشیائے خورونوش ، کھاد، بیج اور زرعی ادویات پر سبسڈی کا اعلان کیا جائے۔

گزشتہ 78 سالوں سے ملک میں اقتدار کے مزے لینے والا حکمران ٹولہ چاہے وہ سول ہو یا فوجی یا بیوروکریسی، اپنے کاروبار یا اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے توطویل المدتی منصوبے بناتا ہے، لیکن جس ملک نے انھیں عزت، شہرت اور دولت دی، اس ملک اور قوم کی بہتری کے لیے سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے کی کوئی پرواہ نہیں۔ اگر حکومت کرپشن سے پاک منصوبہ بندی پر عمل درآمد کرتے ہوئے سیلاب سے پہلے چوکس رہتی، بندوں کی صحیح مرمت اور تجاوزات کا خاتمہ ہوتا تو عوام کو یہ مشکل دن نہ دیکھنا پڑتے۔حقیقت یہ ہے کہ ملک اس وقت بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمران طبقے کی نااہلی اور نااہلی کی وجہ سے ڈوبا ہوا ہے جس سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے حکمرانوں کو سیلاب وبارش سے ہونے والی جانی ومالی تباہی سے کوئی سبق حاصل کرنا چاہیئے۔ متاثرین کی دوبارہ آبادکاری ، زرعی اور ماحولیاتی ہنگامی حالات کے کھوکھلے اعلانات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس کے لیے روڈ میپ اور فریم ورک کا اعلان کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ کے 2010-2022 کے سیلاب متاثرین اب بھی پریشانی کا شکار ہیں۔ سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کے اعلان کے باوجود 80 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ کچھ سکول عمارتوں سے محروم ہیں جبکہ کچھ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اس لیے بار بار کے اعلانات سے ہٹ کر متاثرین کی امداد وبحالی اور سندھ کی تعمیر وترقی کے لیے کچھ عملی کام کرنا ہوں گے۔

ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے۔ سب سے پہلے تو اس مشکل وقت میں تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے مسائل کے حل کے بارے میں مشترکہ حکمت عملی بنانی چاہیے۔ سیاسی اور جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر شہروں میں سیوریج کے نالوں پر تجاوزات، دریا کے قدرتی راستوں پر بنائے گئے طاقتور لوگوں کے بنگلوں، فارم ہاؤسز اور سوسائٹیز کو ختم کیا جائے۔ جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں فوری طور پر متبادل حل تیار کیا جائے۔ دریائی پشتوں کی مرمت اور سیم نالوں کی صفائی کے لیے جاری کی گئی رقم اور کام کا جائزہ لیا جائے۔ دریا اور بارشوں کے سیلاب سمیت قدرتی آفات کی صورت میں خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو فعال اور مضبوط کیا جائے۔ حکومت الخدمت فاؤنڈیشن سمیت فلاحی خدمات کے اداروں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرے اور انہیں متاثرہ علاقوں میں تقسیم کرے تاکہ تمام متاثرین کو ریلیف اور بحالی کی سہولت فراہم کی جاسکے۔

متعلقہ مضامین

  • حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!
  • حکومت صحت کے نظام کو مضبوط بنانے کے لئے پرعزم ہے،سید مصطفی کمال
  • وفاقی وزیر اوورسیز پاکستانیز و ہیومن ریسورس ڈوویلپمنٹ چوہدری سالک حسین پاکستانی ورک فورس کی ایڈجسٹمنٹ کے لیے دنیا بھر کے ایمپلائرز کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے میں مصروف ہیں۔ خواجہ رمیض حسن
  • مریم نواز الیکٹرک بسوں کی افتتاحی تقریب کیلئے آج وزیر آباد جائیں گی 
  • پاکستان کی دہشتگردی کیخلاف جنگ اپنے لیے نہیں، دنیا کو محفوظ بنانے کیلیے ہے، عطا تارڑ
  • قطر پر حملہ؛ مسلم ملکوں کو بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے،اسحاق ڈار
  • چاروں صوبوں کی فلور ملز کا وفاقی حکومت سے بڑا مطالبہ
  • بطور ایٹمی طاقت پاکستا ن مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے ،کسی کو بھی پاکستان کی خود مختاری چیلنج نہیں کرنے دیں گے،اسحاق ڈار
  • ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے 300 یومیہ منصوبہ
  • اسرائیل کا تقاریر سے کچھ نہیں بگڑے گا، مسلم ممالک مشترکہ آپریشن روم بنائیں: ایران