مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کا ایک سال
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
فروری 2025 میں مسلم لیگ (ن) کی وفاقی اور پنجاب حکومتوں نے اپنا پہلا سال اپوزیشن کی شدید مخالفت کے باوجود آسانی سے مکمل کر لیا جس طرح 2018میں پی ٹی آئی کی وفاقی پنجاب و کے پی حکومتوں نے مکمل کیا تھا۔ دونوں کے دعوے تھے کہ ان کی حکومتیں اور بالاتر ایک صفحے پر ہیں۔
پی ٹی آئی کی تینوں حکومتوں میں صرف اس کے چیئرمین کی چلتی تھی اور تینوں حکومتوں میں اس کے وزیر اعظم خود کو مکمل خود مختار سمجھ کر من مانے فیصلے کرتے تھے اور انھوں نے پنجاب و کے پی میں اپنی مرضی کے وزرائے اعلیٰ مقرر کیے تھے جن کی کارکردگی پہلے چند ماہ ہی میں ظاہر ہوگئی جس پر خود پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں نے بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا مگر وزیر اعظم نے اپنے فیصلے پر دونوں کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا جس کی سزا دونوں صوبوں کے عوام نے بھگتی۔
موجودہ وفاقی حکومت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے باہمی تعاون سے قائم ہوئی جس میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کی طرح ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان عوامی پارٹی بھی شامل ہے اور ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں نے اہم عہدے آپس میں بانٹ رکھے ہیں اور وفاقی کابینہ میں کوئی غیر ملکی شامل نہیں جب کہ موجودہ وفاقی حکومت میں پی ٹی آئی شامل نہیں جب کہ جے یو آئی پہلے بھی اپوزیشن میں تھی اور اب بھی ہے۔
پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کی اپوزیشن مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کر رہی تھیں ۔ موجودہ حکومت کو پی ٹی آئی فارم 47 کی پیداوار قرار دیتی ہے اور جے یو آئی بھی سمجھتی ہے مگر وفاقی حکومت نے آئین میں جو 26 ویں ترمیم کی ہے اس کی منظوری جے یو آئی کے بغیر ممکن نہیں تھی جس پر جے یو آئی نے اپنی شرائط پر ترمیم منظورکرائی تھی جس سے پی ٹی آئی کو اپنی مرضی کا چیف جسٹس اور ججز نہیں مل سکے تھے۔
پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی واضح اکثریت کے باعث مضبوط حکومت ہے جس کی سربراہی پہلی بار ایک خاتون مریم نواز کے پاس ہے اور پی ٹی آئی اس کی اپوزیشن ہے جب کہ پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت مسلم لیگ (ق) کے دس ووٹوں کی مرہون منت تھی جس کو پی ٹی آئی نے اسپیکر پنجاب اسمبلی کا اہم عہدہ دے رکھا تھا جب کہ اب پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کا عہدہ مسلم لیگ (ن) کے پاس ہے جب کہ مسلم لیگ (ق) بھی پنجاب حکومت میں شامل ہے۔
البتہ گورنر پنجاب کا عہدہ پیپلز پارٹی کے پاس ہے اور وفاق میں پی پی کے صدر اور (ن) لیگ کے وزیر اعظم ہیں اور دونوں کے باہمی تعاون سے حکومت آئینی حدود میں چل رہی ہے جب کہ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم من مانیوں کے عادی تھے اور ان کے صدر مملکت کی حیثیت صدر مملکت کی نہیں ایک ’’ یس مین‘‘ کی تھی جن کو وزیر اعظم کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے تھے اور ملک میں وزیر اعظم ہی اصل طاقت تھے جو کابینہ کو بھی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ موجودہ وفاقی حکومت نے ایک سال کامیابی سے مکمل کیا ہے جو اس کے پراعتماد ہونے کا ثبوت ہے اور ایک سال گزار کر حکومت نے 21 مزید وزیر مقررکیے ہیں اور وہ اعتماد سے آگے بڑھ رہی ہے۔
پی ٹی آئی دور میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی اہمیت ایک ڈمی کی سی تھی جب کہ اب پنجاب میں برائے راست ایک خاتون مضبوط وزیر اعلیٰ ہیں جن کے چچا وزیر اعظم ہیں اور دونوں نے باہمی تعاون اور مشاورت سے ایک سال مکمل کیا ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت نے ایک سال میں جتنی شان دار کارکردگی دکھائی ہے باقی تین حکومتیں پنجاب جیسی کارکردگی نہیں دکھا سکیں اور وفاقی اور پنجاب حکومت نے اپنی ایک سالہ کارکردگی رپورٹ میڈیا کے ذریعے اپنے اپنے حامیوں کے سامنے پیش بھی کی ہے جب کہ ماضی کی پی ٹی آئی کی وفاقی و پنجاب حکومت میں ایسا نہیں ہوا تھا اور دونوں کی توجہ اپوزیشن کو کچلنے پر مرکوز رہی تھی۔
موجودہ وفاقی کابینہ میں پہلی بار محکمہ خزانہ اور داخلہ کی وزارتیں مسلم لیگ (ن) کے پاس نہیں جب کہ (ن) لیگ کے قائد کے خیال میں ان کے سمدھی ہی وزیر خزانہ بننے کے اہل ہیں اور مجبوری میں انھیں وزیر خارجہ بنایا گیا ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ کے باعث ملکی معیشت بہتر ہوئی ہے جب کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پی ڈی ایم کی حکومت میں تقریباً ایک سال وزیر خزانہ رہ کر صرف بلند و بانگ دعوے کیے تھے مگر معیشت میں کوئی بہتری نہیں آئی تھی۔
(ن) لیگ کی حکومت کے ایک سال میں موجودہ حکومت اپنے آٹھ ماہ میں ٹیکس ہدف حاصل کرانے میں ناکام رہی اور اس کا زور تنخواہ دار ملازمین سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصولی اور نئے ٹیکس دہندگان بڑھانے پر رہا مگر وہ مہنگائی عملی طور کم کرانے میں ناکام رہی۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں وزیر اعظم کا زیادہ زور غیر ملکی دوروں اور وزیر اعلیٰ پنجاب کا زیادہ زور پنجاب میں نئے ترقیاتی منصوبے اور عوام کی فلاح و بہبود کے کام شروع اور مکمل کرانے میں رہا اور اپنے وزیر اعظم سے کہیں آگے رہیں اور دونوں نے ایک سال میں صرف ڈی جی خان اور نارو وال میں عوامی جلسے کیے اور وزیر اعلیٰ پنجاب وزیر اعظم سے زیادہ متحرک رہیں اور انھوں نے پنجاب کے عوام کو ایک سال میں متعدد سہولتیں فراہم کرائیں عملی طور پر وفاقی حکومت عوام کو ایک سال میں کوئی ریلیف نہیں دے سکی۔
(ن) لیگ کی وفاقی حکومت اپنی پنجاب حکومت کی تقلید میں عوام کی فلاح کا کوئی منصوبہ نہ دے سکی، بس اڑان پاکستان کے منصوبے کا اعلان ضرور ہوا۔ مگر ملک کے بے بس عوام کی زندگی میں کوئی بہتری آئی نہ وہ اڑان کے قابل ہو سکے۔ وفاقی حکومت اگر پنجاب حکومت کی طرح متحرک ہوتی توکچھ تبدیلی ضرور نظر آتی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پی ٹی آئی کی وفاقی موجودہ وفاقی پنجاب حکومت وفاقی حکومت ایک سال میں وزیر اعلی حکومت میں اور دونوں جے یو آئی حکومت نے میں کوئی مسلم لیگ کی حکومت حکومت کی ہے جب کہ ہیں اور میں پی کے پاس ہے اور
پڑھیں:
مریم نواز سب سے زیادہ منصوبے شروع اور مکمل کرنیوالی وزیرِاعلیٰ، عظمیٰ بخاری
مریم نواز پنجاب کی سب سے زیادہ منصوبے شروع اور مکمل کرنیوالی وزیرِاعلیٰ، عظمیٰ بخاری
لاہور:(نیوز ڈیسک)وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز صوبے کی تاریخ میں سب سے زیادہ ترقیاتی منصوبے شروع کرنے اور مکمل کرنے والی وزیرِاعلیٰ ہیں۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب حکومت نے عوامی فلاح و بہبود کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں اور سیلاب متاثرین میں 10 ارب روپے تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مریم نواز کے فلاحی منصوبوں سے متعلق تفصیلات عوام تک پہنچائی جائیں گی۔
عظمیٰ بخاری نے بتایا کہ وہ آج پنجاب حکومت کے 16 منصوبوں پر تفصیل سے بات کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق پنجاب کے منصوبے ہر قسم کی کرپشن سے پاک ہیں، جبکہ مخالفین کے تو کلرکوں سے بھی اربوں روپے برآمد ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں اب ڈی سی، کمشنر اور اے سی کا ’’ریٹ‘‘ ختم ہو چکا ہے، بیوروکریسی کی کارکردگی کو کے پی آئی سسٹم کے تحت مانیٹر کیا جا رہا ہے۔
وزیر اطلاعات نے طنزیہ انداز میں خیبر پختونخوا حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کل کے پی میں نئی سائنسی ایجاد ہوئی، وزیراعلیٰ نے کوئی عینک لگائی، سمجھ نہیں آئی کہ سینسر لگا کر کیا کیا جا رہا ہے۔ کاش ایسی عینک بن جائے جو اڈیالہ کے مجاوروں کو کے پی کی محرومیاں، اسکول، اسپتال اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال دکھا سکے۔ اگر ایسی عینک بنانی ہو تو پنجاب حکومت مدد کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے پنجاب حکومت کے ’’ستھرا پنجاب پروگرام‘‘ کو تاریخ کا سب سے بڑا صفائی کا منصوبہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ستھرا پنجاب کے تحت ایک لاکھ 40 ہزار 400 ورکرز اور دو ہزار سے زائد افسران کام کر رہے ہیں، اب تک 94 لاکھ 4 ہزار ٹن ویسٹ ٹھکانے لگایا جا چکا ہے۔
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ ستھرا پنجاب اور الیکٹرک بس سروس عوام میں سب سے زیادہ پذیرائی حاصل کرنے والے منصوبے ہیں۔ الیکٹرک بسوں کا فیز ٹو شروع ہو چکا ہے جس کے تحت 200 نئی بسیں فراہم کی جا رہی ہیں، جبکہ فیز ٹو میں بہاولپور، راجن پور اور گجر خان سمیت کئی اضلاع کو بسیں دی جائیں گی۔
انہوں نے بتایا کہ چکوال، جہلم، بہاولنگر، جھنگ، راولپنڈی، رحیم یار خان اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی الیکٹرک بسیں متعارف کرائی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دسمبر تک پنجاب بھر کے 42 شہروں میں 1100 الیکٹرک بسیں فراہم کی جائیں گی۔
عظمیٰ بخاری کے مطابق روزانہ 8 لاکھ شہری الیکٹرک بسوں پر جبکہ 4 میٹرو بس سروسز کے ذریعے 9 لاکھ مسافر سفر کر رہے ہیں۔