غزہ ، قیدیوں کو حوالے کرنے کے مقامات پر اسرائیلی جاسوسی آلات
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
جاسوسی آلات اسرائیلی قیدیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے نصب
آلات ایسے علاقوں میں پکڑے گئے جہاں فعال مزاحمتی کارروائیوں کا مشاہدہ کیا گیا تھا
غزہ میں ایک فلسطینی سیکورٹی پلیٹ فارم نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی جاسوسی آلات پکڑے گئے ہیں۔ میڈیارپورٹس کے مطابق یہ آلات اسرائیلی قیدیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر نصب کیے گئے تھے ۔ جاسوسی کے آلات مختلف شکلوں میں چھپائے گئے تھے ۔ یہ مختلف ایسے علاقوں میں پکڑے گئے جہاں فعال مزاحمتی کارروائیوں کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔ خاص طور پر انہیں ایسے مقامات پر لگایا گیا تھا جہاں جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے میں اسرائیلی قیدیوں کی سات کھیپوں کی حوالگی ہوئی تھی۔پلیٹ فارم نے ایک سکیورٹی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ تکنیکی اور آپریشنل تجزیے کے مطابق تکنیکی ماہرین نے اندازہ لگایا کہ پکڑے گئے جاسوسی آلات چھوٹے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نصب کیے گئے تھے جو کواڈ کاپٹر کی طرح کے ہیلی کاپٹروں کو افطاری، سحری اور رات گئے کے اوقات میں چلانے اور ہدایت دینے کے لیے لگائے گئے تھے ۔اس پلیٹ فارم نے غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں سے یہ بھی کہا کہ وہ چوکس اور محتاط رہیں اور ضروری حفاظتی اقدامات پر عمل کریں۔ وقتا فوقتا گھروں، عمارتوں اور خیموں کی چھتوں پر تلاشی کی کارروائی کرتے رہیں۔ غیر محفوظ جگہوں کے اندر فوجی اور حفاظتی امور کے بارے میں بات نہ کریں۔ کسی بھی مشکوک چیز سے دور رہیں۔ مشکوک اشیا کے کے قریب بات نہ کریں اور فوری طور پر سکیورٹی کو اطلاع دیں۔پلیٹ فارم نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ ایک کواڈ کاپٹر نے معلومات اکٹھا کرنے کے مقصد سے شام کی نماز کے موقع پر نصیرات کیمپ میں القسام مسجد کے مینار پر پرواز کی۔اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدہ 19جنوری کو نافذ ہوا۔ جنگ بندی کا پہلا مرحلہ یکم مارچ کو ختم ہو گیا تھا۔ تل ابیب نے دوسرے مرحلے میں داخل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران بعد کے مراحل پر کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا ہے ۔ متوقع دوسرے مرحلے کی شرائط پر اب بھی بڑے اختلافات موجود ہیں۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
نیتن یاہو کا اعتراف: حماس کو کمزور کرنے کے لیے غزہ میں مسلح گروہوں کو فعال کیا
اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے پہلی بار اعتراف کیا ہے کہ ان کی حکومت نے غزہ میں مقامی مسلح گروہوں کو حماس کو کمزور کرنے کے لیے فعال کیا۔ سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ اقدام سیکیورٹی حکام کے مشورے پر کیا گیا۔
نیتن یاہو کا یہ بیان سابق وزیر دفاع ایویگڈور لیبرمین کی تنقید کے بعد سامنے آیا ہے، جنہوں نے اسرائیل کی اس خفیہ حکمت عملی کو عوامی طور پر چیلنج کیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق اسرائیلی حمایت یافتہ ایک گروہ "پاپولر فورسز" ہے، جس کی قیادت رفح کے یاسر ابو شباب کرتے ہیں۔ یہی گروہ GHF (غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن) کے تحت امدادی سامان کی تقسیم کے مراکز سے وابستہ ہے۔
GHF کی امدادی کارروائیاں حالیہ دنوں میں خونریز واقعات کے باعث معطل کر دی گئی تھیں۔ تنظیم نے جمعرات کو دو مراکز کو محدود طور پر کھولنے کا اعلان کیا، مگر خبردار کیا کہ لوگ اسرائیلی فوج کی مخصوص راہداریوں پر ہی آئیں، ورنہ وہ علاقے "جنگی زون" تصور کیے جا سکتے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق صرف منگل کے روز رفح میں GHF کے ایک مرکز کے قریب فائرنگ سے 27 فلسطینی شہید اور 90 زخمی ہوئے۔ ریڈ کراس نے بھی تصدیق کی کہ اتوار کو حملے میں 21 لاشیں اسپتال لائی گئیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے امدادی طلب گاروں کے قتل کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، جب کہ برطانیہ نے اسرائیل کے امدادی نظام کو "غیر انسانی" قرار دیا۔
غزہ میں جاری جنگ کے باعث اب تک 54,418 فلسطینی شہید اور 124,190 زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت میں نسل کشی کا مقدمہ بھی زیرِ سماعت ہے۔