ہجرت، نقل مکانی، آباد کاری وغیرہ وغیرہ
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
شروعات کرتے ہیں ایک خیال سے، اگرچہ بہت سے خیالات آپس میں جڑے ہوئے ہیں، ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں، واضح بھی ہیں، مگر کیا کیجیے کہ یہاں تو چیٹ جی پی ٹی پر پرامپٹ “سکھانے” کے بھی کورس نے نام پر 10 ہزار لیے جاتے ہیں۔ میں تو بس اپنے خیالات سامنے رکھ رہا ہوں۔
تو شروعات کرتے ہیں ایک خیال سےتقسیم کی نسبت اتحاد ایک مثبت تصور ہے۔ لکڑ ہارے کے بیٹوں کو لکڑی کا بنڈل تھمانے والی کہانی ایک اور فقط ایک ہی زاویے سے یہ بات ثابت کرنے پر زور دیتی تھی کہ اتحاد توڑے جانے کو روکتا ہے۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ اتحاد برقرار رکھنے کی ایسی تعلیم بجائے تقسیم کو روکنے کے، منقسم گروہ کو متحد رہ کر باقیوں سے مقابلے پر زیادہ آمادہ کرتی رہی۔
اتحاد البتہ فقط لڑنے بھڑنے ہی میں کارآمد ثابت نہیں ہوتا۔ امن و آشتی سے رہتے ہوئے بھی اتحاد کی افادیت کے لیے کئی خوبصورت دلائل موجود ہیں۔ اس ضمن میں ریاست آسٹریلیا کی مثال لیتے ہیں۔
ریاستی سطح پر آسٹریلیا کا یہ سوچا سمجھا فیصلہ ہے کہ ہمیں انسانی وسائل کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت کیوں ہے؟ اس لیے کہ ریاست مستقبل میں بہتر سے بہتری کی جانب گامزن رہنا چاہتی ہے۔ اس لیے کہ ریاست غیرآباد علاقوں کو آباد کر کے ترقی لانا چاہتی ہے۔ اس لیے کہ ریاست انسانی آباد کاری کے ذریعے ڈیمانڈ سپلائی کو بڑھا کر معیشت کا پہیہ تیز سے تیز تر چلانا چاہتی ہے۔ اس لیے کہ ریاست سمجھتی ہے ہنرمند افراد میں اضافہ ریاست کے مجموعی ٹیلنٹ میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے کہ ریاست انسانی تنوع کو مفید سمجھتی ہے۔ اس لیے کہ ریاست ٹیکس نیٹ میں زیادہ سے زیادہ افراد کو شامل کر کے تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات میں بہتری لانا چاہتی ہے۔
ایک پرت اور کھولتے ہیںآسٹریلیا میں سڈنی اور میلبرن سب سے بڑے اور انفراسٹرکچر کے حساب سے سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر ہیں۔ تیسرا بڑا شہر برسبین ہے۔ سڈنی، نیو ساؤتھ ویلز، میلبرن، وکٹوریا جب کہ برسبین، کوئینز لینڈ میں واقع ہے۔
نیو ساؤتھ ویلز، وکٹوریا اور کوئینز لینڈ تین states ہیں تاہم آسانی کے لیے آپ انہیں صوبوں کے مترادف سمجھ لیجیے۔ ان سٹیٹس میں 2 طرح کے علاقے ہیں۔ ایک ہے میٹروپولیٹن علاقہ جب کہ دوسرا ریجنل علاقہ۔
آپ میٹروپولیٹن کو شہر جب کہ ریجنل کو دیہات سمجھ لیجیے۔ میٹروپولیٹن علاقے گنجان آباد جب کہ ریجنل علاقے نسبتاً غیر آباد ہیں۔
ریاست کو اس بات کا ادراک ہے کہ دیہی علاقہ شہری علاقوں کی نسبت کم ترقی یافتہ ہے۔ کم ترقی یافتہ سے مراد ایسا نہیں کہ بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں۔ آبادی کم ہے لہذا جدید تفریحی مقامات کم ہیں، مالز اور تجارتی مواقع کم ہیں۔
ریاست کی پالیسی ہے کہ ان غیر گنجان آباد علاقوں کو زیادہ سے زیادہ آباد کیا جائے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ریاستی سطح پر آسٹریلیا کا یہ سوچا سمجھا فیصلہ ہے کہ ان علاقوں کو انسانی وسائل کی ضرورت ہے۔
یہ ضرورت کیوں ہے؟ اس لیے کہ ریاست ان علاقوں کو مستقبل میں بہتری کی جانب گامزن دیکھنا چاہتی ہے۔ اس لیے کہ ریاست ان غیر آباد علاقوں کو آباد کر کے یہاں ترقی لانا چاہتی ہے۔ اس لیے کہ ریاست انسانی آباد کاری کے ذریعے ڈیمانڈ سپلائی کو بڑھا کر ان علاقوں کی مقامی معیشت کا پہیہ تیز سے تیز تر چلانا چاہتی ہے۔ اس لیے کہ ریاست سمجھتی ہے ہنرمند افراد میں اضافہ ان علاقوں کے مجموعی ٹیلنٹ میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے کہ ریاست ان علاقوں میں انسانی تنوع کو مفید سمجھتی ہے۔ اس لیے کہ ریاست ان علاقوں کے ٹیکس نیٹ میں زیادہ سے زیادہ افراد کو شامل کر کے تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات میں بہتری لانا چاہتی ہے۔
ریاست اس کے لیے کیا کرتی ہے؟ریاست سب سے پہلے تو اپنی شہریت کو ایک حسین خواب جیسا ثابت کرتی ہے۔ کیسے؟ ریاست شہریت کے خواہش مند افراد کو بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دیتی ہے، بنیادی سے کہیں پڑھ کر سہولیات کا وعدہ کرتی ہے، ترقی کے مواقع فراہم کرتی ہے، امن و امان کو یقینی بناتی ہے، قانون کے اطلاق کو عملی طور پر نافذ کر کے دکھاتی ہے، ہائی سکول تک مفت اور اس کے بعد بغیر سود قرضے دستیاب کر کے تعلیم کا تسلسل فراہم کرتی ہے، دنیا بھر میں اپنے پاسپورٹ کو عزت و تکریم دلاتی ہے۔
لیکن اس کا غیر آباد علاقوں سے کیا تعلق؟تعلق یہ ہے کہ شہری آبادی کی بجائے ریاست شہریت یا مستقل سکونت اختیار کرنے کے لیے دیہی علاقوں میں آباد ہونے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ مگر کیسے؟
ریاست ہنرمند افراد کو پوائینٹ سسٹم کے تحت مستقل رہائش اور پھر شہریت کی راہ دکھاتی ہے۔ یہ کام آپ شہری علاقے میں رہ کر بھی کر سکتے ہیں اور دیہی علاقے میں رہ کر بھی، تاہم، ریاست دیہی علاقوں میں رہنے اور انہیں آباد کرتے ہوئے وہاں کی ترقی میں اضافہ کرنے کے بدلے آپ کو شہریت دینے میں کافی رعایت دے دیتی ہے۔
مثلاً permanent residence کے لیے اگر آپ ریجنل یا دیہی علاقوں کا رخ کرتے ہیں تو ریاست اس بات کی حوصلہ افزائی کے لیے آپ کو باقیوں کی نسبت 5 پوائینٹ اضافی دیتی ہے۔
اگر آپ ورک پرمٹ کے لیے اپلائی کرتے ہیں (جو بعد ازاں آپ کی مستقل سکونت کو پکا کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے) تو ریاست آپ کو اضافی 15 پوائینٹ دیتی ہے۔
ریاست دیہی علاقوں میں ورک پرمٹ بھی نسبتاً زیادہ دورانیے کے لیے دیتی ہے۔ ریاست دیہی علاقوں میں رہائش اختیار کرنے پر آپ کا ویزہ بھی نسبتاً جلدی پراسیس کرتی ہے۔ مزیدبرآں، دیہی علاقوں میں رہائش اختیار کرنا شہری علاقوں کی نسبت کافی سستہ بھی پڑتا ہے۔
یہ سب بتانے کا مقصد؟یہی کہ ترقی کو لے کر سنجیدہ ریاست اولاً تو آباد کاری کے ذریعے انسانوں کے مختلف گروہوں کو اکٹھا کر کے متحد کرنا ناصرف اچھا سمجھتی ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے۔
تو پھر آبادکاری ہمارے یہاں ایک منفی عمل کیوں سمجھا جاتا ہے؟اس لیے کہ ہم دودھ کے جلے تاحال کالونیلزم یا استعماری نظام کا ترجمہ “نو آبادیاتی نظام” کرنا ناصرف زیادہ بہتر سمجھتے ہیں بلکہ اسے ایک محدود تناظر میں بھی دیکھتے ہیں جس کے چکر میں ہم جدید دور میں آبادکاری کے مثبت اثرات کو نظرانداز کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حوصلہ شکنی بھی کرتے ہیں۔
کیوں؟ کیونکہ ہم آج تک نسل پرستی اور قومیت سے باہر نکلنے میں ناکام رہے ہیں۔
مثالیں لے لیتے ہیںپاکستان بن گیا۔ اب آپ اس پر ناچیں گائیں یا ماتم کریں، دنیا کے نقشے پر ایک ریاست تو قائم ہو گئی۔ ریاست جب قائم ہوچکی تو اصولاً اس کے اندرونی معاملات کو اب ریاست بطور اکائی ہی دیکھا جانا چاہیے تھا۔
ایسا ریاست چلانے والوں کی جانب سے بھی ہونا چاہیے تھا اور ریاست میں بسنے والوں کی جانب سے بھی۔ یعنی جب ریاست بن گئی تو اب پٹھان پنجابی بلوچی سندھی سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہونی چاہیے تھی کہ بطور پاکستانی ہم کیسے ترقی کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ایسا ہوا نہیں، نہ ریاست کی جانب سے، نہ ریاست میں بسنے والوں کی جانب سے۔
ریاست کی جانب سے یہ کیسے ہوا؟ریاست کا فرد کے ساتھ وہی رشتہ ہونا چاہیے کہ جس پر فخر کرتے ہوئے فرد ریاست کی شہریت کو نعمت سمجھے ناکہ سزا۔ ریاست البتہ مقامی باشندوں کو اپنی دھرتی پر وہ سب کچھ دینے میں کم و پیش ناکام رہی جو مل جانے پر شہریت فخر کا باعث بنتی ہے۔
ریاست میں بسنے والوں کی جانب سے یہ کیسے ہوا؟ایک بار جب ریاست بن گئی تو یہاں سے آگے ریاست کا ہر باشندہ پہلے پاکستانی کہلائے گا، بعد میں سندھی بلوچی پنجابی پٹھان۔ ہم نے کیا کیا؟ ہمارے اذہان میں نقل مکانی کی وجہ وہی نو آبادیاتی دور کی تخریب کاری پھنسی ہوئی ہے کہ جناب یہ تو استعمار کی جانب سے ڈیموگرافی کنٹرول کرنے کا طریقہ ہے، یہ مقامی معیشت پر شب خون مارنے کے مترادف ہے، یہ ہماری مقامی تہذیب کو ملیا میٹ کرنے کی سازش ہے، یہ ہمارے امن و امان کے خلاف منصوبہ ہے وغیرہ وغیرہ۔
بھائی کون سا استعمار؟ آپ کے خیال سے پنجابی استعمار نقل مکانی اور آباد کاری کے ذریعے مذکورہ بالا سازشیں کر رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پنجاب کے اندر باقی پاکستان سے نقل مکانی کون سا استعمال کر رہا ہے؟
اول تو ہر غیر آباد علاقے کو آباد کرنا ایک مثبت عمل ہے لیکن بالفرض اسے مان بھی لیا جائے تو پنجاب خود اس “منفی” عمل سے کتنا متاثر ہوا ہے؟
1996 تک قریب 10 لاکھ افراد دیگر صوبوں سے پنجاب میں آکر بسے۔ یہ کل بین الصوبائی نقل مکانی کا 44 فیصد بنتا ہے۔ سندھ میں یہ تعداد اعشاریہ سات سات ملین رہی۔1998 سے 2027 کے درمیان کراچی کی آبادی میں اضافے کی شرح ڈھائی فیصد رہی۔
جب کہ لاہور میں یہی شرح 4 اعشاریہ ایک فیصد رہی۔ اسی دورانیے میں کے پی کے تا پنجاب نقل مکانی 12.
ریاست کے صوبائی، وفاقی اور سب سے بڑھ کر بے نام کرتا دھرتا نااہل ہیں، اس حقیقت سے بھلا کون چشم پوشی کر سکتا ہے، لیکن ہم بطور عوام کتنے نااہل ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پوری دنیا میں غیر آباد علاقوں کو آباد کرنا، وہاں ڈائیورس آبادی کا بڑھنا، مقامی معیشت کو فروغ ملنا یہ سب مثبت عمل جانا جاتا ہے۔
جب کہ ہم آج تک غیر مقامی باشندوں کو بندوق کی نال پر یہ بتانے میں مصروف ہیں کہ یہ پہاڑ ہمارے ہیں لہذا یہاں آنے کی اجازت ہمارے علاوہ کسی کو نہیں؟
آپ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے کسی بھی شدھ رہائشی سے پوچھ کر دیکھ لیجیے۔ گھر کے سامنے کچرا خود خوب دلجمعی کے ساتھ پھینکیں گے، مگر شہر کے مسائل کا ذمہ دار سرائیکیوں اور پٹھانوں کو قرار دیں گے۔
بھائی، آپ کو لگتا ہے ہم نے 14 اگست کو کراچی کی سڑکوں پر “ٹیکسی” میں بیٹھے منہ میں ایک جانب “پیپسی” دوسری جانب گٹکا کھاتے مقامی لونڈے نہیں دیکھے؟
محنت کش کو بس تھوڑی سی سپیس چاہیے ہوتی ہے، وہ مل جائے تو مواقع وہ خود بنا لیتا ہے۔ ہڈ حرام نہیں ہوتے، لہذا جو کام ملے کر لیتے ہیں، بشمول جرائم کے۔ اگر نقل مکانی کرنے والا جرم کر رہا ہے تو جرم کی سزا تو قانوناً مقامی اور غیر مقامی دونوں باشندوں کے لیے ایک ہی ہے۔
آپ کے شہر میں سپیس تھی، اگلے آئے اور ٹرانسپورٹ کا کام سنبھال لیا۔ اسی کام میں اپنے گاؤں سے مزید لوگ بلوائے اور لگا لیے۔ مل جل کر محنت کی اور آگے بڑھ گئے۔ اس میں قباحت کیا ہے؟
میں 8 سال ابو ظہبی رہا ہوں۔ جب تک رہا وہاں ایک ہی ڈرائیونگ سکول تھا جس کے باہر ڈرائیونگ انسٹرکٹرز کی اکثریت پٹھانوں پر مشتمل تھی۔ کیا یہ غیر قانونی تھا؟ نہیں۔ اسی لیے پاکستان سے باہر بھی یہی پیٹرن رہا۔
آسٹریلیا میں ٹرانسپورٹ پر سکھ کمیونٹی کا اچھا خاصہ حصہ چھایا ہوا ہے۔ کیوں؟ محنت کرتے ہیں، سپیس ملتی ہے، پکڑ کر کام آگے بڑھاتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں جتنی ہو سکے۔ مسئلہ کیا ہے؟
سب سے زیادہ دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی بیرون ملک پاکستانی ہمیں آباد کاری و نقل مکانی کے خلاف لیکچر دیتا نظر آتا ہے۔
بھائی۔۔۔آپ تو خود میری طرح اپنا گھر، اپنی گلی، اپنا محلہ، اپنا علاقہ، اپنا شہر، اپنا ملک چھوڑ کر کسی اور جگہ مقیم ہیں۔ آپ کس منہ سے اس کے خلاف بات کر رہے ہیں؟
کبھی کے پی سے اٹھ کر پنجاب نقل مکانی کرنے والے کی جگہ خود کو رکھ کر سوچیے۔ ایک ایک اعتراض سامنے رکھیے اور پھر پہلے خود اپنا جواب دیجیے کہ آپ ان اعتراضات کے جواب کیسے دیں گے؟
بلوچ لبریشن آرمی نے حال ہی میں بتایا کہ یہ صوبہ ہمارا ہے۔ یہاں کے پہاڑ ہمارے ہیں۔ یہاں کی زمین ہماری ہے۔ تمہارے آنے سے ہزاروں سال پہلے ہم یہاں آئے۔ ہزاروں سالوں سے ہم یہاں بکریاں چرا رہے ہیں۔
ٹھیک ہے بھائی، آپ ہزاروں سال پہلے یہاں آئے۔ تب یہاں شاید کوئی نہ ہو۔ آپ نے زمین پکڑ لی۔ اسے اپنی ملکیت میں لے لیا۔ بھائی کتنی زمین چاہیے رہنے کے لیے؟ لے لو۔
باقی کی زمین پر کیسے وہ کلیہ لاگو کر رہے ہو جو خود یہاں پہنچنے پر اپنے اوپر لاگو نہ کیا؟ قانونی طور پر ممانعت نہیں ہے، معاشرتی طور پر نہیں ہے، مذہبی طور پر نہیں ہے۔۔ پھر کس بنیاد پر انسانی آباد کاری اور نقل مکانی کے مخالف ہو؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آباد کاری کے ذریعے اس لیے کہ ریاست ان والوں کی جانب سے دیہی علاقوں میں آباد علاقوں کو کو آباد کر ان علاقوں نقل مکانی کرتے ہیں کی حوصلہ افراد کو سے زیادہ ریاست کی کے ساتھ نہیں ہے دیتی ہے کرتی ہے کی نسبت کے لیے اس بات
پڑھیں:
فرانس فلسطینی ریاست کو جلد ہی تسلیم کر لے گا، ماکروں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جولائی 2025ء) فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے اعلان کیا کہ ان کا ملک جلدی ہی باضابطہ فلسطین کو بطور ایک ریاست کے تسلیم کر لے گا۔ ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں فرانس کے صدر نے کہا کہ اس کا باقاعدہ اعلان نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کیا جائے گا۔
فرانس دنیا کے بڑے صنعتی ممالک جی سیون گروپ کا ایک رکن ہے اور اگر اس نے اس پر عمل کیا تو وہ ایسا کرنے والا گروپ کا پہلا ملک ہو گا۔
اس گروپ میں فرانس کے ساتھ امریکہ، برطانیہ، اٹلی، جرمنی، کینیڈا اور جاپان بھی شامل ہیں۔ فرانسیسی صدر نے کیا کہا؟جمعرات کے روز ایکس پر اپنی ایک اور پوسٹ میں ماکروں نے لکھا: "مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور دیرپا امن کے لیے اپنے تاریخی عزم کے مطابق، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ فرانس فلسطین کی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔
(جاری ہے)
"
ان کا مزید کہنا تھا کہ "ہمیں حماس کو بھی غیر مسلح کرنے اور غزہ کو محفوظ بنانے نیز دوبارہ تعمیر کرنے کی بھی ضمانت دینی ہو گی۔
"انہوں نے کہا، "بالآخر ہمیں فلسطینی ریاست کی تعمیر کرنی ہے، اس پر عملداری کو یقینی بنانا چاہیے اور اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ اسے غیر مسلح کرنے کو تسلیم کیا جائے اور اسرائیل کو مکمل طور پر تسلیم کر لیا جائے۔ اس سے مشرق وسطیٰ میں تمام لوگوں کی سلامتی میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔"
فرانس کے صدر نے مزید لکھا: "آج فوری ضرورت غزہ میں جنگ کے خاتمے اور شہری آبادی کو بچانے کی ہے۔
امن ممکن ہے۔ ہمیں فوری جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ کے لوگوں کے لیے بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی ضرورت ہے۔"فرانس کے صدر نے اس سلسلے میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے نام ایک مکتوب بھی لکھا ہے، جس میں انہوں نے اپنے اس فیصلے کی تصدیق کی ہے۔
اعلان کا خیر مقدم کیاخبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ماکروں کے اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے عباس کے نائب حسین الشیخ نے کہا، "یہ موقف فرانس کی بین الاقوامی قانون اور فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت اور ہماری آزاد ریاست کے قیام کے لیے ان کی حمایت کی عکاسی کرتا ہے۔
"اسپین پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکا ہے اور ہسپانوی وزیر اعظم پیدرو سانچیز نے ماکروں کے اعلان کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے ایکس پر لکھا: "ہم سب کو مل کر اس چیز کی حفاظت کرنی چاہیے، جسے نیتن یاہو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دو ریاستی حل ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے۔"
سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے بھی ماکروں کے اعلان کو "تاریخی" قرار دیتے ہوئے اس کی تعریف کی اور دوسرے ممالک سے بھی اس کی پیروی کرنے کی اپیل کی ہے۔
آئرلینڈ کے وزیر خارجہ سائمن ہیرس نے ایکس پر ایک پوسٹ میں فرانس کے اس اقدام کو "اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے امن اور سلامتی کی واحد پائیدار بنیاد" قرار دیا۔
امریکہ اور اسرائیل نے مذمت کیامریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے فیصلے کو "لاپرواہی" قرار دیتے ہوئے فرانسیسی صدر کے اس اعلان پر اپنے رد عمل میں کہا کہ وہ " اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے منصوبے کو "سختی سے مسترد کرتے ہیں۔
"انہوں نے ایکس پر لکھا: "لاپرواہی پر مبنی یہ فیصلہ صرف حماس کے پروپیگنڈے کا کام کرتا ہے اور امن کو خراب کرتا ہے۔ یہ سات اکتوبر کے متاثرین کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔"
اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا: "سات اکتوبر کے قتل عام کے بعد ہم صدر ماکروں کے تل ابیب کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
"نیتن یاہو نے مزید کہا کہ "ان حالات میں ایک فلسطینی ریاست اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کے لیے ایک لانچ پیڈ ہو گی، نہ کہ اس کے ساتھ امن میں رہنے کے لیے۔۔۔"
اسرائیل کے نائب وزیر اعظم یاریو لیون نے بھی فرانس کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے "فرانس کی تاریخ پر سیاہ نشان اور دہشت گردی کی براہ راست مدد" قرار دیا۔
برطانیہ کا کیا کہنا ہے؟برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر کا کہنا ہے کہ وہ 25 جولائی جمعہ کے روز غزہ میں انسانی بحران کے حوالے سے فرانس اور جرمنی کے ساتھ "ہنگامی کال" کریں گے۔ اسٹارمر نے جنگ بندی اور "فلسطینی ریاست" کی طرف قدم اٹھانے کا مطالبہ بھی کیا۔
جمعرات کے روز انہوں نے ایک بیان میں کہا، "میں کل اپنے ای تھری (برطانیہ، جرمنی اور فرانس) کے شراکت داروں کے ساتھ ایک ہنگامی کال کروں گا، جہاں ہم اس بات پر تبادلہ خیال کریں گے کہ ہم ہلاکتوں کو روکنے کے لیے فوری طور پر کیا کر سکتے ہیں اور لوگوں کو وہ خوراک پہنچانے کی اشد ضرورت ہے جس کے وہ مستحق ہیں، ایک پائیدار امن کے قیام کے لیے تمام ضروری اقدامات کرتے ہوئے۔
"ان کا مزید کہنا تھا، "جنگ بندی ہمیں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے اور ایسے دو ریاستی حل کی راہ پر گامزن کرے گی، جو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے امن اور سلامتی کی ضامن ہو۔"
ادارت: جاوید اختر