ابو الکلام آزاد اسلامک اویکننگ سینٹر نئی دہلی کے صدر نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ کی مدد حاصل کریں اور ملکی احوال کیسے بھی ہوں صبر کا دامن نہ چھوڑیں۔ اسلام ٹائمز۔ ابو الکلام آزاد اسلامک اویکننگ سینٹر نئی دہلی کے صدر مولانا محمد رحمانی سنابلی مدنی نے کہ کہ مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اللہ کی اطاعت کو انجام دے اور پورے صبر و تحمل کے ساتھ اس راستہ پر ڈٹا رہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان اللہ کی معصیت کو ترک کرکے اللہ کی مقدر کردہ چیزوں پر صبر کرے اور اپنی ذات کو ہر برائی سے روکے رکھے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بھارت میں جو حالات چل رہے ہیں اور ہندو شرپسندوں نے جو اسلوب اختیار کر رکھا ہے ہر حالت میں صبر و تحمل اور دین کی طرف رجوع اور اللہ کی عبادت اور بالخصوص نماز کے ذریعہ اس کا سامنا کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم پر جو بھی مصائب اور مشکلات آتے ہیں یہ ہمارے اپنے کرتوت کا نتیجہ ہوتا ہے، اس لئے مصائب کے وقت سب سے پہلے ہمیں اپنے اعمال پر نظرثانی کرنی چاہیئے۔

مولانا محمد رحمانی مدنی نے ماہ رمضان میں مسلمانوں کے مساجد سے جڑنے کو خوش آئند قرار دیا، لیکن اپیل کی کہ مساجد کے حقوق کو بھی سمجھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان اللہ رب العالمین کے علاوہ کسی سے نہ ڈریں یہ وہ صفات ہیں جو مساجد کو آباد کرنے والوں کے اندر موجود ہونی چاہیئے، لہٰذا ہم رمضان المبارک میں صرف مساجد کو آباد نہ کریں بلکہ ان صفات کو پیدا کرکے آئندہ کے لئے بھی مساجد سے جڑے رہنے کا عزم مصمم کریں۔ مولانا محمد رحمانی نے مزید کہا کہ ماہ رمضان میں مسلمان قرآن مجید سے بھی اپنا رشتہ جوڑ لیں۔ انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ کی مدد حاصل کریں اور ملکی احوال کیسے بھی ہوں صبر کا دامن نہ چھوڑیں اور قانون کے دائرہ میں زندگی گزاریں۔ نیز مساجد کے اور قرآن مجید کے حقوق ادا کریں اور اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط رکھیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مولانا محمد رحمانی انہوں نے کہا کہ اللہ کی

پڑھیں:

بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن

اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دہشتگردی، کشمیر، فاٹا کے انضمام اور سود کے خاتمے سے متعلق حکومت کی پالیسیوں پر اپنے تحفظات اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا مسئلہ 11 ستمبر کے بعد نہیں بلکہ 40 سال سے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ علما کی جانب سے امریکا کے افغانستان پر قبضے کے باوجود پاکستان میں مسلح جدوجہد کو ناجائز قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوج نے مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف کئی آپریشن کیے، جن کی وجہ سے آج بھی لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اب دوبارہ لوگوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ شہر خالی کر دیے جائیں، اور سوال اٹھایا کہ جو لوگ افغانستان گئے تھے، وہ واپس کیسے آئیں گے۔ انہوں نے دہشتگردی کے خاتمے میں سیاسی ارادے کی کمی پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بھارت کو 4 گھنٹے میں شکست دے دی گئی لیکن دہشتگردی کو 40 سال سے شکست کیوں نہیں دی جا سکی۔

مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمن نے بھی 28 اگست کی ملک گیر ہڑتال کی حمایت کردی

کشمیر کے حوالے سے انہوں نے پاکستان کی پالیسی پر نکتہ چینی کی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کشمیر پر پاکستان مسلسل پیچھے ہٹتا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے کردار اور کشمیر کمیٹی کی صدارت کے حوالے سے کہا کہ انہیں کہا جاتا تھا کہ انہوں نے کشمیر کمیٹی کے لیے کیا کچھ کیا، لیکن اب کئی برس سے وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نہیں، تو سوال اٹھتا ہے کہ اب کیا کیا گیا؟

انہوں نے کشمیر کی 3 حصوں میں تقسیم، جنرل پرویز مشرف کے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھے ہٹنے کے فیصلے اور 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے پر قرارداد میں اس کا ذکر شامل نہ ہونے پر سوالات اٹھائے۔ فاٹا کے انضمام پر بھی حکومت کی حالیہ پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ فاٹا کے لوگوں پر فوج اور طالبان دونوں کے ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔

فلسطینی حماس کے رہنما خالد مشعل کے فون کال کا ذکر کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر پاکستان جنگ میں مدد نہیں کر سکتا تو کم از کم انسانی امداد میں کردار ادا کرے۔

مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی وعدے سے نہ پھرتی تو الیکشن بروقت ہو جاتے، مولانا فضل الرحمن

سود کے خاتمے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جمیعت علمائے اسلام نے 26ویں آئینی ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبردار کرایا اور مزید 22 نکات پر مزید تجاویز دیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے 31 دسمبر 2027 کو سود ختم کرنے کی آخری تاریخ دی ہے اور آئندہ یکم جنوری 2028 تک سود کا مکمل خاتمہ دستور میں شامل کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ اگر وہ اپنے وعدے پر عمل نہ کرے تو عدالت جانے کے لیے تیار رہیں کیونکہ آئندہ عدالت میں حکومت کا دفاع مشکل ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کوئی اپیل معطل ہو جائے گی، اور آئینی ترمیم کے تحت یکم جنوری 2028 کو سود کے خاتمے پر عمل درآمد لازمی ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بھارت جمیعت علمائے اسلام سود فلسطینی حماس کشمیر کشمیرکمیٹی ملی یکجہتی کونسل مولانا فضل الرحمن

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ نے "ادے پور فائلز" سے متعلق تمام عرضداشتوں کو دہلی ہائی کورٹ بھیجا، مولانا ارشد مدنی
  • صحافی وسعت اللہ خان کے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی اور ان کی کابینہ اراکین کے ماضی سے متعلق حیران کن انکشافات 
  • حمزہ علی عباسی کو حجاب سے متعلق متنازع بیان دینا مہنگا پڑگیا
  • امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کل اپنی والدہ کے آبائی ملک سکاٹ لینڈ کا نجی دورہ کریں گے
  • تحریک کا عروج یا جلسے کی رسم؟ رانا ثنا نے پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیا
  • پاکستان علما کونسل نے بلوچستان میں قتل خاتون کے والدین کے بیان کو قرآن و سنت کے منافی قرار دیدیا
  • بلوچستان میں قتل خاتون کے والدین کا بیان قرآن و سنت کے خلاف ہے، پاکستان علما کونسل
  • مدرسے کے استاد کے ہاتھوں طالبعلم کی ہلاکت درندگی کی انتہا ہے: چیف خطیب خیبر پختونخوا
  • پاکستان علماء کونسل نے بلوچستان میں قتل خاتون کے والدین کا بیان قرآن و سنت کے منافی قرار دیدیا
  • بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن