Daily Ausaf:
2025-07-26@00:15:54 GMT

القادر ٹرسٹ سے دانش یونیورسٹی تک کا سفر

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

کہانی کا آغاز 2019ء سے ہوتا ہے۔ ایک خواب تھا، ایک وعدہ تھا، اسلامی اور جدید علوم سے آراستہ تعلیمات پر مبنی ایک یونیورسٹی کا۔ یہ خواب پاکستان کے نوجوانوں کو اسلامی و جدید تعلیم اور تحقیق کے ذریعے دنیا کی صف اول میں لا کھڑا کرنے کا تھا۔ لیکن جلد ہی یہ خواب ایک ایسی کہانی میں بدل گیا جس کے پیچھے بددیانتی، کرپشن، اور کرپشن کے پیسے کی لوٹ مار چھپی ہوئی تھی۔ یہ کہانی ہے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ سے دانش یونیورسٹی تک کے سفر کی۔ سال 2019ء میں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری مانیکا کے نام پر القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ظاہری طور پر یہ ایک تعلیمی ادارہ تھا جو پاکستان کے نوجوانوں کو جدید اسلامی تعلیم فراہم کرنے کا وعدہ کرتا تھا۔ لیکن اس خواب کے پیچھے ایک اور کہانی چھپی ہوئی تھی۔ یہ کہانی تھی 190 ملین پائونڈز کی جو پاکستان کی عوام کا پیسہ تھا۔ یہ رقم برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے)نے پاکستان کو واپس کی تھی جو کرپشن کے ذریعے لوٹی گئی تھی اور پراپرٹی ٹائیکون کے ذریعے پاکستان سے برطانیہ منتقل کی گئی تھی۔اس رقم کا مقصد پاکستان کی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کرنا تھا۔ لیکن اس کے بجائے اسے خاموشی سے پراپرٹی ٹائیکون کی جانب سے سرکاری زمینوں پر قبضے پر جرمانے کی رقم کی مد میں سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں منتقل کر دیا گیا اور بدلے میں القادر یونورسٹی ٹرسٹ کی زمین اور عمارت حاصل کر لی گئی۔ یہ واردات ایک مقروض ملک کی عوام پر ڈالی گئی۔ ایسے وقت میں کیا گیا جب ملک میں غربت اور بے روزگاری اپنے عروج پر تھی۔ عوام کے پیسے کو ایک نجی ٹرسٹ میں منتقل کرانا نہ صرف اخلاقی طور پر غلط تھا بلکہ یہ قانونی طور پر بھی ایک سنگین جرم تھا۔باہوش وہی ہیں دیوانے الفت میں جو ایسا کرتے ہیںہر وقت انہی کے جلوئوں سے ایمان کا سودا کرتے ہیں جب یہ معاملہ میڈیا اور عدالتوں کی نظروں میں آیا تو پورے ملک میں ہلچل مچ گئی۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ، اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان اور پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کی ساری پلاننگ کھل کر سامنے آ چکی تھی۔ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی اس معاملے پر سوال اٹھایا کہ یہ رقم سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں کیسے پہنچی ؟ انہوں نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ کا اس رقم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بعد ازاں موجودہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس رقم کو قومی خزانے میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ نہ صرف انصاف کی بحالی کی طرف ایک اہم قدم تھا بلکہ یہ عوام کے حقوق کی بحالی کا بھی ایک واضح پیغام تھا۔ اب کہانی کا تیسرا موڑ شروع ہوتا ہے جو امید اور بحالی کی کہانی ہے۔ 190ملین پائونڈز کی رقم کو قومی خزانے میں واپس لانے کے بعد حکومت پاکستان نے اسے دانش یونیورسٹی کے قیام کے لئے مختص کر دیا۔ یہ یونیورسٹی اسلام آباد میں 100 ایکڑ رقبے پر تعمیر کی جا رہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے دانش یونیورسٹی کی سائٹ ریویو تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ یونیورسٹی پاکستان کے نوجوانوں کو جدید تعلیم اور تحقیق کے مواقع فراہم کرے گی۔دانش یونیورسٹی کا مرکزی نکتہ اپلائیڈ سائنسز ہوگا جہاں طلبہ کو جدید ترین سہولیات اور اساتذہ کی رہنمائی میں تعلیم دی جائے گی۔ دانش یونیورسٹی کا پہلا سیکشن 14 اگست 2026 ء تک فعال ہو جائے گا۔ اس یونیورسٹی کا مقصد نہ صرف بہترین تعلیمی معیار کو فروغ دینا ہے بلکہ یہ بھی کہ عالمی سطح پر انٹرنیشنل یونیورسٹیوں کے ساتھ تعلقات قائم کر کے پاکستانی طلبہ کو عالمی معیار کی تعلیم فراہم کی جائے۔
ایک نیا تعلیمی ادارہ، ایک نیا خواب جو نہ صرف پاکستان کے نوجوانوں کو علم کی روشنی دے گا بلکہ ملک کی معیشت اور ترقی کی راہوں کو بھی روشن کرے گا۔لیکن اگر ہم اس کہانی کو تھوڑا اور گہرائی سے دیکھیں تو ہمیں یہاں کچھ اور بھی نظر آتا ہے۔ یہ کہانی صرف ایک تعلیمی ادارے کی نہیں بلکہ ایمانداری اور بددیانتی کے درمیان ایک جنگ کی ہے۔ یہ کہانی ہے اس پیسے کی جو عوام کی امانت تھا جسے کچھ افراد نے اپنی ذاتی مفادات کے لیے ہڑپ کیا اور اب وہی پیسہ ایک نیا تعلیمی ادارہ بنانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔یہ کہانی ایک ایسی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے جسے ہم سب جانتے ہیں لیکن شاید کبھی ہم نے اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ شر میں سے بھی خیر نکال دیتا ہے۔بددیانتی کے اس عمل کے باوجود ایک نیا تعلیمی ادارہ جنم لے رہا ہے ۔دانش یونیورسٹی کا قیام نہ صرف ایک تعلیمی ادارے کی تعمیر ہے بلکہ یہ ایک پیغام ہے کہ پاکستان کا مستقبل روشن ہے۔ یہ یونیورسٹی نوجوانوں کو جدید تعلیم اور تحقیق کے ذریعے دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کا موقع فراہم کرے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف کے مطابق 14 اگست 2026 ء کو یونیورسٹی کا پہلا سیکشن فعال ہو جائے گا اور یہ دن پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوگا۔
القادر یونیورسٹی ٹرسٹ سے دانش یونیورسٹی تک کا یہ سفر دراصل ایمانداری اور بددیانتی کی ایک مکمل کہانی ہے۔ یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ کرپشن اور بددیانتی کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ آخرکار انصاف اور ایمانداری کی فتح ہوتی ہے۔ دانش یونیورسٹی کا قیام نہ صرف ایک تعلیمی ادارے کی تعمیر ہے بلکہ یہ ایک عہد ہے کہ پاکستان کا مستقبل روشن اور تابناک ہوگا۔ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیںوہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان کے نوجوانوں کو سے دانش یونیورسٹی دانش یونیورسٹی کا تعلیمی ادارہ ایک تعلیمی کہانی ہے یہ کہانی کے ذریعے ایک نیا بلکہ یہ کو جدید

پڑھیں:

’ہر شو میں ایک نئی کہانی ہوتی ہے‘، ندا یاسر کو پھر تنقید کا سامنا

اداکارہ و ٹی وی میزبان ندا یاسر ایک بار پھر اپنے مارننگ شو میں ملازمہ کی چوری کی کہانی سناتے ہوئے تنقید کا نشانہ بن گئیں۔

حال ہی میں ندا یاسر نے اپنے مارننگ شو میں اپنے گھر میں پیش آنے والے چوری کے واقعے کی تفصیلات بتائیں، ان کا کہنا تھا کہ جب میرے بچے چھوٹے تھے اور میں کوئی کام بھی نہیں کر رہی تھی تو بچوں کو اسکول لے کر جاتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ میری ایک دوست نے اپنے گھر پر کام کرنے والی ملازمہ کی بیٹی کو میرے گھر پر کام کے لیے رکھوا دیا۔ اس وقت میرے بچے پلے گروپ میں تھے اور مجھے اسکول کے باہر دو گھنٹے انتظار کرنا پڑتا تھا اور اس دوران گھر پر ان کی ملازمہ اکیلی ہوتی تھی۔

 ایک دن میری دوست نے کہا کہ میرے بچوں کا اسکول تمہارے گھر کے قریب ہے اور ملازمہ اسکول میں اکیلی بیٹھی رہتی ہے، اگر اجازت ہو تو وہ تمہارے گھر آکر اپنی بیٹی (ملازمہ) کے پاس وہ وقت گزار سکتی ہے جب تک بچوں کے اسکول کی چھٹی نہیں ہو جاتی تو میں نے اجازت دے دی۔

میزبان کے مطابق جب وہ اپنے بچوں کے ساتھ اسکول جاتیں تو گھر میں صرف ملازمہ اور اس کی ماں موجود ہوتی تھیں اور پورا گھر ان کے حوالے ہوتا۔ اس دوران وہ دونوں گھر سے قیمتی سامان چوری کرتی رہیں اور جب تک وہ ملازمہ ان کے گھر میں کام کرتی رہی، گھر سے خاصا سامان چوری ہوتا رہا جن میں کپڑے اور جیکٹس بھی شامل تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: کیا ڈرامہ ’جنت سے آگے‘ کی کہانی ندا یاسر کی ہے؟

ندا یاسر نے مزید کہا کہ ان سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے ملازمہ پر اندھا بھروسہ کیا اور دوسرا یہ کہ وہ اپنی سہیلی کو انکار بھی کر سکتی تھیں۔ اور اس وقت سمجھ آیا کہ آپ کو انکار آنا چاہیے۔ اب اگر میرے گھر کوئی کام کرتا ہے تو ملازمین کے گھر والوں کو اس وقت آنا منع ہے جب میں گھر پر نہ ہوں۔

سوشل میڈیا صارفین ندا یاسر کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بناتے نظر آئے ایک صارف نے کہا کہ ایک شو ندا صرف اکیلے کریں اور ہمیں بتائیں کے کتنی دفعہ ان کے گھر چوری ہوئی ہے۔ صارف نے کہا کہ ہر شو میں ایک نئی کہانی ہوتی ہے کہ ان کے گھر کیسے چوری ہوئی۔

ایک سوشل میڈیا صارف نے بدا یاسر کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ندا باجی کے گھر جتنی چوریاں ہوئی ہیں پورے کراچی میں نہیں ہوئیں۔ ثبور نامی صارف نے کہا کہ ندا یاسر کی باتیں سننے کے بعد سارے ملازمین کو گھر سے نکال کر خود جھاڑو پکڑ لینا چاہیے۔ جبکہ ایک صارف نے طنزاً کہا کہ ’ندا یاسر اور ان کے ملازموں کے کیوٹ قصے‘۔

یہ بھی پڑھیں: اداکارہ ندا یاسر کو بیرون ملک جا کر لپ اسٹک لگانا مہنگا پڑ گیا، سوشل میڈیا صارفین کی کڑی تنقید

واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی ندا یاسر نے بتایا کہ جب ان کے بیٹے بالاج کی پیدائش ہوئی تو انہوں نے ایک فلپائنی ملازمہ کو نوکری پر رکھا تاکہ گھر کے کاموں میں مدد مل سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اعتماد کا غلط فائدہ اٹھایا گیا، وہ ملازمہ موبائل فونز اور باہر سے خریدی گئی اشیا چوری کرتی رہی۔ ایک دن انہیں شک ہوا کہ ان کے پرس سے یوروز غائب ہوئے ہیں۔ یہی سے شک ہوا کہ ملازمہ چور ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ندا یاسر ندا یاسر چوریاں ندا یاسر ملازمہ

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں جدید اے آئی ریسرچ سینٹرز کے قیام پر پیش رفت
  • لاہور: پنجاب حکومت کا اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام، معیار تعلیم بلند کرنے کا فیصلہ
  • وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور احد خان چیمہ سے ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے اعلیٰ سطحی وفد کی ملاقات،دونوں اداروں کے درمیان اشتراک بارے بریفنگ دی
  • ’ندا یاسر نے وہی کیا جس کی ضرورت تھی‘، دانش نواز کو روسٹ کرنے پر اداکارہ درفشاں بھی خوش
  • امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی نے قانونی جنگ ختم کرنے اور وفاقی فنڈنگ پر ٹرمپ انتظامیہ سے ڈیل کر لی
  • وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت خصوصی اجلاس، تعلیمی اداروں میں اصلاحات اور معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کئی اہم فیصلے
  • سمی خان نے علیزہ شاہ اور منسا ملک کے جھگڑے کی اصل کہانی بتا دی
  • ’ہر شو میں ایک نئی کہانی ہوتی ہے‘، ندا یاسر کو پھر تنقید کا سامنا
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کا کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کا دورہ
  • حمیرا اصغر کی موت یا قتل؟ اسٹائلسٹ نے مزید تہلکہ خیز انکشافات کردیے