القادر ٹرسٹ سے دانش یونیورسٹی تک کا سفر
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
کہانی کا آغاز 2019ء سے ہوتا ہے۔ ایک خواب تھا، ایک وعدہ تھا، اسلامی اور جدید علوم سے آراستہ تعلیمات پر مبنی ایک یونیورسٹی کا۔ یہ خواب پاکستان کے نوجوانوں کو اسلامی و جدید تعلیم اور تحقیق کے ذریعے دنیا کی صف اول میں لا کھڑا کرنے کا تھا۔ لیکن جلد ہی یہ خواب ایک ایسی کہانی میں بدل گیا جس کے پیچھے بددیانتی، کرپشن، اور کرپشن کے پیسے کی لوٹ مار چھپی ہوئی تھی۔ یہ کہانی ہے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ سے دانش یونیورسٹی تک کے سفر کی۔ سال 2019ء میں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری مانیکا کے نام پر القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ظاہری طور پر یہ ایک تعلیمی ادارہ تھا جو پاکستان کے نوجوانوں کو جدید اسلامی تعلیم فراہم کرنے کا وعدہ کرتا تھا۔ لیکن اس خواب کے پیچھے ایک اور کہانی چھپی ہوئی تھی۔ یہ کہانی تھی 190 ملین پائونڈز کی جو پاکستان کی عوام کا پیسہ تھا۔ یہ رقم برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے)نے پاکستان کو واپس کی تھی جو کرپشن کے ذریعے لوٹی گئی تھی اور پراپرٹی ٹائیکون کے ذریعے پاکستان سے برطانیہ منتقل کی گئی تھی۔اس رقم کا مقصد پاکستان کی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کرنا تھا۔ لیکن اس کے بجائے اسے خاموشی سے پراپرٹی ٹائیکون کی جانب سے سرکاری زمینوں پر قبضے پر جرمانے کی رقم کی مد میں سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں منتقل کر دیا گیا اور بدلے میں القادر یونورسٹی ٹرسٹ کی زمین اور عمارت حاصل کر لی گئی۔ یہ واردات ایک مقروض ملک کی عوام پر ڈالی گئی۔ ایسے وقت میں کیا گیا جب ملک میں غربت اور بے روزگاری اپنے عروج پر تھی۔ عوام کے پیسے کو ایک نجی ٹرسٹ میں منتقل کرانا نہ صرف اخلاقی طور پر غلط تھا بلکہ یہ قانونی طور پر بھی ایک سنگین جرم تھا۔باہوش وہی ہیں دیوانے الفت میں جو ایسا کرتے ہیںہر وقت انہی کے جلوئوں سے ایمان کا سودا کرتے ہیں جب یہ معاملہ میڈیا اور عدالتوں کی نظروں میں آیا تو پورے ملک میں ہلچل مچ گئی۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ، اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان اور پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کی ساری پلاننگ کھل کر سامنے آ چکی تھی۔ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی اس معاملے پر سوال اٹھایا کہ یہ رقم سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں کیسے پہنچی ؟ انہوں نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ کا اس رقم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بعد ازاں موجودہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس رقم کو قومی خزانے میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ نہ صرف انصاف کی بحالی کی طرف ایک اہم قدم تھا بلکہ یہ عوام کے حقوق کی بحالی کا بھی ایک واضح پیغام تھا۔ اب کہانی کا تیسرا موڑ شروع ہوتا ہے جو امید اور بحالی کی کہانی ہے۔ 190ملین پائونڈز کی رقم کو قومی خزانے میں واپس لانے کے بعد حکومت پاکستان نے اسے دانش یونیورسٹی کے قیام کے لئے مختص کر دیا۔ یہ یونیورسٹی اسلام آباد میں 100 ایکڑ رقبے پر تعمیر کی جا رہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے دانش یونیورسٹی کی سائٹ ریویو تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ یونیورسٹی پاکستان کے نوجوانوں کو جدید تعلیم اور تحقیق کے مواقع فراہم کرے گی۔دانش یونیورسٹی کا مرکزی نکتہ اپلائیڈ سائنسز ہوگا جہاں طلبہ کو جدید ترین سہولیات اور اساتذہ کی رہنمائی میں تعلیم دی جائے گی۔ دانش یونیورسٹی کا پہلا سیکشن 14 اگست 2026 ء تک فعال ہو جائے گا۔ اس یونیورسٹی کا مقصد نہ صرف بہترین تعلیمی معیار کو فروغ دینا ہے بلکہ یہ بھی کہ عالمی سطح پر انٹرنیشنل یونیورسٹیوں کے ساتھ تعلقات قائم کر کے پاکستانی طلبہ کو عالمی معیار کی تعلیم فراہم کی جائے۔
ایک نیا تعلیمی ادارہ، ایک نیا خواب جو نہ صرف پاکستان کے نوجوانوں کو علم کی روشنی دے گا بلکہ ملک کی معیشت اور ترقی کی راہوں کو بھی روشن کرے گا۔لیکن اگر ہم اس کہانی کو تھوڑا اور گہرائی سے دیکھیں تو ہمیں یہاں کچھ اور بھی نظر آتا ہے۔ یہ کہانی صرف ایک تعلیمی ادارے کی نہیں بلکہ ایمانداری اور بددیانتی کے درمیان ایک جنگ کی ہے۔ یہ کہانی ہے اس پیسے کی جو عوام کی امانت تھا جسے کچھ افراد نے اپنی ذاتی مفادات کے لیے ہڑپ کیا اور اب وہی پیسہ ایک نیا تعلیمی ادارہ بنانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔یہ کہانی ایک ایسی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے جسے ہم سب جانتے ہیں لیکن شاید کبھی ہم نے اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ شر میں سے بھی خیر نکال دیتا ہے۔بددیانتی کے اس عمل کے باوجود ایک نیا تعلیمی ادارہ جنم لے رہا ہے ۔دانش یونیورسٹی کا قیام نہ صرف ایک تعلیمی ادارے کی تعمیر ہے بلکہ یہ ایک پیغام ہے کہ پاکستان کا مستقبل روشن ہے۔ یہ یونیورسٹی نوجوانوں کو جدید تعلیم اور تحقیق کے ذریعے دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کا موقع فراہم کرے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف کے مطابق 14 اگست 2026 ء کو یونیورسٹی کا پہلا سیکشن فعال ہو جائے گا اور یہ دن پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوگا۔
القادر یونیورسٹی ٹرسٹ سے دانش یونیورسٹی تک کا یہ سفر دراصل ایمانداری اور بددیانتی کی ایک مکمل کہانی ہے۔ یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ کرپشن اور بددیانتی کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ آخرکار انصاف اور ایمانداری کی فتح ہوتی ہے۔ دانش یونیورسٹی کا قیام نہ صرف ایک تعلیمی ادارے کی تعمیر ہے بلکہ یہ ایک عہد ہے کہ پاکستان کا مستقبل روشن اور تابناک ہوگا۔ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیںوہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان کے نوجوانوں کو سے دانش یونیورسٹی دانش یونیورسٹی کا تعلیمی ادارہ ایک تعلیمی کہانی ہے یہ کہانی کے ذریعے ایک نیا بلکہ یہ کو جدید
پڑھیں:
آئی سی سی نے ثناء میر کو ہال آف فیم میں شامل کرلیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے پاکستان ویمنز ٹیم کی سابق کپتان ثنا میر کو ہال آف فیم میں شامل کر لیا، یوں وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پاکستان کی پہلی خاتون کرکٹر بن گئی ہیں۔
آئی سی سی کی جانب سے پیر کے روز جاری کردہ اعلامیے کے مطابق سات نئے کرکٹرز کو ہال آف فیم کا حصہ بنایا گیا۔ اس سلسلے میں لندن کے ایبے روڈ اسٹوڈیوز میں ایک تقریب منعقد ہوئی، جہاں چیئرمین جے شاہ نے نئے ممبران کو خوش آمدید کہا۔
اس موقع پر اپنے تاثرات میں ثنا میر کا کہنا تھا کہ ہال آف فیم میں ان عظیم کھلاڑیوں کے ساتھ کھڑے ہونا، جنہیں وہ بچپن میں اپنا آئیڈل سمجھتی تھیں، ایک ایسا لمحہ ہے جس کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ انہوں نے اس اعزاز پر شکرگزاری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ امید رکھتی ہیں کہ اس کھیل کو کسی نہ کسی صورت میں کچھ واپس دے سکیں۔
ثنا میر نے اپنے محدود اوورز کے کیریئر میں مجموعی طور پر 240 وکٹیں حاصل کیں اور 2432 رنز بنائے۔
ان کے ساتھ ہال آف فیم میں شامل ہونے والے دیگر کھلاڑیوں میں آسٹریلیا کے میتھیو ہیڈن، جنوبی افریقا کے ہاشم آملہ اور گریم اسمتھ، بھارت کے ایم ایس دھونی، نیوزی لینڈ کے ڈینیئل ویٹوری اور انگلینڈ کی سارہ ٹیلر شامل ہیں۔