ٹرمپ کا 'وائس آف امریکہ' کو خاموش کرنے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 مارچ 2025ء) وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ایگزیکٹیو آرڈر "اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ٹیکس دہندگان اب بنیاد پرست پروپیگنڈے کو سننے کے لیے مجبور نہیں ہیں"۔ اس بیان میں سیاستدانوں اور دائیں بازو کے میڈیا کے ایسے بیانات شامل ہیں جس میں 'بائیں بازو کے متعصب وائس آف امریکہ' کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے 'خلیج امریکہ' نہ لکھنے پر صحافی کا داخلہ روک دیا
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وائس آف امریکہ (وی او اے)، ریڈیو فری ایشیا، ریڈیو فری یورپ اور دیگر آؤٹ لیٹس کے سینکڑوں عملے کو ہفتے کو ایک ای میل موصول ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں ان کے دفاتر جانے سے روک دیا جائے گا اور انہیں پریس پاسز اور دفتر سے جاری کردہ سامان واپس کر دینا چاہیے۔
(جاری ہے)
ٹرمپ پہلے ہی امریکی عالمی امدادی ایجنسی اور محکمہ تعلیم کی فنڈنگ روک چکے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا کہ فنڈنگ کا روکا جانا اس بات کا ضامن ہے'ٹیکس دینے والوں کو مجبور نہیں کیا جائے گا کہ وہ پروپیگنڈا کے لیے‘ پیسے دیں۔
امریکا میں مظاہرین کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی زیر عتاب
ارب پتی اور ٹرمپ کے اعلیٰ مشیر ایلون مسک، جو امریکی حکومت میں بڑے پیمانے پر کٹوتیوں کی نگرانی کر رہے ہیں، نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر وائس آف امریکہ کو بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
آٹھ دہائیوں میں پہلی مرتبہ ایسا حکموی او اے کے ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز نے کہا کہ وہ ان 1,300 افراد میں شامل ہیں جنہیں ہفتے کو چھٹی پر بھیجا گیا تھا۔
مائیکل ابرامووٹز کے مطابق، "مجھے دکھ ہے کہ 83 سالوں میں پہلے دفعہ وائس آف امریکہ کو خاموش کیا جا رہا ہے۔" انہوں نے کہا کہ اس حکم نے خاص طور پر آج کے دور میں وی او اے کو اپنے "اہم مشن کو انجام دینے میں ناکام بنا دیا ہے.
وائس آف امریکہ، دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس کے دنیا بھر میں کروڑوں صارفین ہیں اور یہ لگ بھگ 50 زبانوں میں سروسز فراہم کرتا ہے۔
خیال رہے کہ صدر کے حکمنامے میں دراصل وائس آف امریکہ کا ماتحت ادارہ یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا یا (یو ایس اے جی ایم) کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
یہ ادارہ ریڈیو فری یورپ اور ریڈیو فری ایشیا کو بھی فنڈ فراہم کرتا ہے جنھیں آغاز میں کمیونزم کے خلاف بنایا گیا تھا۔سی بی ایس نیوز نے بتایا کہ وائس آف امریکہ کو یو ایس اے جی ایم کی ہیومن ریسورسز ڈائریکٹر کرسٹل تھامس کی جانب سے کی گئی ای میل کے ذریعے مطلع کیا گیا۔
سی بی ایس کو ذرائع کی جانب سے بتایا گیا کہ ادارے کے تمام فری لانس ورکرز اور بین الاقوامی کانٹریکٹرز کو بتایا گیا ہے کہ اب انھیں ادا کرنے کے لیے ان کے پاس رقم نہیں ہے۔
ٹرمپ کے فیصلے پر تنقیدامریکی صدر اپنے پہلے دورِ اقتدار کے دوران وائس آف امریکہ پر سخت تنقید کرتے دکھائی دیتے تھے۔ ان کا تازہ فیصلہ ایسے وقت آیا ہے جب قدامت پسند حلقے ان نیوز سروسز پر تنقید کرتے رہے ہیں، جبکہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ادارے دنیا بھر میں آزاد صحافت کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
نیشنل پریس کلب، جو کہ امریکی صحافیوں کے لیے ایک سرکردہ نمائندہ گروپ ہے، نے ایک بیان میں کہا کہ یہ حکم "آزاد اور خودمختار پریس کے لیے امریکہ کے دیرینہ عزم کو کمزور کرتا ہے"۔
بیان میں کہا گیا ہے، "ایک پورے ادارے کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ختم کیا جا رہا ہے۔ یہ صرف عملے کو ہٹانے کا فیصلہ نہیں ہے- یہ وی او اے میں آزاد صحافت کے مستقبل کو خطرے میں ڈالنے والی ایک بنیادی تبدیلی ہے۔"
دریں اثنا جمہوریہ چیک کے وزیر خارجہ جان لیپاوسک نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ یورپی یونین ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کو پراگ میں چلانے میں مدد کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ پیر کو ہونے والی میٹنگ میں یورپی وزرائے خارجہ سے کہیں گے کہ وہ براڈکاسٹر کی کارروائیوں کو کم از کم جزوی طور پر برقرار رکھنے کے طریقے تلاش کریں۔
تدوین: صلاح الدین زین
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے وائس آف امریکہ میں کہا امریکہ کو ریڈیو فری نے کہا کہ رہے ہیں گیا تھا کے لیے گیا ہے
پڑھیں:
آئی سی سی ججوں پر امریکی پابندیاں نظام انصاف کے لیے نقصان دہ، وولکر ترک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 06 جون 2025ء) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے امریکی حکومت کی جانب سے عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے چار ججوں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے اقدام کو نظام انصاف کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دیا ہے۔
ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ یہ پابندیاں اپنے عدالتی فرائض انجام دینے والے ججوں پر حملہ اور قانون کی عملداری سمیت ان اقدار کی کھلی توہین ہیں جن کا امریکہ طویل عرصہ سے دفاع کرتا آیا ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے گزشتہ روز عدالت کے ان ججوں پر پابندیاں لگانے کا اعلان کیا تھا جو افغانستان میں امریکی اور افغان فوج کے ہاتھوں مبینہ جنگی جرائم سے متعلق 2020 کے مقدمے کی سماعت کر رہے ہیں اور جنہوں نے گزشتہ سال اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور اس وقت کے وزیردفاع یوآو گیلنٹ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
(جاری ہے)
یہ چاروں جج خواتین ہیں جن کا تعلق بینن، پیرو، سلوانیہ اور یوگنڈا سے ہے۔
فیصلہ واپس لینے کا مطالبہوولکر ترک کا کہنا ہےکہ عدالت کے ججوں پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ بے حد پریشان کن ہے۔ امریکہ کی حکومت اس پر فوری نظرثانی کرے اور اسے واپس لیا جائے۔
'آئی سی سی' کو دنیا بھرکے 125 ممالک تسلیم کرتے ہیں جس نے امریکہ کی حکومت کے اس فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے پابندیوں کو بین الاقوامی عدالتی ادارے کی خودمختاری کو کمزور کرنے کی کھلی کوشش قرار دیا ہے۔
عدالت کی جانب سے جاری کردہ بیان میں ان پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان سے سنگین ترین جرائم پر احتساب یقینی بنانے کی عالمی کوششوں کو نقصان ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، امریکہ کے اس فیصلے سے قانون کی عملداری کے لیے مشترکہ عزم، عدم احتساب کے خلاف جدوجہد اور قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظام کی بقا کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔