Express News:
2025-11-19@10:48:08 GMT

بھکاریوں کی یلغار

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

رمضان المبارک اختتام کے قریب پہنچ رہا ہے اور عید کی گہما گہمی شروع ہو رہی ہے۔ بازاروں میں رش بڑھ رہا ہے۔ لوگ عید کی شاپنگ شروع کر رہے ہیں۔ امیر و غریب سب ہی عید پر نئے کپڑے پہننے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انتہائی غربت کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ عید پر نئے کپڑے نہیں پہن سکتے۔

ان کی عید بھی ان کے ہر دن کی طرح ہی ہوتی ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد عید بھی محرومیوں کے ساتھ ہی مناتی ہے۔لیکن میں آج ایک ایسے طبقے کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ جو ویسے تو پورا سال ہی نظر آتا ہے۔ لیکن رمضان اور عید کی آمد پر شہروں میں اس کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے۔ یہ بھکاری ہیں۔ نہ جانے رمضان او ر عید میں اتنی بڑی تعداد میں بھکاری کہاں سے آجاتے ہیں۔ کون لوگ ہیں جو پورا سال تو نارمل زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن رمضان کی آمد کے ساتھ ہی یہ بھیک مانگنے کے لیے نکل آتے ہیں۔ سار اسال کہاں ہوتے ہیں، کیا کرتے ہیں؟۔ لیکن رمضان میں بھکاری بن جاتے ہیں۔

آجکل آپ سڑکوں پر دیکھیں تو بھکاریوں کی یلغار نظر آتی ہے۔ آپ کہیںگاڑی کھڑی کریں، موٹر سائیکل کھڑی کریں، پبلک ٹرانسپورٹ کے انتظار میں کھڑے ہوں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ بھکاریوں سے بچ سکیں۔ایک نہیں دو نہیں بلکہ بھکاریوں کا لشکر آپ پر حملہ آور ہوجائے گا ۔ یہ آپ سے ایسے پیسے مانگتے ہیں جیسے آپ نے ان کا ادھار دینا ہوں۔

آپ ان کے ڈیفالٹر ہیں۔ اگر آپ پیسے نہ دیں تو نہ صرف منہ بناتے ہیں۔ بلکہ کئی دفعہ برا بھلا بھی کہتے ہیں۔ پہلے پیسے مانگنے کے لیے دعا دیتے ہیں۔ اگر آپ نہ دیں تو بد دعا دیکر چلے جاتے ہیں۔ بد تمیزی بھی کرتے ہیں۔ اتنے بد تمیز فقیر آپ نے کہیں نہیں دیکھے ہوںگے۔ دیدہ دلیری سے مانگتے ہیں۔ بغیر شرمندگی کے مانگتے ہیں۔ دنیا میں کہیں آپ کو ایسے فقیر نہیں ملیں گے۔ یہ اپنی پہچا ن خود ہیں۔

ویسے تو پاکستان میں گداگری کو روکنے کے لیے قانون بھی موجود ہے۔ بھیک مانگنا جرم بھی ہے۔ کہنے کو تو قانون نافذ کرنے والے ادارے ان بھکاریوں کے خلاف ایکشن بھی کرتے ہیں۔ لیکن عملاً کچھ نظر نہیں آتا۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی قانونی رکاوٹ نہیں۔ بلکہ پاکستان میں بھکاری بننا قانوناً جائز ہے۔ بلکہ ا س کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔ اسی لیے ہمیں سڑکوں، چوراہوں، گلی محلوں میں کھلے عام بھکاری نظر آتے ہیں۔ ہر چوک، ہر ٹریفک سگنل پر بھکاریوں کا ایک گروپ موجود ہوتا ہے۔ جنھوں نے پلاننگ کے ساتھ سگنلز کو آپس میں تقسیم کیا ہوتا ہے۔ یہ آپس میں لڑتے نہیں ہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کون ان کے درمیان یہ تقسیم طے کرتا ہے۔ اور کون ان کے درمیان رولز آف گیم طے کرتا ہے۔

ایک عام رائے یہ ہے کہ بھکاریوں کا ایک نیٹ ورک ہے۔ آپ ایسے ہی کسی چوک میں کھڑے ہو کر مانگ نہیں سکتے۔ ہر چوک کسی نہ کسی کی ملکیت ہے۔ نیا بھکاری ویلکم نہیں کیا جاتاہے۔ کون ہے جو اس نیٹ ورک کو چلا رہا ہے۔

یہ بات قابل فہم ہے کہ انتظامیہ کی مدد اور تعاون کے بغیر یہ نیٹ ورک نہیں چل سکتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انتظامیہ کی مدد کے بغیر کوئی ا س طرح چوکوںپر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ کون ہے جو انتظامیہ میں ان کی پشت پناہی کرتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھکاریوں کا یہ نیٹ ورک اب صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔

سعودی عرب کو بھی اب ہم سے یہی شکایت ہے۔ عمرہ زائرین کی شکل میں اب بھکاری سعودی عرب جا رہے ہیں۔ سعودی حکومت کو پاکستان سے شکایت ہے کہ ہم بھکاری بھیج رہے ہیں۔ وہاں سب عبادت کرنے جاتے ہیں۔ صرف پاکستان سے بھکاری جاتے ہیں ۔ وہاں سب رب سے مانگ رہے ہوتے ہیں جب کہ پاکستانی بھکاری لوگوں سے مانگ رہے ہوتے ہیں۔ عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے۔پاکستان پر ویزوں کی پابندی لگ رہی ہے۔ یہ کوئی پاکستان کی نیک نامی نہیں ہے۔

اسی طرح متحدہ عرب امارات کو بھی پاکستانی بھکاریوں سے شکا یت ہے۔ ہم نے بھکاری دبئی بھی برآمد کرنے شروع کر دیے ہیں۔ دبئی کی سڑکوں پر بھی پاکستانی بھکاری نظر آنے لگے۔جس کی وجہ سے دبئی حکومت بھی کوئی خوش نہیں۔ ملائیشاء میں بھی پاکستانی بھکاریوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ آج عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان پاکستان کے بھکاری بن گئے ہیں۔ بچے سڑکوں پر مانگتے نظر آتے ہیں۔ بچیاں سڑکوں پر مانگتی نظر آتی ہیں۔ عالمی سطح پر پاکستان کی جگ ہنسا ئی ہو رہی ہے۔

یہ تو ممکن ہے کہ کوئی شدید ضرورت اور مجبوری میں ایک دفعہ مانگ لے۔ لیکن مانگنے کو پیشہ بنانا کیسے جائز ہے۔ پیشہ ور بھکاری کیا کسی رعایت کے مستحق ہیں۔ پاکستان میں بھیک مانگنے کو روکنے کے لیے قانون موجود ہے۔ لیکن جیسے اور کئی قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ویسے ہی بھکاریوں کے خلاف بنائے گئے قوانین پر بھی عمل نہیں ہوتا۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قانون پر عمل بھی کیا جائے۔ پاکستان میں بھکاریوں کے خلاف ایک بڑے کریک ڈاؤن کی ضرورت ہے۔

کھلے عام بھیک مانگنا جرم ہے اور اس جرم کو روکنا ہوگا۔ حالیہ دنوں میں خواجہ سرا ء بھی بڑی تعدادمیں بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ سڑکوں پر خواتین کے کپڑوں میں میک کیے یہ خواجہ سراء مانگتے نظر آتے ہیں۔ یہ بھی بد تمیز بھکاری ہیں۔ یہ لوگوں کو بہلاکر پھنساتے بھی ہیں۔ اور پھر ان کو لوٹتے بھی ہیں۔اب تو گھروں کی بیل دیکر بھی دیدہ دلیری سے بھیک مانگی جاتی ہے۔ آپ بیل پر گیٹ کھولتے ہیں کہ شاید کوئی مہمان آیا ہے۔ لیکن آگے آپ کی بھکاری سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ بھکاریوں کی آڑ میں مجرم بھی پھرتے ہیں۔ اور گھروں کی نگرانی کرتے ہیں۔

 پاکستان میں بھکاری کلچر پروان چڑھ چکا ہے ۔ اچھے خاصے لوگ مفت کا خیراتی راشن لینے کے لیے قطار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ اب تو دفاتر میں بھی یہ کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ ہم نے قوم کو کام کرنے کے بجائے مانگنے پر لگا دیا ہے۔ لوگ مانگتے ہیں کہ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ مانگنے کے بھی سیزن ہیں۔ رمضان اور عیدین اس کے بڑے سیزن ہیں۔ ویسے بھی آج کل بھیک میں کمائی زیادہ ہے۔ حکومت کو سڑکوں پر بھیک مانگنے پر پابندی لگانی چاہیے۔ کیونکہ اس وقت بھیک مانگنا ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ جو نہایت افسوسناک ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستانی بھکاری پاکستان میں نظر ا تے ہیں بھکاریوں کا میں بھکاری مانگتے ہیں پاکستان کی بڑی تعداد جاتے ہیں ہوتے ہیں سڑکوں پر کرتے ہیں میں بھی نیٹ ورک جاتی ہے رہا ہے رہی ہے یہ بھی

پڑھیں:

واویلا کیوں؟

دوستو! ایک سمسیا یہ ہے کہ افغان پناہ گزینوں کو جب بھی واپس بھیجنے کا اعلان ہوتا ہے، مہاجرین کا واویلہ تو سمجھ میںآتا لیکن پاکستانیوںکا ایک مخصوص گروپ پتہ نہیں کیوں بین ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔ بندہ پوچھے! غیرملکیوںکو ان کے اپنے وطن واپس بھیجا جا رہا ہے،کوئی کالا پانی کی سزا تو نہیں دی جا رہی،پھر پاکستانیوں کاایک گروپ کیوں ٹسوے بہا رہے ہیں۔

یورپ اورعرب ممالک آئے روز پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کرتے رہتے ہیں، اس پر تو کوئی احتجاج نہیں کرتا، کوئی واویلا نہیں ہوتا لیکن پاکستان اگر غیرملکیوں کونکالے تو ظلم ہے، زیادتی ہے کی دہائی شروع ہوجاتی ہے۔

افغانستان کی طالبان رجیم بھی کہتی ہے کہ پاکستان میں موجود افغانوں کو نہ نکالا جائے حالانکہ انھیں تو کھلے دل سے اعلان کرنا چاہیے کہ وہ پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی افغان بطور مہاجر یا پناہ گزین قیام پذیر ہیں ‘وہ فوری طور پر اپنے وطن واپس آ جائیں اور اپنے وطن کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالیں۔مگر افغانستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کی حکومت چاہتی ہے کہ جو لوگ افغانستان چھوڑ گئے ہیں وہ کبھی واپس نہ آئیں اور جو پاکستان یا کسی اور ملک میں پناہ گزین ہیں ‘وہ بھی واویلا کرتے ہیں کہ انھیں وطن واپس نہ بھیجا جائے ۔

 پاکستان واحد ملک نہیں ہے جو غیرملکی مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیج رہا ہے، ایران نے بھی افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے کیونکہ ایران بھی ان مہاجرین کی وجہ سے پیچیدہ معاشی اور سماجی مسائل کا شکار ہورہا ہے۔ پاکستان کومہمان نوازی کا خمیازہ دہشت گردی اور اسمگلنگ کی شکل میں بھگت رہا ہے ، پاکستان کی معاشرت اور معیشت متاثر نہیں بلکہ بحران زدہ ہو رہی ہے۔ ملک کا انفرااسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے۔منشیات فروشی، ڈاکا زنی، اغوا برائے تاوان ،دہشت گردوں کی سہولت کاری اور دیگر جرائم کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے ، افغان مہاجرین کی اچھی خاصی تعداد ایسے سنگین جرائم میں ملوث پائی گئی ہے ۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں ان کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت حکومت کے پاس موجود ہیں۔حال ہی میںوانا کیڈٹ اسکول اور اسلام آباد میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں افغان باشندے ملوث پاء گئے ہیں۔

متعدد پاکستانی باشندے بھی اس گھناؤنے جرم میں ملوث ہیں۔ یہ لوگ سادہ لوحی، لاعلمی، مالی لالچ،نسلی و لسانی عصبیت یا دیگر مفادات کے باعث سہولت کاری میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔ اس معاملے پرکسی قسم کی مفاہمت یا نرم رویہ اختیارکرنے کی ہرگزگنجائش نہیں نکلتی۔ کیونکہ یہ پاکستان کی سلامتی کا معاملہ ہے۔ افغانستان کے شہریوں کا پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں میں استعمال ہونا، ملک کی سالمیت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ افغان عبوری حکومت کو اس پہلو پر ضرور غورکرنا چاہیے کیونکہ شرپسند اور دہشت گرد عناصر افغانستان کے بھی ہمدرد نہیں ہیں۔

 پاکستان کالعدم ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے، داعش کیخراسان اور کالعدم ٹی ٹی پی کی سسٹر آرگنائزیشنز بھی پاکستان میں سرگرم ہیں۔ بلوچستان میں بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں اور ٹی ٹی پی کے درمیان گہرے اسٹرٹیجک تعلقات استوار ہوچکے ہیں۔ دونوں گروہ ایک دوسرے کے لیے سہولت کاری کررہے ہیں۔ پاکستان کے اندر سے بھی انھیں سہولت کار میسر ہیں۔ افغان طالبان دوحہ معاہدے کی شرائط پر بھی عمل نہیں کررہے ۔حالیہ استنبول مذاکرات کی ناکامی بھی سب کے سامنے ہے۔

 امریکا 2021میں اپنے انخلا کے وقت افغانستان میں اپنا جدید اسلحہ چھوڑ کر گیا تھا، ایک طرح سے یہ ہتھیار طالبان کے سپرد کیے گئے تھے ، افغان نیشنل آرمی کے پاس جو اسلحہ تھا، وہ بھی امریکا نے واپس نہیں لیا تھا، اس کی مالیت اربوں ڈالرز بنتی ہے، پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کئی وارداتوں میں یہ اسلحہ استعمال ہوا ہے ، افغانستان کی طالبان حکومت کے بڑوں کو اس حقیقت کا بخوبی علم ہے، پاکستان کی حکومت بھی انھیں حقائق سے آگاہ کرچکی ہے ، امریکا کے صدر ٹرمپ نے افغانستان سے کہہ رکھا ہے کہ وہ امریکی اسلحہ واپس کردے لیکن افغان طالبان اس حوالے سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگر افغان طالبان کی جانب سے من مانیوں اور دہشت گردوں کی حمایت کا سلسلہ اسی طرح بلا روک ٹوک جاری رہا توپھر ہمسایہ ممالک اقوام عالم کیسے خاموش بیٹھی رہی گی۔

سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ بی ایل اے اور افغانستان کے دہشت گرد دو الگ الگ گروپ ہیں مگر انھیں اکٹھا کون کررہا ہے؟، ٹریننگ دے کر، پیسے دے کر پاکستان کے خلاف اکٹھا کون کررہا ہے؟ اس حوالے سے بہت سے حقائق منظر عام پر بھی آچکے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین پر ٹی ٹی پی ، داعش، بی ایل اے وغیرہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں کھلے عام اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

پاکستان جغرافیائی طور پر ایسی جگہ واقع ہے جہاںمشرق میں بھارت ہے جو ہر وقت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھتا ہے جب کہ شمال مغرب میں افغانستان ہے جس کے ساتھ سیکڑوں کلومیٹر طویل سرحدی پٹی ہے جہاں پر باڑ لگانے کے باوجود افغان حکومت کی زیر سرپرستی در اندازیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔سب کو یاد ہے کہ گزشتہ برس 20 دسمبر کو بلوچستان میں سرگرم ایک کالعدم تنظیم کے کمانڈر سرفراز احمد بنگلزئی نے اپنے 72 ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔

اس وقت اس کمانڈر نے انکشاف کیا تھا کہ کس طرح بلوچستان کا امن تباہ کرنے کے لیے بھارت فنڈنگ کرتا ہے ، اس کے علاوہ مزاحمتی تحریک اور کالعدم تنظیمیں منشیات فروشی، بھتہ خوری کے علاوہ لوگوں کو اغوا بھی کرتی ہیں ۔ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان اس وقت مختلف چیلنجز سے گزر رہا ہے۔ گلوبل ٹیرر ازم انڈیکس 2025 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔ 2024میں کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستان میں 600 سے زائد حملے کیے، جس میں سیکڑوں بے گناہ شہریوں کا خون بہا اور پاکستان کو معاشی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ افغانستان کے صوبے کنڑ، ننگرہار، خوست اور پکتیکا میں تربیتی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔

پاکستان کی جانب سے افغانستان حکومت پر مسلسل اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں لیکن اس کے باوجود افغانستان کی عبوری حکومت نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ استنبول مذاکرات کی ناکامی بھی اسی وجہ سے ہے کیونکہ افغانستان کوئی تحریری ضمانت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

 اس وقت سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ملک میں ان دہشت گردوں کو جو لوگ سپورٹ کرتے ہیں، انھیں پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں، ان کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں، ان سب کو نہایت سرعت کے ساتھ بے نقاب کر کے عوام کے سامنے لایا جائے، جو نام نہاد ہمدرد حلقے افغان مہاجرین اور دیگر غیرملکیوں کی واپسی کے حوالے سے نرم رویہ اپنانے کی بات کرتے ہیں، تو کیا ایران سے افغان مہاجرین کو بیدخل نہیںکیا گیا ہے، کیا ایران نے نرمی برتی ہے؟ ایسا معاملہ جس سے پاکستان کی سالمیت، اس کی معیشت اور معاشرت کو نقصان ہورہا ہو، اس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں ہونی چاہیے۔

کسی ملک کے شہریوں کو ان کے اپنے ملک میں واپس بھیجنا کوئی ظلم یا زیادتی نہیں ہوتی۔افغان مہاجرین کو کسی دشمن ملک کے حوالے نہیں کیا جا رہا بلکہ ان کے اپنے ملک میں واپس بھیجا جا رہا ہے، افغان مہاجرین کو تو خوشی خوشی اپنے ملک واپس جانا چاہیے۔ سب کو یاد ہے کہ امریکا میں صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا تو انھوں نے بھی غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا حکم دیا تھا۔امریکی اداروں نے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑ کر غیر قانونی غیرملکیوں کو جہازوں پر لادا اور ان کے آبائی ملکوں میں روانہ کیا اور ان کے آبائی ملک سے ٹرانسپورٹیشن کا خرچہ بھی وصول کیا ہے۔

ہر ملک کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جو بہتر سمجھے وہ اقدام کرے۔افغانستان کے شہریوں کو سہولتیں فراہم کرنا، طالبان حکومت کی پہلی اور آخری ذمے داری ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انھیں جو حاکمیت کا حق حاصل ہے، وہ فرائض اور ذمے داریوں سے ماوراء ہے۔ ویسے بھی افغانستان میں اس وقت بقول افغان طالبان حکومت کے، امن و استحکام ہے، معیشت بہتر ہے، افغانستان کی کرنسی کی قدر پاکستانی روپے سے زیادہ ہے۔اب تو افغانستان نے پاکستان کے ساتھ ہر قسم کی تجارت بھی بند کر دی ہے ‘ایسا کرتے ہوئے یہ اعلان کیا گیا کہ ہم پاکستان کے ساتھ تجارت کے بغیر بھی گزارا کر سکتے ہیں۔لہٰذا اب تو پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے قیام کی تو گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔

متعلقہ مضامین

  • آئندہ 10 سال میں دنیا میں کوئی کینسر سے نہیں مرے گا لیکن پاکستان میں لوگ مررہے ہوں گے، وزیر صحت
  • تحریک انصاف کو نارمل زندگی کی طرف کیسے لایا جائے؟
  • واویلا کیوں؟
  • بھارت و افغانستان کا گٹھ جوڑ
  • جانوروں کے بھی حقوق ہیں لیکن اشرف المخلوقات کے بچوں کو سڑکوں پر کتے کاٹ رہے ہیں، لاہور ہائیکورٹ
  • دہلی دھماکوں کے بعد کشمیر میں خوف کا ماحول ہے، محبوبہ مفتی
  • ’’آئین نَو‘‘ سے ڈرنے اور ’’طرزِ کہن‘‘ پر اَڑنے والے
  • عرفان صدیقی کی زندگی کا سب بڑا راز
  • پاکستان کرکٹ ہمیشہ ناٹ آئوٹ
  • 27 ویں آئینی ترامیم آئین اور جمہوریت پر شب خون