Express News:
2025-08-17@06:40:29 GMT

بھکاریوں کی یلغار

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

رمضان المبارک اختتام کے قریب پہنچ رہا ہے اور عید کی گہما گہمی شروع ہو رہی ہے۔ بازاروں میں رش بڑھ رہا ہے۔ لوگ عید کی شاپنگ شروع کر رہے ہیں۔ امیر و غریب سب ہی عید پر نئے کپڑے پہننے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انتہائی غربت کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ عید پر نئے کپڑے نہیں پہن سکتے۔

ان کی عید بھی ان کے ہر دن کی طرح ہی ہوتی ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد عید بھی محرومیوں کے ساتھ ہی مناتی ہے۔لیکن میں آج ایک ایسے طبقے کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ جو ویسے تو پورا سال ہی نظر آتا ہے۔ لیکن رمضان اور عید کی آمد پر شہروں میں اس کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے۔ یہ بھکاری ہیں۔ نہ جانے رمضان او ر عید میں اتنی بڑی تعداد میں بھکاری کہاں سے آجاتے ہیں۔ کون لوگ ہیں جو پورا سال تو نارمل زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن رمضان کی آمد کے ساتھ ہی یہ بھیک مانگنے کے لیے نکل آتے ہیں۔ سار اسال کہاں ہوتے ہیں، کیا کرتے ہیں؟۔ لیکن رمضان میں بھکاری بن جاتے ہیں۔

آجکل آپ سڑکوں پر دیکھیں تو بھکاریوں کی یلغار نظر آتی ہے۔ آپ کہیںگاڑی کھڑی کریں، موٹر سائیکل کھڑی کریں، پبلک ٹرانسپورٹ کے انتظار میں کھڑے ہوں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ بھکاریوں سے بچ سکیں۔ایک نہیں دو نہیں بلکہ بھکاریوں کا لشکر آپ پر حملہ آور ہوجائے گا ۔ یہ آپ سے ایسے پیسے مانگتے ہیں جیسے آپ نے ان کا ادھار دینا ہوں۔

آپ ان کے ڈیفالٹر ہیں۔ اگر آپ پیسے نہ دیں تو نہ صرف منہ بناتے ہیں۔ بلکہ کئی دفعہ برا بھلا بھی کہتے ہیں۔ پہلے پیسے مانگنے کے لیے دعا دیتے ہیں۔ اگر آپ نہ دیں تو بد دعا دیکر چلے جاتے ہیں۔ بد تمیزی بھی کرتے ہیں۔ اتنے بد تمیز فقیر آپ نے کہیں نہیں دیکھے ہوںگے۔ دیدہ دلیری سے مانگتے ہیں۔ بغیر شرمندگی کے مانگتے ہیں۔ دنیا میں کہیں آپ کو ایسے فقیر نہیں ملیں گے۔ یہ اپنی پہچا ن خود ہیں۔

ویسے تو پاکستان میں گداگری کو روکنے کے لیے قانون بھی موجود ہے۔ بھیک مانگنا جرم بھی ہے۔ کہنے کو تو قانون نافذ کرنے والے ادارے ان بھکاریوں کے خلاف ایکشن بھی کرتے ہیں۔ لیکن عملاً کچھ نظر نہیں آتا۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی قانونی رکاوٹ نہیں۔ بلکہ پاکستان میں بھکاری بننا قانوناً جائز ہے۔ بلکہ ا س کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔ اسی لیے ہمیں سڑکوں، چوراہوں، گلی محلوں میں کھلے عام بھکاری نظر آتے ہیں۔ ہر چوک، ہر ٹریفک سگنل پر بھکاریوں کا ایک گروپ موجود ہوتا ہے۔ جنھوں نے پلاننگ کے ساتھ سگنلز کو آپس میں تقسیم کیا ہوتا ہے۔ یہ آپس میں لڑتے نہیں ہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کون ان کے درمیان یہ تقسیم طے کرتا ہے۔ اور کون ان کے درمیان رولز آف گیم طے کرتا ہے۔

ایک عام رائے یہ ہے کہ بھکاریوں کا ایک نیٹ ورک ہے۔ آپ ایسے ہی کسی چوک میں کھڑے ہو کر مانگ نہیں سکتے۔ ہر چوک کسی نہ کسی کی ملکیت ہے۔ نیا بھکاری ویلکم نہیں کیا جاتاہے۔ کون ہے جو اس نیٹ ورک کو چلا رہا ہے۔

یہ بات قابل فہم ہے کہ انتظامیہ کی مدد اور تعاون کے بغیر یہ نیٹ ورک نہیں چل سکتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انتظامیہ کی مدد کے بغیر کوئی ا س طرح چوکوںپر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ کون ہے جو انتظامیہ میں ان کی پشت پناہی کرتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھکاریوں کا یہ نیٹ ورک اب صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔

سعودی عرب کو بھی اب ہم سے یہی شکایت ہے۔ عمرہ زائرین کی شکل میں اب بھکاری سعودی عرب جا رہے ہیں۔ سعودی حکومت کو پاکستان سے شکایت ہے کہ ہم بھکاری بھیج رہے ہیں۔ وہاں سب عبادت کرنے جاتے ہیں۔ صرف پاکستان سے بھکاری جاتے ہیں ۔ وہاں سب رب سے مانگ رہے ہوتے ہیں جب کہ پاکستانی بھکاری لوگوں سے مانگ رہے ہوتے ہیں۔ عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے۔پاکستان پر ویزوں کی پابندی لگ رہی ہے۔ یہ کوئی پاکستان کی نیک نامی نہیں ہے۔

اسی طرح متحدہ عرب امارات کو بھی پاکستانی بھکاریوں سے شکا یت ہے۔ ہم نے بھکاری دبئی بھی برآمد کرنے شروع کر دیے ہیں۔ دبئی کی سڑکوں پر بھی پاکستانی بھکاری نظر آنے لگے۔جس کی وجہ سے دبئی حکومت بھی کوئی خوش نہیں۔ ملائیشاء میں بھی پاکستانی بھکاریوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ آج عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان پاکستان کے بھکاری بن گئے ہیں۔ بچے سڑکوں پر مانگتے نظر آتے ہیں۔ بچیاں سڑکوں پر مانگتی نظر آتی ہیں۔ عالمی سطح پر پاکستان کی جگ ہنسا ئی ہو رہی ہے۔

یہ تو ممکن ہے کہ کوئی شدید ضرورت اور مجبوری میں ایک دفعہ مانگ لے۔ لیکن مانگنے کو پیشہ بنانا کیسے جائز ہے۔ پیشہ ور بھکاری کیا کسی رعایت کے مستحق ہیں۔ پاکستان میں بھیک مانگنے کو روکنے کے لیے قانون موجود ہے۔ لیکن جیسے اور کئی قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ویسے ہی بھکاریوں کے خلاف بنائے گئے قوانین پر بھی عمل نہیں ہوتا۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قانون پر عمل بھی کیا جائے۔ پاکستان میں بھکاریوں کے خلاف ایک بڑے کریک ڈاؤن کی ضرورت ہے۔

کھلے عام بھیک مانگنا جرم ہے اور اس جرم کو روکنا ہوگا۔ حالیہ دنوں میں خواجہ سرا ء بھی بڑی تعدادمیں بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ سڑکوں پر خواتین کے کپڑوں میں میک کیے یہ خواجہ سراء مانگتے نظر آتے ہیں۔ یہ بھی بد تمیز بھکاری ہیں۔ یہ لوگوں کو بہلاکر پھنساتے بھی ہیں۔ اور پھر ان کو لوٹتے بھی ہیں۔اب تو گھروں کی بیل دیکر بھی دیدہ دلیری سے بھیک مانگی جاتی ہے۔ آپ بیل پر گیٹ کھولتے ہیں کہ شاید کوئی مہمان آیا ہے۔ لیکن آگے آپ کی بھکاری سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ بھکاریوں کی آڑ میں مجرم بھی پھرتے ہیں۔ اور گھروں کی نگرانی کرتے ہیں۔

 پاکستان میں بھکاری کلچر پروان چڑھ چکا ہے ۔ اچھے خاصے لوگ مفت کا خیراتی راشن لینے کے لیے قطار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ اب تو دفاتر میں بھی یہ کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ ہم نے قوم کو کام کرنے کے بجائے مانگنے پر لگا دیا ہے۔ لوگ مانگتے ہیں کہ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ مانگنے کے بھی سیزن ہیں۔ رمضان اور عیدین اس کے بڑے سیزن ہیں۔ ویسے بھی آج کل بھیک میں کمائی زیادہ ہے۔ حکومت کو سڑکوں پر بھیک مانگنے پر پابندی لگانی چاہیے۔ کیونکہ اس وقت بھیک مانگنا ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ جو نہایت افسوسناک ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستانی بھکاری پاکستان میں نظر ا تے ہیں بھکاریوں کا میں بھکاری مانگتے ہیں پاکستان کی بڑی تعداد جاتے ہیں ہوتے ہیں سڑکوں پر کرتے ہیں میں بھی نیٹ ورک جاتی ہے رہا ہے رہی ہے یہ بھی

پڑھیں:

کیا پاکستان میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کا احتساب شروع ہو گیا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اگست 2025ء) حال ہی میں پاکستان کے انسداد بدعنوانی کے ادارے 'نیب‘ نے ملک کے بڑے ہاؤسنگ منصوبوں کے مالک ہیں ملک ریاض کے ایک ایک قریبی رشتہ دار کی کچھ جائیدادیں نیلام کی ہیں۔ یہ نیلامی اس لیے کی گئی کیونکہ ملک ریاض اور ان کے رشتہ دار 190 ملین پاؤنڈز کے کیس میں پلی بارگین معاہدے کی رقم ادا کرنے میں ناکام رہے۔

اب تک گروپ کی دو جائیدادیں نیلام ہو چکی ہیں جبکہ مزید نیلامی کے لیے تیار ہیں۔ نیب میں ملک ریاض اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں قائم علی شاہ اور شرجیل میمن کے خلاف مقدمہ بھی درج ہے، جس کے مطابق وہ کراچی، راولپنڈی اور جنگلات کی زمینوں پر قبضے میں ملوث رہے۔
بحریہ ٹاؤن کے خلاف نیب ریفرنس، کرپشن کے خلاف جنگ یا ایک اور سیاسی محاذ
القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ قانونی تقاضے پورے کرتا ہے؟

زمینوں پر قبضے کے کیس میں پیش نہ ہونے پر جنوری میں احتساب عدالت نے ملک ریاض کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔

(جاری ہے)

وہ اس وقت متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں اور حکومتِ پاکستان نے ان کی حوالگی کے لیے یو اے ای حکومت سے رابطے کا اعلان کیا تھا۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں ملک ریاض، عمران خانکے شریک ملزم ہیں، جس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو ملک ریاض سے زمین تحفے میں لینے اور 190 ملین پاؤنڈز کے مالی معاملے میں سہولت دینے پر بالترتیب 14 اور 10 سال قید کی سزا ملی۔

یہ رقم سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی تھی، حالانکہ اسے حکومت کے اکاؤنٹ میں جمع ہونا چاہیے تھا۔

اسی طرح، زمین پر قبضے کے ایک کیس میں ملک ریاض نے سپریم کورٹ سے معاہدہ کیا کہ وہ کراچی کے ضلع ملیر میں بحریہ ٹاؤن کے قبضے میں موجود زمین کے عوض 460 ارب روپے ادا کریں گے۔ عدالت نے 2019ء میں یہ معاہدہ منظور کیا اور رقم کے لیے الگ اکاؤنٹ کھولا گیا، مگر بعد میں انہوں نے رقم ادا نہیں کی۔

کیا دیگر ہاؤسنگ سوسائٹیز کے خلاف بھی آپریشن ہو رہا ہے؟

ان تمام کارروائیوں کے دوران یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں ہاؤسنگ سیکٹر کی غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کوئی وسیع آپریشن شروع ہو چکا ہے یا یہ کارروائی صرف بحریہ ٹاؤن تک محدود ہے؟

معروف وکیل اور نیب کے سابق اسپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق کا کہنا ہے کہ ملک ریاض کی جائیدادوں کی نیلامی نیب کے قوانین کے حساب سے قانونی ہے کیونکہ انہوں نے ایک معاہدہ کیا تھا جس پر بعد میں عمل نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا، ’’یہ ایک الگ سوال ہے کہ کیا حکام کی یہ کارروائی تمام مالی بے ضابطگیوں میں ملوث اسکیموں کے خلاف بلا امتیاز ہو رہی ہے یا صرف ملک ریاض کے خلاف۔‘‘

یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ ڈی ایچ اے ویلی، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور بحریہ ٹاؤن کا مشترکہ منصوبہ تھا، جس کے زیادہ تر متاثرین آج تک پلاٹوں کے منتظر ہیں۔ نیب نے اس معاملے پر 2018ء میں انکوائری شروع کی، مگر نتیجہ تاحال سامنے نہیں آیا۔

لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے 2021ء میں ڈی ایچ اے کو لینڈ گریبنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ اس نے ہائیکورٹ کی زمین پر بھی قبضہ کیا ہے۔

پاکستان کے آڈیٹر جنرل کی 2022ء کی رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے نے کراچی-حیدرآباد (ایم-نائن) موٹروے کے ساتھ 785 کنال سرکاری زمین پر قبضہ کر رکھا ہے، جن میں بحریہ ٹاؤن کی 491 اور ڈی ایچ اے سٹی کی 294 کنال زمین شامل ہے۔

بظاہر صرف ملک ریاض کے خلاف کارروائی کی ایک وجہ ان کا القادر ٹرسٹ کیس میں شریک ملزم ہونا بھی بتائی جاتی ہے۔ بریگیڈیئر حارث نواز، سابق نگران وزیرِ داخلہ سندھ، کا کہنا ہے کہ دیگر ہاؤسنگ منصوبوں میں کرپشن ہو تو ان کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں، مگر موجودہ کارروائی ایک خاص کیس ہے کیونکہ وہ عمران خان کے ساتھ شریک ملزم ہیں۔ ان کے بقول، ’’ملک ریاض کو القادر ٹرسٹ کیس میں پیش ہونا چاہیے تھا۔

‘‘ پاکستان میں ہاؤسنگ سوسائٹیز میں کس طرح کی بے ضابطگیاں ہیں؟

پاکستان میں یہ عام تصور ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں اپنے وعدے پورے نہیں کرتیں۔ ہزارہا لوگ ایسی سوسائٹیوں سے متاثر ہیں جو عوام کو مالی نقصان پہنچا رہی ہیں، کچھ غیر موجود پلاٹ بیچ کر اور کئی وہ پلاٹ بیچ کر جن کی ترقیاتی کام مکمل نہیں کیے گئے۔ یہ مسئلہ صرف نجی سوسائٹیوں تک محدود نہیں بلکہ سرکاری اسکیمیں بھی غیر ضروری تاخیر کا شکار ہیں۔

اسلام آباد کے کئی سی ڈی اے سیکٹرز سالہا سال سے مکمل نہیں ہوئے اور پلاٹ مالکان کئی دہائیوں سے قبضے کے منتظر ہیں۔ ان میں ای-12، سی-14، سی-15 اور آئی-12 شامل ہیں، جبکہ ہاؤسنگ فاؤنڈیشن بھی کچھ اسکیمیں ترقی دینے میں ناکام رہی ہے، حالانکہ انہیں 10 سال سے زیادہ عرصہ پہلے فروخت کیا جا چکا ہے، جیسے اسلام آباد کے مضافات میں گرین انکلیو منصوبہ۔

کئی نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز ایسی ہیں جنہیں سی ڈی اے کے مطابق غیر قانونی قرار دیا گیا ہے لیکن وہ اب بھی کام کر رہی ہیں۔ سی ڈی اے نے حال ہی میں 99 سوسائٹیز کی ایک فہرست جاری کی ہے جنہیں غیر قانونی قرار دیا گیا ہے، اور یہ فہرست سی ڈی اے کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ غوری ٹاؤن اور فیصل ٹاؤن بھی اس فہرست میں شامل ہیں، اس کے باوجود ان میں تعمیراتی کام جاری ہے اور لوگ ان سوسائٹیز میں مکانات بھی بنا رہے ہیں۔

ریئل اسٹیٹ کے بزنس سے تعلق رکھنے والے اور کمیونٹی کے ایک نمائندہ سردار طاہر محمود کہتے ہیں، ''صرف لسٹ جاری کرنا اداروں کا کام نہیں بلکہ وہ ان ہاؤسنگ سوسائٹیز کو پنپنے کیوں دیتے ہیں کہ وہ لوگوں کا نقصان کر سکیں۔‘‘

متعلقہ مضامین

  • بونیر: خاندان کے 22 افراد سیلاب کی نذر، ’سمجھ نہیں آتا لاشیں دفنائیں یا ملبہ مزید کھنگالیں‘
  • آزادی کی حفاظت ہماری قومی ذمے داری
  • ملک میں زیادہ بارشوں کی پیشگوئی موجود تھی لیکن ہم سائنس کو سنجیدہ نہیں لیتے، ماہر ماحولیات
  • پی سی بی کی ناقص حکمت عملی؟ مینٹورز کی پوسٹ ختم لیکن تنخواہ برقرار
  • پرنس ہیری اور لیڈی ڈیانا کے ذوق میں کیا فرق تھا؟
  • معرکہ حق کا اعتراف ِ حق
  • عمران خان کے ٹائیگرز نے رات جاگ کر معرکہ حق پر مہم چلائی لیکن انہیں ایوارڈ نہیں دیا گیا: فیصل جاوید
  • یوم آزادی اور اس کے تقاضے
  • جس نے پاکستان کے ساتھ دشمنی کی اس کا بیڑہ غرق ہوگیا، اسحاق ڈار
  • کیا پاکستان میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کا احتساب شروع ہو گیا ہے؟