Express News:
2025-10-05@07:38:59 GMT

بھکاریوں کی یلغار

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

رمضان المبارک اختتام کے قریب پہنچ رہا ہے اور عید کی گہما گہمی شروع ہو رہی ہے۔ بازاروں میں رش بڑھ رہا ہے۔ لوگ عید کی شاپنگ شروع کر رہے ہیں۔ امیر و غریب سب ہی عید پر نئے کپڑے پہننے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انتہائی غربت کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ عید پر نئے کپڑے نہیں پہن سکتے۔

ان کی عید بھی ان کے ہر دن کی طرح ہی ہوتی ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد عید بھی محرومیوں کے ساتھ ہی مناتی ہے۔لیکن میں آج ایک ایسے طبقے کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ جو ویسے تو پورا سال ہی نظر آتا ہے۔ لیکن رمضان اور عید کی آمد پر شہروں میں اس کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے۔ یہ بھکاری ہیں۔ نہ جانے رمضان او ر عید میں اتنی بڑی تعداد میں بھکاری کہاں سے آجاتے ہیں۔ کون لوگ ہیں جو پورا سال تو نارمل زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن رمضان کی آمد کے ساتھ ہی یہ بھیک مانگنے کے لیے نکل آتے ہیں۔ سار اسال کہاں ہوتے ہیں، کیا کرتے ہیں؟۔ لیکن رمضان میں بھکاری بن جاتے ہیں۔

آجکل آپ سڑکوں پر دیکھیں تو بھکاریوں کی یلغار نظر آتی ہے۔ آپ کہیںگاڑی کھڑی کریں، موٹر سائیکل کھڑی کریں، پبلک ٹرانسپورٹ کے انتظار میں کھڑے ہوں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ بھکاریوں سے بچ سکیں۔ایک نہیں دو نہیں بلکہ بھکاریوں کا لشکر آپ پر حملہ آور ہوجائے گا ۔ یہ آپ سے ایسے پیسے مانگتے ہیں جیسے آپ نے ان کا ادھار دینا ہوں۔

آپ ان کے ڈیفالٹر ہیں۔ اگر آپ پیسے نہ دیں تو نہ صرف منہ بناتے ہیں۔ بلکہ کئی دفعہ برا بھلا بھی کہتے ہیں۔ پہلے پیسے مانگنے کے لیے دعا دیتے ہیں۔ اگر آپ نہ دیں تو بد دعا دیکر چلے جاتے ہیں۔ بد تمیزی بھی کرتے ہیں۔ اتنے بد تمیز فقیر آپ نے کہیں نہیں دیکھے ہوںگے۔ دیدہ دلیری سے مانگتے ہیں۔ بغیر شرمندگی کے مانگتے ہیں۔ دنیا میں کہیں آپ کو ایسے فقیر نہیں ملیں گے۔ یہ اپنی پہچا ن خود ہیں۔

ویسے تو پاکستان میں گداگری کو روکنے کے لیے قانون بھی موجود ہے۔ بھیک مانگنا جرم بھی ہے۔ کہنے کو تو قانون نافذ کرنے والے ادارے ان بھکاریوں کے خلاف ایکشن بھی کرتے ہیں۔ لیکن عملاً کچھ نظر نہیں آتا۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی قانونی رکاوٹ نہیں۔ بلکہ پاکستان میں بھکاری بننا قانوناً جائز ہے۔ بلکہ ا س کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔ اسی لیے ہمیں سڑکوں، چوراہوں، گلی محلوں میں کھلے عام بھکاری نظر آتے ہیں۔ ہر چوک، ہر ٹریفک سگنل پر بھکاریوں کا ایک گروپ موجود ہوتا ہے۔ جنھوں نے پلاننگ کے ساتھ سگنلز کو آپس میں تقسیم کیا ہوتا ہے۔ یہ آپس میں لڑتے نہیں ہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کون ان کے درمیان یہ تقسیم طے کرتا ہے۔ اور کون ان کے درمیان رولز آف گیم طے کرتا ہے۔

ایک عام رائے یہ ہے کہ بھکاریوں کا ایک نیٹ ورک ہے۔ آپ ایسے ہی کسی چوک میں کھڑے ہو کر مانگ نہیں سکتے۔ ہر چوک کسی نہ کسی کی ملکیت ہے۔ نیا بھکاری ویلکم نہیں کیا جاتاہے۔ کون ہے جو اس نیٹ ورک کو چلا رہا ہے۔

یہ بات قابل فہم ہے کہ انتظامیہ کی مدد اور تعاون کے بغیر یہ نیٹ ورک نہیں چل سکتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انتظامیہ کی مدد کے بغیر کوئی ا س طرح چوکوںپر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ کون ہے جو انتظامیہ میں ان کی پشت پناہی کرتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھکاریوں کا یہ نیٹ ورک اب صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔

سعودی عرب کو بھی اب ہم سے یہی شکایت ہے۔ عمرہ زائرین کی شکل میں اب بھکاری سعودی عرب جا رہے ہیں۔ سعودی حکومت کو پاکستان سے شکایت ہے کہ ہم بھکاری بھیج رہے ہیں۔ وہاں سب عبادت کرنے جاتے ہیں۔ صرف پاکستان سے بھکاری جاتے ہیں ۔ وہاں سب رب سے مانگ رہے ہوتے ہیں جب کہ پاکستانی بھکاری لوگوں سے مانگ رہے ہوتے ہیں۔ عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے۔پاکستان پر ویزوں کی پابندی لگ رہی ہے۔ یہ کوئی پاکستان کی نیک نامی نہیں ہے۔

اسی طرح متحدہ عرب امارات کو بھی پاکستانی بھکاریوں سے شکا یت ہے۔ ہم نے بھکاری دبئی بھی برآمد کرنے شروع کر دیے ہیں۔ دبئی کی سڑکوں پر بھی پاکستانی بھکاری نظر آنے لگے۔جس کی وجہ سے دبئی حکومت بھی کوئی خوش نہیں۔ ملائیشاء میں بھی پاکستانی بھکاریوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ آج عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان پاکستان کے بھکاری بن گئے ہیں۔ بچے سڑکوں پر مانگتے نظر آتے ہیں۔ بچیاں سڑکوں پر مانگتی نظر آتی ہیں۔ عالمی سطح پر پاکستان کی جگ ہنسا ئی ہو رہی ہے۔

یہ تو ممکن ہے کہ کوئی شدید ضرورت اور مجبوری میں ایک دفعہ مانگ لے۔ لیکن مانگنے کو پیشہ بنانا کیسے جائز ہے۔ پیشہ ور بھکاری کیا کسی رعایت کے مستحق ہیں۔ پاکستان میں بھیک مانگنے کو روکنے کے لیے قانون موجود ہے۔ لیکن جیسے اور کئی قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ویسے ہی بھکاریوں کے خلاف بنائے گئے قوانین پر بھی عمل نہیں ہوتا۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قانون پر عمل بھی کیا جائے۔ پاکستان میں بھکاریوں کے خلاف ایک بڑے کریک ڈاؤن کی ضرورت ہے۔

کھلے عام بھیک مانگنا جرم ہے اور اس جرم کو روکنا ہوگا۔ حالیہ دنوں میں خواجہ سرا ء بھی بڑی تعدادمیں بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ سڑکوں پر خواتین کے کپڑوں میں میک کیے یہ خواجہ سراء مانگتے نظر آتے ہیں۔ یہ بھی بد تمیز بھکاری ہیں۔ یہ لوگوں کو بہلاکر پھنساتے بھی ہیں۔ اور پھر ان کو لوٹتے بھی ہیں۔اب تو گھروں کی بیل دیکر بھی دیدہ دلیری سے بھیک مانگی جاتی ہے۔ آپ بیل پر گیٹ کھولتے ہیں کہ شاید کوئی مہمان آیا ہے۔ لیکن آگے آپ کی بھکاری سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ بھکاریوں کی آڑ میں مجرم بھی پھرتے ہیں۔ اور گھروں کی نگرانی کرتے ہیں۔

 پاکستان میں بھکاری کلچر پروان چڑھ چکا ہے ۔ اچھے خاصے لوگ مفت کا خیراتی راشن لینے کے لیے قطار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ اب تو دفاتر میں بھی یہ کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ ہم نے قوم کو کام کرنے کے بجائے مانگنے پر لگا دیا ہے۔ لوگ مانگتے ہیں کہ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ مانگنے کے بھی سیزن ہیں۔ رمضان اور عیدین اس کے بڑے سیزن ہیں۔ ویسے بھی آج کل بھیک میں کمائی زیادہ ہے۔ حکومت کو سڑکوں پر بھیک مانگنے پر پابندی لگانی چاہیے۔ کیونکہ اس وقت بھیک مانگنا ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ جو نہایت افسوسناک ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستانی بھکاری پاکستان میں نظر ا تے ہیں بھکاریوں کا میں بھکاری مانگتے ہیں پاکستان کی بڑی تعداد جاتے ہیں ہوتے ہیں سڑکوں پر کرتے ہیں میں بھی نیٹ ورک جاتی ہے رہا ہے رہی ہے یہ بھی

پڑھیں:

کراچی میں پارکنگ تنازع؛ حکومت کریں لیکن کام تو کسی قانون کے تحت کریں، سندھ ہائیکورٹ

کراچی:

سندھ ہائی کورٹ نے پارکنگ تنازع سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ حکومت کریں لیکن کام تو کسی قانون کے تحت کریں۔

نجی ڈپارٹمنٹل اسٹور کی مختلف برانچز سے چارجڈ پارکنگ کی وصولی کے تنازع سے متعلق درخواست پر سندھ ہائیکورٹ نے  درخواست گزار کو کیس واپس لینے کے لیے مہلت دیدی۔

دورانِ سماعت درخواستگزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ کے ایم سی نے راشد منہاس روڈ پر اسٹور کو پارکنگ کی اجازت دی تھی، کے ایم سی کو ماہانہ بنیاد پر پارکنگ کی مد میں ادائیگی کرتے ہیں اور اب  گلشن اقبال ٹاؤن نے بھی پارکنگ و دیگر کی مد میں ادائیگی کا چالان بھیجا ہے۔ کراچی وسطی کی ٹاؤن انتظامیہ نے بھی پارکنگ کی ادائیگی کا نوٹس دیا ہے۔

عدالت نے پارکنگ کے لیے سڑک مختص کرنے پر اظہار برہمی کیا۔ جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے کہ سڑک پر پارکنگ کی کس طرح اجازت دی جاسکتی ہے؟ حکومت کرنا ہے کریں لیکن کسی قانون کے تحت تو کام کریں۔

جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے کہ عدالت کوئی حکم دیتی ہے تو حکومت کہتی ہے کام نہیں کرنے دیا جارہا۔ یہ رحجان ہوگیا ہے کہ اِدھر عدالت آرڈر کرتی ہے اُدھر کوئی حکومتی معاملات میں رکاوٹ کا شور شروع ہو جاتا ہے۔

عدالت نے کہا کہ یہ کے ایم سی اور ٹاؤنز کے درمیان تنازع ہے، خود بیٹھ کر کیوں حل نہیں کرتے؟عدالت نے درخواستگزار کو کیس واپس لینے کے لیے مہلت دیدی۔

متعلقہ مضامین

  • کبریٰ خان نے شادی کی پیشکش ٹھکرادی تھی لیکن میں نے ہار نہیں مانی، گوہر رشید
  • آج شام میں انتخابات ہو رہے ہیں لیکن عوام کے بغیر
  • ہم لداخی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، انہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے، روح اللہ مہدی
  •  پاکستان میں چہرے بدلے لیکن ترقی نہیں ہوئی: مفتاح اسماعیل
  • سب سے مل آؤ مگر…
  • یہ کووڈ نہیں، پریشان نہ ہوں بس علامات کا فرق جانیں
  • آزاد کشمیر میں مظاہرین کے مطالبات بجا لیکن تشدد کا راستہ نہیں اپنانا چاہیے: کوآرڈینیٹر وزیراعظم
  • کراچی میں پارکنگ تنازع؛ حکومت کریں لیکن کام تو کسی قانون کے تحت کریں، سندھ ہائیکورٹ
  • اشارے بازیاں، لاٹھی اور بھینس
  • سونم کپور کے یہاں دوسری خوشخبری متوقع، کیا فلموں میں واپسی کھٹائی میں پڑگئی؟