کراچی کے مسائل کے حل کے لیے تحریک شروع کررہے ہیں، آفاق احمد
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین ایم کیو ایم حقیقی نے کہا کہ اگر مافیاز کو کنٹرول نا کیا گیا تو عوام پرچم میں لگے ڈنڈے کا استعمال کریں گے، اگر عوام نے ظلم کے خلاف سر پر کفن باندھ لیا تو کیا ہوگا، حالات اس طرف نا دھکیلیں کہ عوام میرے کنٹرول میں نا رہے، وفاق پاکستان میں تمام قومیتوں کا اتحاد ہوتا ہے، وفاق صرف پنجاب تک نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مہاجر قومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد نے کہا ہے کہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے تحریک شروع کررہے ہیں، اس تحریک کی پہچان سفید کپڑا ہے، ہر شہری اپنے گھر اور گاڑی پر سفید پرچم لہرائے، 12 اپریل کو کراچی میں عوامی طاقت کا مظاہرہ اور اہم اعلان کروں گا۔ اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے آفاق احمد نے کہا کہ آج یوم تاسیس کا دن ہے، یوم تاسیس اپنے عزم کے اعادہ کا دن ہے، ہر کارکن ہر رہنما اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں، ہمیں اپنی شناخت پر فخر ہے، مجھے مہاجر ہونے پر فخر کرتا ہوں، اس دن کو مہاجر نام پر شہید ہونے والے ساتھیوں کے نام کرتا ہوں، ہم نے قوم سے بہت وعدے کئے، سب جانتے ہیں مہاجر قوم کے لئے وعدے سے انحراف کس نے کیا، میرے کسی عمل سے کسی شخص کو تکلیف پہنچی ہے تو دل کی گہرائی سے معافی مانگتا ہوں، کچھ دن پہلے انٹرویو میں کہا تھا کہ میں اب پہلے والا آفاق نہیں ہوں، گزرتے وقت کے ساتھ بہت کچھ سیکھا ہے۔
آفاق احمد نے کہا کہ جو لوگ پیپلز پارٹی و دیگر جماعتوں میں گئے ہیں وہ واپس آئیں، قوم کے لیئے شہر کے لیے متحد ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ میں کہتا ہوں آگے بڑھیں اور ماضی کی باتوں سے آگے چلیں، قوم نے جو کچھ سہا ہے اب اس پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے، تقسیم سے دلبرداشتہ ہوکر دیگر جماعتوں میں جانے والوں سے کہتا ہوں وہاں کی جدوجہد لاحاصل ہے، سب کو دعوت دیتا ہوں کہ واپس آئیں سب کو متحد ہوکر اپنی قوم کے لیے کوشش کرنے کی ضرورت ہے، ہماری کوششوں سے ہیوی ٹریفک نے حفاظتی انتظامات شروع کیے، یہ قوم کی تحریک کا نتیجہ ہے، حادثات کے بعد احتجاج کے نتیجے میں بہت سے معصوم شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔آفاق احمد نے کہا کہ مزاحمت کے نتیجے میں ہی ظلم کو روکا جاسکتا ہے، عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے، عوام کی سہولت کے اداروں کی نجکاری کردی گئی۔
آفاق احمد نے کہا کہ کے الیکٹرک زائد بلنگ کے ذریعے شہریوں کو لوٹتی ہے، کے الیکٹرک کو بغیر منافع کے چلنا چاہیئے تھا، حکومت عوام کو سہولت فراہم کرنے کے بجائے پانچ گنا قیمت بڑھا کر عوام کو نچوڑ رہی ہے، سندھ کے شہری علاقوں میں نوکریوں کے دروازے بند ہیں، اب شہری علاقوں میں تعلیم کے دروازے بھی بند کیے جارہے ہیں، ایم ڈی کیٹ میں اندرون سندھ کے طلبا کو پرچہ لیک کرکے فائدہ پہنچایا گیا۔ آفاق احمد نے کہا کہ تمام مسئلوں کا حل قوم کے اتحاد میں ہے، سسٹم کے نام پر سندھ کے شہری علاقوں کے تمام امور ٹھیکے پر دیئے ہوئے ہیں، مافیاز کسی قانون کے پابند نہیں ہیں، شہر کو مافیاز کے نام پر چلایا جارہا ہے، ٹینکرز مافیا اور ڈمپرز مافیا شہریوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں، بارہ ہزار ٹینکرز شہر میں چل رہے ہیں، شہر میں پانی کی کمی نہیں، لائنوں سے پانی فراہم نہیں کیا جارہا ہے، شہر میں چنگچی بغیر کسی قانون کے مفتوحہ علاقہ سمجھ کر چلتے ہیں، پولیس کی سرپرستی میں شہر بھر میں پتھارے لگائے جارہے ہیں۔
آفاق احمد نے کہا کہ ظلم کے خلاف احتجاج ہونا چاہیئے، اگر پرامن احتجاج کسی کو برا لگتا ہے تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ میرے مسائل حل کرے، ہم غلام بن کر ظلم برداشت نہیں کریں گے، غلامی ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے، شہریوں کو ایک میٹر کپڑا لینے کی ہدایت کی تھی، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ بارہ اپریل کو طاقت کا مظاہرہ کریں گے، ہیوی ٹریفک کے خلاف مزاحمت نے ثابت کیا کہ یہ شہر زندہ لوگوں کا شہر ہے، ایک میٹر کپڑے کا جھنڈا بنائیں، جو گاڑی ہے اس پر لگائیں، شہر کی ہر گاڑی پر سفید پرچم ہونا چاہیئے، میں اور دیگر قائدین بھی شہر میں نکلیں گے، پر امن طاقت کا مظاہرہ مافیاز کو وارننگ ہوگی۔ آفاق احمد نے کہا کہ ان واقعات سے متاثر ہر قوم کا فرد ہے، ہم اس سفید کپڑے کو تحریک میں تبدیل کریں گے، تمام زبانیں بولنے والوں کو دعوت دیتے ہیں، سفید پرچم تلے تمام قومیتوں کو جمع کریں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: آفاق احمد نے کہا کہ شہریوں کو کریں گے قوم کے کے لیے
پڑھیں:
مولانا نے اتحاد کیوں نہیں بنایا
تحریک انصاف کو ایک اور سیاسی دھچکا ملا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت جے یو آئی (ف) نے فی الحال تحریک انصاف کے ساتھ کسی بھی قسم کا سیاسی اتحاد نہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کا گرینڈ اپوزیشن الائنس بنانے کا خواب بھی ٹوٹ گیا۔ اگر دیکھا جائے تو مولانا کے انکار نے تحریک انصاف کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس سے تحریک انصاف کے سیاسی وزن میں کمی ہوگی۔ اور ان کی سیاسی تنہائی میں اضافہ ہوگا۔
تحریک انصاف کے سیاسی نقصان پر بعد میں بات کرتے ہیں، پہلے اس پہلو پر غور کریں کہ اگر گرینڈا پوزیشن الائنس بن جاتا؟ تحریک انصاف اور جے یو آئی (ف) کا سیاسی اتحاد بن جاتا تو کیا ہوتا؟ یہ پاکستان کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی ہوتی۔ پی ٹی آئی کے سیاسی وزن میں بہت اضافہ ہوتا۔ حکومت کے مقابلہ میں اپوزیشن مضبوط ہوتی۔ میں ابھی احتجاجی سیاست کی بات نہیں کر رہا۔ یہ اتحا د نہ بننے سے تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اپوزیشن تقسیم رہے گی۔
آپ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلا س کی مثال سامنے رکھ لیں۔ مولانا اجلا س میں پہنچ گئے۔ حکومت کے مطابق اپوزیشن کی نمائندگی موجود تھی۔ تحریک انصاف کے بائیکاٹ کا وہ اثر نہیں تھا۔ جو مشترکہ بائیکاٹ کا ہو سکتا تھا۔ اسی طرح 26ویں آئینی ترمیم کی ساکھ بھی تب بہتر ہوئی جب اس کو اپوزیشن نے بھی ووٹ ڈالے۔ چاہے مولانا نے ہی ڈالے۔ اس لیے میری رائے میں مولانا کے اتحاد نہ کرنے کے فیصلے کا تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست کو بھی کافی نقصان ہوگا۔
وہ بھی کمزور ہوگی۔ یہ الگ بات ہے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تو پہلے ہی کئی دن سے اس اتحاد کے نہ بننے کا اعلان کر رہے ہیں۔ وہ بار بار بیان دے رہے تھے کہ اگر مولانا نے اتحاد نہیں کرنا تو نہ کریں، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسے بیانات بنتے اتحاد کو بھی توڑ دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف کے اندر ایک دھڑا جہاں یہ اتحاد بنانے کی کوشش کر رہا تھا، وہاں تحریک انصاف کا ہی ایک اور دھڑا روز اس اتحاد کو بننے سے روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اگر اسد قیصر اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے تھے تو گنڈا پور اور عمر ایوب اس کے حق میں نہیں تھے۔
جے یو آئی (ف) کے رہنما کامران مرتضیٰ کا بہت سادہ موقف سامنے آیا ہے۔ان کے مطابق اسد قیصر جو اس اتحاد کے لیے تحریک انصاف کی طرف سے فوکل پرسن مقرر ہو ئے تھے، وہ لندن چلے گئے اور سیاسی طو رپر بھی خاموش ہو گئے۔ جب اعظم سواتی نے اسٹبلشمنٹ سے بات چیت کے بیانات دیے تو کامران مرتضیٰ نے فوری بیان دیا کہ تحریک انصاف سے یہ بات طے ہوئی ہے کہ دونوں جماعتوں میں سے کوئی اکیلا اسٹبلشمنٹ سے بات نہیں کرے گا۔ جب بھی بات کی جائے مشترکہ بات کی جائے گی، آپ دیکھیں ابھی باقاعدہ اتحاد بنا ہی نہیں ہے اور تحریک انصاف کی طرف سے طے شدہ اصولوں سے انحراف شروع ہو گیا۔
جے یو آئی (ف) کے بیانات کہتے رہے اسد قیصر وضاحت کریں۔ ہم صرف ان کی وضاحت قبول کریں گے۔ کامران مرتضیٰ بیان دیتے رہے کہ وضاحت دیں ۔ لیکن اسد قیصر چپ رہے۔ ہ لندن سے واپس بھی نہیں آئے۔ ان کے علاوہ کسی نے (جے یو آئی ف )سے ملاقات کی کوشش بھی نہیں کی۔ ایسے میں آپ دیکھیں جے یو آئی (ف) کے پاس کیا آپشن رہ جاتے ہیں۔ وہ ایسے میں اتحاد نہ بنانے کا اعلان کرنے کے سوا کیا فیصلہ کر سکتے تھے۔
تحریک انصاف کا وہ دھڑا جو اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت چاہتا ہے۔ وہ اس اتحاد کی راہ میں رکاوٹ نظر آرہا تھا۔ وہ دھڑا جو کے پی میں حکومت میں ہے، وہ اس اتحادکے حق میں نظر نہیں آرہا تھا۔ عمر ایوب بھی زیادہ پرجوش نہیں تھے۔ یہ سب سامنے نظر آرہا تھا۔
یہ اتحاد نہ بننے سے تحریک انصاف کا سڑکیں گرم کرنے کا خواب بھی چکنا چورہو گیا ہے۔ تحریک انصاف اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اب اس میں سڑکیں گرم کرنے طاقت نہیں رہی ہے۔ پنجاب میں مزاحمتی طاقت ختم ہو گئی ہے۔
کے پی میں تقسیم بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لیے اگر مولانا ساتھ مل جاتے اور احتجاجی تحریک شروع کی جاتی تواس میں زیادہ طاقت ہوتی۔ مولانا کا ورکر زیادہ طاقتور ہے۔ مولانا کی احتجاجی سیاست کی طاقت آج بھی تحریک انصاف سے زیادہ ہے۔ لیکن یہ بھی تو تسلیم کریں کہ مولانا نے اگر اپنا ورکر باہر نکالنا ہے تو تحریک انصاف سے کچھ طے ہونا ہے۔ جے یو آئی کا ورکرکوئی کرائے کا ورکر تو نہیں جو تحریک انصاف کو کرائے پر دے دیا جائے۔
میں سمجھتا ہوں شاید اسٹبلشمنٹ مولانا کو تو اس اتحاد بنانے سے نہیں روک سکتی تھی لیکن اس لیے تحریک انصاف ہی کو استعمال کر کے اس اتحاد کو بننے سے روکا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے اس اتحاد کے خدو خال بھی واضح نہیں کیے تھے۔
تحریک انصاف نے اگر قائد حزب اختلاف کے عہدے اپنے پاس رکھنے تھے تو کم از کم اتحاد کی سربراہی کی پیشکش مولانا کو کی جانی چاہیے تھی۔ کیا تحریک انصاف چاہتی تھی کہ وہ اپوزیشن کو ملنے والے تمام عہدے بھی اپنے پاس رکھے اور مولانا سڑکیں بھی گرم کر دیں۔ مجھے لگتا ہے کہ تحریک انصاف میں لوگوں کو یہ خوف پڑ گیا کہ اگر مولانا آگئے تو ان کا عہدہ چلا جائے گا۔ کے پی خوف میں آگئے کہ مولانا کی جماعت کو اقتدار میں حصہ دینا ہوگا۔ قومی اسمبلی سینیٹ میں تحریک انصاف کی قیادت اپنے خوف میں پڑ گئی۔ اس لیے تحریک انصاف نے یہ اتحاد نہ بننے کی راہ خود ہموار کی۔
ایک اور بات جو جے یو آئی (ف) کے لیے شدید تشویش کی بات تھی کہ بانی تحریک انصاف نے ابھی تک اس اتحاد کو بنانے اور مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ ان کی پالیسی اور سوچ واضح نہیں تھی۔
بانی تحریک انصاف مولانا کے بارے میں خاموش ہیں۔ وہ نہ حق میں بات کر رہے ہیں نہ خلاف بیان کر رہے ہیں۔ جے یو آئی چاہتی تھی کہ کم از کم اس اتحاد کو بنانے کے لیے بانی کا خط ہی آجائے کہ وہ مولانا کو اتحاد بنانے کی دعوت دیں۔ اس بات کی کیا گارنٹی تھی کل بانی تحریک انصاف کہہ دیں کہ میں نے تو اس اتحاد کی منظوری نہیں دی تھی۔ میں نہیں مانتا۔ ایسا کئی مواقع پر ہو بھی چکا ہے۔ لیکن تحریک انصاف بانی تحریک انصاف کا خط لانے میں بھی ناکام رہی۔ اسد قیصر باہر تھے۔ خط آیا نہیں، کوئی ملنے کو تیار نہیں تھا، پھر اتحاد کیسے بنتا۔