آن لائن جمع کرائے گئے گڈز ڈیکلیریشن میں تبدیلیوں کا آڈٹ شروع
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
ایف بی آر میں امپورٹرز کی جانب سے آن لائن جمع کرائے گئے گڈز ڈیکلریشن فارمز میں بڑے پیمانے پر ردو بدل کا انکشاف ہوا ہے، جس کا نوٹس لیتے ہوئے ایف بی آر نے انکوائری شروع کردی ہے۔
تفصیلات کے مطابق امپورٹرز کی جانب سے 10 ہزار سے زائد گڈز ڈیکلیریشن فارمز میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، اس طرح قومی خزانے کو 14.
جس سے آن لائن گڈز ڈیکلیریشن کی شفافیت کے نظام پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں، کہ ایک بار امپورٹنگ کمپنی، ایجنٹ، امپورٹڈ گڈز اور ڈیوٹی و ٹیکسز سے متعلق تمام معلومات آن لائن جمع کرانے کے بعد دستاویزات میں ردو بدل کیسے ممکن ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کی جانب سے اس بڑے پیمانے پر ہونے والی بے ضابطگیوں کو منظرعام پر لانے کے بعد ایف بی آر نے ٹرانس شپمنٹ گڈز ڈیکلیریشن فارمز کے پوسٹ کلیئرنس آڈٹ کا حکم جاری کردیا ہے۔
یہ ٹیمپرنگ پاکستان سنگل ونڈو کے افسران کی ملی بھگت سے کی گئی ہے، ایکسپریس ٹریبیون کو موصول دستاویزات کے مطابق بدعنوان افسران نے ہارمونائزڈ سسٹم کوڈ کو تبدیل نہیں کیا، بلکہ اشیاء کی تفصیلات اور تعداد کے نمبروں میں چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔
ایف بی آر کے ترجمان نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ایکسپریس ٹریبیون کو اس معاملے کی تصدیق کی اور بتایا کہ ڈرائی پورٹس پر داخل کیے گئے گڈز ڈیکلریشن میں ایچ ایس کوڈز اور مقدار میں تبدیلی کی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ چھیڑ چھاڑ برسوں سے جاری ہے، جس کا پتہ جی ڈیز کے لاگ ایڈٹ سے چلتا ہے، چیئرمین ایف بی آر نے واقعے کی فوری طور پر انکوائری کا حکم دیا، لیکن کچھ افسران جوڑ توڑ میں لگے ہوئے ہیں، اور معاملے کو دبانا چاہتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ دوسرا بڑا اسکینڈل ہے، جس نے کسٹم کو ہلا کر رکھ دیا، اس اسکینڈل کی زد میں پاکستان سنگل ونڈو بھی آرہا ہے، قبل ازیں، کسٹم میں ایک گٹھ جوڑ کا پتہ لگایا گیا تھا، جس میں 78 کرپٹ افسران اور اسمگلرز شامل تھے۔
دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ گڈز ڈیکلریشن میں چھیڑ چھاڑ ایسے امپپورٹرز نے کی ہے، جنھوں نے اصل ڈیکلریشن کراچی پورٹ پر داخل کیا، لیکن ان کی منزل پشاور، ملتان، لاہور اور فیصل آباد تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کیسز کی تعداد ہزاروں میں ہے، اور گہرائی سے تفتیش کی صورت میں یہ گٹھ جوڑ ٹوٹ سکتا ہے۔
ترجمان ایف بی آر نے معاملے کو سسٹم کی خرابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ریونیو پر پڑنے والے اثرات کی تحقیقی کی جائے گی، اسی لیے آڈٹ کا حکم دیا ہے، ایف بی آر ابتدائی طور پر مالی سال 2022، 2023 اور 2024 کا آڈٹ کر رہا ہے، اگر آڈٹ میں منفی نتائج سامنے آئے تو پھر آڈٹ کا دائرہ 2015 تک بڑھا دیا جائے گا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایف بی ا ر نے ا ن لائن کی گئی
پڑھیں:
اسرائیلی فوج کی فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک کرنے پر 2 اعلیٰ افسران گرفتار
اسرائیلی فوجیوں کی فلسطینی قیدی کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور بہیمانہ تشدد کی ویڈیو لیک کرنے کے اسکینڈل پر چیف پراسیکیوٹر اور ملٹری لا آفیسر کو حراست میں لے لیا گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج کے چیف پراسیکیوٹر کرنل ماتن سولوموش پر الزام تھا کہ انھوں نے فوجی قانونی سربراہ میجر جنرل یفعات تومر یروشلمی کا کردار چھپانے میں مدد کی تھی۔
میجر جنرل یفعات تومر یروشلمی نے فلسطینی قیدیوں پر اسرائیلی فوجیوں کے تشدد کی سی سی ٹی وی فوٹیجز کو لیک کرنے کی اجازت دی تھی اور اپنے اس جرم کا اعتراف کرتے ہوئے عہدے سے استعفیٰ بھی دیدیا تھا۔
یہ ویڈیو اسرائیل کے سدے تیمن (Sde Teiman) کے فوجی حراستی مرکز کی تھی جس میں اہلکاروں کو چند قیدیوں پر تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ویڈیو میڈیا کو فراہم کی گئی تھی۔
اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ چیف پراسیکیوٹر سولوموش کو گزشتہ رات مستعفی ہونے والی تومر یروشلمی کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔
عدالت میں پولیس کے نمائندے نے بتایا کہ چیف پراسیکیوٹر سولوموش کو پہلے سے علم تھا کہ ویڈیو لیک کرنے میں ملٹری لا آفیسر تومر یروشلمی ملوث ہیں لیکن انھوں نے اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی۔
جس پر چیف پراسیکیوٹر سولوموش کے وکیل ناتی سمخونی نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل کو اس بات کا علم اپنا بیان جمع کرانے کے کافی بعد میں ہوا تھا۔
وکیل کا مزید کہنا تھا کہ سولوموش اُس ٹیم کا حصہ بھی نہیں تھے جو تومر یروشلمی نے واقعے کی ابتدائی تحقیقات کے لیے بنائی تھی جس میں بریگیڈیئر جنرل گل اسائل اور ڈپٹی اسٹیٹ پراسیکیوٹر آلون آلٹمین شامل تھے۔
اُن کے بقول اس ٹیم نے 25 ستمبر کو اسرائیلی سپریم کورٹ میں ویڈیو لیک سے متعلق رپورٹ جمع کرائی تھی، جس میں تومر یروشلمی کا نام شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اس وقت سولوموش اپنی مدتِ ملازمت مکمل کر کے عہدے سے جا چکے تھے۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ اگر سولوموش کو رہا کیا گیا تو وہ جاری تحقیقات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ عدالت نے ان کی حراست بدھ دوپہر تک بڑھا دی۔
اسی طرح، پولیس نے تومر یروشلمی کی حراست میں پانچ دن کی توسیع کی درخواست کی تھی، تاہم تل ابیب مجسٹریٹ کورٹ کی جج شیلی کوٹین نے اسے تین دن تک محدود کر دیا۔
تومر یروشلمی پر فراڈ، اعتماد شکنی، شواہد میں رکاوٹ ڈالنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات ہیں۔
تومر یروشلمی کے وکیل ڈوری کلاگسبلاد نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ ان کی موکلہ بے گناہ ہیں اور پولیس کے پاس پہلے ہی دیگر مشتبہ افراد سے حاصل کردہ کافی شواہد موجود ہیں۔
پس منظر:
یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب اسرائیلی میڈیا میں سدے تیمن فوجی حراستی مرکز کی وہ ویڈیو لیک ہوئی جس میں مبینہ طور پر اسرائیلی فوجی غزہ کے قیدی کو تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے۔
ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے بعد اسرائیل میں فوجی طرزِ عمل پر سخت تنقید ہوئی، اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے فوجی زیادتیوں کا ثبوت قرار دیا۔
تومر یروشلمی، جو اُس وقت فوجی ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر فائز تھیں، نے بعد ازاں اعتراف کیا کہ ویڈیو انھوں نے خود لیک کی تاکہ فوجی زیادتیوں کو بے نقاب کیا جا سکے۔
جس کے بعد تومر یروشلمی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اب انھیں حراست میں لے لیا گیا ہے۔
پولیس اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا فوج کے دیگر اعلیٰ افسران، خصوصاً سولوموش، نے اس عمل کو چھپانے یا کم کرنے کی کوشش تو نہیں کی۔