پی ایس ایل سے دستبرداری، بوش نے بورڈ کے سامنے وجہ بیان کر دی
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
کراچی:
کوربن بوش نے پاکستانی حکام کے سامنے پی ایس ایل سے دستبرداری کی وجہ بیان کر دی، بورڈ اب وضاحت کا جائزہ لے کر کسی کارروائی کا فیصلہ کرے گا۔
تفصیلات کے مطابق آئندہ ماہ شروع ہونے والی پی ایس ایل 10 کیلیے پشاورزلمی نے جنوبی افریقی آل راؤنڈر کوربن بوش سے معاہدہ کیا تھا، البتہ انھوں نے ایونٹ سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے آئی پی ایل فرنچائز ممبئی انڈینز سے ناطہ جوڑ لیا۔
مزید پڑھیں: پی ایس ایل چھوڑنے پر کوربن بوش کو پی سی بی کا قانونی نوٹس
بھارتی لیگ 22 مارچ سے25 مئی جبکہ پاکستانی ایونٹ 11 اپریل سے 18 مئی تک ہونا ہے، گذشتہ دنوں پی سی بی نے معاہدے کی خلاف ورزی پر بوش کو ایجنٹ کی معرفت سے لیگل نوٹس بھیجنے کا اعلان کیا تھا، ان کے جواب کی روشنی میں کسی حتمی کارروائی کا فیصلہ کیا جاتا۔
ذرائع نے بتایا کہ پیر کو کوربن بوش نے پاکستانی حکام کے سامنے اپنے فیصلے کی وضاحت کر دی، ان کا کہنا تھا کہ وہ پی ایس ایل کی بے توقیری نہیں کر رہے لیکن اپنے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے دستبرداری کا فیصلہ کرنا پڑا۔
ممبئی انڈینز کی نہ صرف بھارت بلکہ دیگر کئی لیگز میں بھی فرنچائز ہیں، اس سے جڑ کر انھیں کیریئر کی لحاظ سے خاصا فائدہ ہوگا۔
مزید پڑھیں: جنوبی افریقی آل راؤنڈر کا پی ایس ایل چھوڑ کر آئی پی ایل جانے کا امکان
پی سی بی اب ان کی وضاحت کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے گا کہ انھوں نے کس حد تک کنٹریکٹ کی خلاف ورزی کی اور ان کیخلاف کیا ایکشن لینا چاہیے۔
بعض حلقوں کے مطابق لیگ کی ساکھ سب سے اہم ہے لہذ کوربن بوش پر آئندہ پی سی ایل میں شرکت پر پابندی عائد کر دینی چاہیے، اس سے دیگر کو بھی سبق ملے گا۔
دوسری جانب چند دیگر لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پابندی کے اعلان سے دیگرکھلاڑیوں کے سامنے اچھا تاثر نہیں جائے گا، کوئی علامتی سزا دے کر معاملہ ختم کرنا مناسب ہوگا، پی سی بی آئندہ چند روز میں کوئی فیصلہ کرے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پی ایس ایل کوربن بوش کے سامنے پی سی بی
پڑھیں:
وقف بل کے حوالے سے مودی حکومت کا اقدام عدالت کی توہین ہے، مسلم پرسنل لاء بورڈ
بورڈ کا دعویٰ ہے کہ اسطرح کا اقدام پورٹل کی بنیاد کے طور پر توہین عدالت کو تشکیل دیتا ہے یعنی وقف قانون سازی کی توثیق عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے 6 جون سے وقف امید پورٹل کو چلانے کے مودی حکومت کے اقدام پر اعتراض جتایا ہے۔ لاء بورڈ نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی بات کہی ہے۔ پریس بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ مودی حکومت کا یہ اقدام غیر قانونی ہے اور یہ توہین عدالت کے مترادف ہے کیونکہ اس کی حمایت کرنے والا قانون وقف ترمیمی ایکٹ فی الحال سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا کہ وہ توہین عدالت کی عرضی داخل کرکے حکومتی اقدام کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی۔ بورڈ کے مطابق تمام مسلم تنظیموں نے اس قانون کی مخالفت کی ہے اور اس پر اپوزیشن جماعتوں، انسانی حقوق کے گروپوں اور اقلیتی برادریوں بشمول سکھ اور عیسائی اداروں کی جانب سے بھی تنقید کی گئی ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے الزام لگایا کہ سپریم کورٹ میں معاملہ زیر التوا ہونے کے باوجود حکومت نے پورٹل کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے ذریعے وقف املاک کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ بورڈ کا دعویٰ ہے کہ اس طرح کا اقدام پورٹل کی بنیاد کے طور پر توہین عدالت کو تشکیل دیتا ہے یعنی وقف قانون سازی کی توثیق عدالت میں زیر سماعت ہے۔ پریس نوٹ میں مسلمانوں اور ریاستی وقف بورڈ سے مزید اپیل کی گئی ہے کہ جب تک سپریم کورٹ اپنا فیصلہ نہیں سناتی اس پورٹل کا استعمال کرنے سے گریز کریں۔ کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت دی تھی کہ اس قانون میں متنازعہ دفعات کو اس وقت تک لاگو نہیں کیا جائے گا جب تک اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہو جاتا لیکن اس دوران حکومت 6 جون سے وقف امید پورٹل شروع کرنے جا رہی ہے، جس کے بارے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سربراہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے پریس نوٹ میں کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے پیش کردہ وقف ترمیمی ایکٹ فی الحال سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
سپریم کورٹ نے صرف دو ہفتے قبل وقف ترمیمی ایکٹ پر روک لگانے کی درخواستوں کے بیچ میں اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ نے عبوری ریلیف پر اپنا حکم محفوظ رکھنے سے پہلے تین دن تک تمام فریقین کے دلائل سنے تھے۔ ترمیمی ایکٹ کو 5 اپریل کو صدارتی منظوری ملی تھی۔ نئے قانون نے وقف املاک کے ضابطے کو حل کرنے کے لئے 1995ء کے وقف ایکٹ میں ترمیم کی جو اسلامی قانون کے تحت خصوصی طور پر مذہبی یا خیراتی مقاصد کے لئے وقف کی گئی ہیں۔ کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ محمد جاوید اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی سمیت ترمیم کے جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کا ایک بیچ سپریم کورٹ میں داخل کیا گیا تھا۔ اس طرح کی مزید درخواستیں آنے والے دنوں میں سامنے آئیں۔ درخواست گزاروں نے عدالت سے رجوع کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف ہے۔ درخواست گزاروں کے مطابق ترامیم مسلمانوں کے مذہبی اوقاف کو منتخب طور پر نشانہ بناتی ہیں اور کمیونٹی کے اپنے مذہبی معاملات کو سنبھالنے کے آئینی طور پر محفوظ حق میں مداخلت کرتی ہیں۔