Daily Ausaf:
2025-04-25@11:53:09 GMT

عالم لاہوت، عالم ناسوت اور عالم ملکوت

اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT

عالم لاہوت، عالم ناسوت اور عالم ملکوت کے موضوع پر قرآن، حدیث اور علما ء خاص طور پر مولانا جلال الدین رومی کے حوالوں سے پیش کیا جارہا ہے۔ یہ تینوں عالم اسلامی تصوف اور فلسفے میں بہت اہمیت رکھتے ہیں اور انہیں مختلف مذاہب اور فلسفوں میں بھی بیان کیا گیا ہے۔
عالم لاہوت (The World of Divinity)عالم لاہوت وہ عالم ہے جو خالصتا الوہیت سے متعلق ہے۔ یہ وہ جہان ہے جہاں پر ذات باری تعالیٰ کی تجلیات کا ظہور ہوتا ہے۔ اس عالم میں کوئی مخلوق نہیں، صرف اللہ کی ذات ہے۔
’’ قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وہی اول ہے، وہی آخر ہے، وہی ظاہر ہے اور وہی باطن ہے، اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ ‘‘ (الحدید: 3)
یہ آیت عالم لاہوت کی طرف اشارہ کرتی ہے، جہاں اللہ کی ذات ہر چیز پر محیط ہے اور وہی ہر چیز کا منبع ہے۔مولانا رومی نے بھی اپنی مثنوی میں عالم لاہوت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ وہ عالم ہے جہاں سے روحانی سفر شروع ہوتا ہے اور انسان اپنی حقیقی ذات کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔
عالم ملکوت (The World of Sovereignty) عالم ملکوت وہ عالم ہے جہاں پر فرشتوں، روحوں اور غیبی مخلوقات کا وجود ہے۔ یہ عالم ناسوت اور لاہوت کے درمیان ایک واسطہ ہے۔ قرآن پاک میں اس عالم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:’’اور اسی طرح ہم نے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت دکھائی تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔‘‘(النعام: 75)
یہ آیت عالم ملکوت کی طرف اشارہ کرتی ہے، جہاں پر اللہ کی قدرت اور اس کے نظام کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔مولانا رومی نے بھی عالم ملکوت کو ایک ایسے عالم کے طور پر بیان کیا ہے جہاں پر روحانی حقائق کا ادراک ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ وہ عالم ہے جہاں پر انسان اپنے اندر کی دنیا کو سمجھنے لگتا ہے اور اللہ کی قدرت کو محسوس کرتا ہے۔
عالم ناسوت (The World of Creation)عالم ناسوت وہ عالم ہے جہاں پر مادی دنیا اور انسان کا وجود ہے۔ یہ وہ جہان ہے جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اپنے حواس سے محسوس کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں اس عالم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے بدلنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘
آل عمران: 190)
یہ آیت عالم ناسوت کی طرف اشارہ کرتی ہے، جہاں پر اللہ کی قدرت کے مظاہر کو دیکھا جاسکتا ہے۔مولانا رومی نے عالم ناسوت کو ایک ایسے عالم کے طور پر بیان کیا ہے جہاں پر انسان اپنی مادی زندگی گزارتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ وہ عالم ہے جہاں پر انسان اپنے نفس کی آزمائش میں مبتلا ہوتا ہے اور اسے چاہیے کہ وہ اس عالم میں رہتے ہوئے بھی اللہ کی طرف متوجہ رہے۔
علماء اور صوفیا نے ان تینوں عالم کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے۔ مولانا جلال الدین رومی نے اپنی مثنوی میں ان تینوں عالم کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کا سفر عالم ناسوت سے شروع ہوتا ہے، پھر وہ عالم ملکوت میں داخل ہوتا ہے اور آخر میں عالم لاہوت تک پہنچتا ہے۔
رومی کے مطابق، انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس کی تربیت کرے اور روحانی ترقی کے ذریعے ان تینوں عالم کو عبور کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سفر صرف اللہ کی مدد اور رہنمائی سے ممکن ہے۔
عالم لاہوت، عالم ملکوت اور عالم ناسوت تینوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور یہ انسان کے روحانی سفر کے تین مراحل ہیں۔ قرآن پاک، احادیث اور علماء خاص طور پر مولانا رومی کے حوالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی مادی زندگی میں رہتے ہوئے بھی اللہ کی طرف متوجہ رہے اور روحانی ترقی کے ذریعے ان تینوں عالم کو عبور کرے۔یہ تینوں عالم انسان کو اس کی حقیقی منزل تک پہنچانے میں مددگار ہیں اور انہیں سمجھنے سے انسان اپنے وجود کے مقصد کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ان تینوں عالم کو کی طرف اشارہ مولانا رومی کیا ہے عالم ناسوت قرآن پاک اللہ کی ہوتا ہے ہیں اور اس عالم ہے اور

پڑھیں:

مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری

ڈاکٹر محمد حمید اللہ  دور جدید میں اسلامی قانون کے تصور جہاد پر کام کرنے والے اولین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اپنی شہرۂ آفاق کتاب The Muslim Conduct of State میں وہ ’جائز جنگوں‘ کی 5 قسمیں ذکر کرتے ہیں:

پہلے سے جاری جنگ کا تسلسل؛

دفاعی جنگیں؛

ہمدردانہ جنگیں؛

سزا کے طور پر لڑی جانے والی جنگیں؛ اور

نظریے کے لیے لڑی جانے والی جنگیں۔

ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی اکثر جنگیں پہلی قسم میں آتی ہیں کیونکہ جب ایک دفعہ مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو پھر صلح حدیبیہ تک ان کے درمیان کوئی امن کا معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق دفاعی جنگیں ہیں اس صورت میں لڑی جاتی ہیں جب یا تو دشمن نے مسلمانوں کے علاقے پر باقاعدہ حملہ کیا ہو یا اس نے ابھی حملہ تو نہ کیا ہو لیکن اس کا رویہ ’ناقابل برداشت‘ ہوچکا ہو۔  گویا ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق ’پیش بندی کا اقدام‘ (Pre-emptive Strike) دفاع میں شامل ہے اور غزوۂ بنی مصطلق، غزوۂ خیبر اور غزوۂ حنین کو اس کی مثال میں ذکر کرتے ہیں۔ اکثر مسلمان اہل علم کے نزدیک رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں پر جنگ مشرکین کی طرف سے مسلط کی گئی تھی، اس لیے وہ رسول اللہ ﷺ کی اکثر جنگوں کو دفاعی قرار دیتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر ، ڈاکٹر حمید اللہ کی ذکر کردہ پہلی 2 قسمیں اکثر اہل علم کے نزدیک ایک ہی قسم یعنی ’دفاع‘ ہے ۔

ریاست کا دفاع یا امت کا دفاع؟

ہمدردانہ جنگوں سے ڈاکٹر حمید اللہ  کی مراد وہ جنگیں ہیں جو مسلمانوں کے علاقے سے باہر مقیم مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ بہت سے اہل علم نے ان جنگوں کو بھی دفاع میں شامل سمجھا ہے۔ مثال کے طور پر شام سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے ’آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی‘ میں یہ موقف اختیار کیا ہے۔ مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے بھی اپنی مشہور کتاب ’الجہاد فی الاسلام‘ میں ایسی جنگ کو ’مدافعانہ جہاد‘ کی ایک قسم کے طور پر ذکر کیا ہے۔ دفاع کے تصور پر اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ دفاع سے ڈاکٹر حمید اللہ کی مراد ’ریاست کا دفاع‘  ہے، جبکہ دیگر اہلِ علم کی مراد ’امت کا دفاع‘ ہے۔ معاصر دنیا میں مسلمان اصحابِ علم کے لیے سب سے بڑی الجھن یہی ہے کہ ریاست اور امت کے تصورات کو ایک دوسرے کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کیا جائے؟

فقہائے کرام نے صراحت کی ہے کہ حملے کی زد میں آئے ہوئے علاقے کے لوگ اگر حملے کے خلاف دفاع نہ کرسکتے ہوں تو ان کے مجاور علاقوں پر یہ فریضہ عائد ہوگا۔ پھر اگر وہ بھی دفاع کی اہلیت نہ رکھتے ہوں یا وہ فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی کریں تو ان کے بعد کے علاقوں پر فریضہ عائد ہوگا، یہاں تک کہ یہ فریضہ دنیا کے تمام مسلمانوں پر عائد ہوجائے گا۔ تاہم معاصر بین الاقوامی نظام چونکہ ’قومی ریاست‘ کے تصور پر قائم ہے، اس لیے امت کا تصور اس نظام کی بنیاد سے ہی متصادم ہے۔ آج جب امت 50 سے زائد ریاستوں میں بٹ گئی ہے، تو مظلوم مسلمانوں کے دفاع کا دینی فریضہ کیسے ادا کیا جائے؟

مظلوم کی مدد کےلیے جنگ

مظلوم کی مدد کے لیے کون سے طریقے اختیار کیے جائیں، اس کا انحصار حالات پر ہے۔ بعض اوقات محض اخلاقی مدد (مثلاً حملے کو ناجائز قرار دینا، حملے کی زد میں آئے ہوئے لوگوں کو مظلوم قرار دینا، دفاع کا فریضہ ادا کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرنا وغیرہ) بھی کافی ہوتا ہے؛ اور بعض اوقات اس کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سفارتی مدد (جیسے بین الاقوامی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرنا، حملہ آوروں پر سیاسی دباؤ ڈالنا، اسے بین الاقوامی برادری میں تنہا کرنا وغیرہ ) بھی ضروری ہوتا ہے اور اس کے بغیر محض اخلاقی مدد سے کام نہیں چلتا۔ تاہم بعض حالات میں سفارتی اور سیاسی مدد بھی کافی نہیں ہوتی، بلکہ عملی مدد (جیسے مظلوموں تک ادویات کی رسائی، مہاجرین کی آباد کاری کے لیے کوشش کرنا، مزاحمت کرنے والوں کی مالی امداد، انھیں پناہ گاہیں فراہم کرنا وغیرہ) بھی لازم ہوجاتی ہے؛ اور بعض صورتوں میں باقاعدہ جنگ میں شرکت بھی ضروری ہوجاتی ہے۔ مختصراً یہ کہ مدد کی حیثیت فرض کفایہ کی ہو جاتی ہے اور  مدد کی مختلف صورتوں کو ضرورت کے مطابق اختیار کیاجائے گا۔

رہنما اصول اس سلسلے میں یہ ہے کہ کسی طور ظالموں کو واپس دھکیلنا اور مظلوموں کو بچانا ہے  اور  اس کے لیے جو اقدام ضروری ہو، وہ اٹھایاجائے گا۔ اگر حملے کا جواب بغیر فوجی مدد کے ممکن نہ ہو، تو محض اخلاقی یا سفارتی بلکہ مالی مدد سے بھی اعانت کا فرض ادا نہیں ہوگا۔ قرآن کے الفاظ اس معاملے میں بالکل واضح ہیں کہ مظلوموں کی مدد کے لیے فوجی طاقت استعمال کرنا بعض اوقات واجب ہوجاتا ہے اور یہ واجب صرف فوجی اعانت سے ہی ادا ہوتا ہے:

وَمَا لَكُمۡ لَا تُقَٰتِلُونَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱلۡمُسۡتَضۡعَفِينَ مِنَ ٱلرِّجَالِ وَٱلنِّسَآءِ وَٱلۡوِلۡدَٰنِ ٱلَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَآ أَخۡرِجۡنَا مِنۡ هَٰذِهِ ٱلۡقَرۡيَةِ ٱلظَّالِمِ أَهۡلُهَا وَٱجۡعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيّٗا وَٱجۡعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا (سورۃ النساء ، آیت75)

(تمھیں ہوا کیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑرہے جو کمزور پاکر دبالیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی جانب سے ہمارا کوئی حامی اور مددگار پیدا کردے۔)

’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت‘

بعض ریاستوں اور ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اگر کسی ریاست میں انسانوں کے ایک بڑے گروہ کا قتل عام ہورہا ہو،  یا ان پر مظالم ڈھائے جارہے ہوں، تو ان کی مدد کے لیے کوئی دوسری ریاست مسلح کاروائی کرسکتی ہے۔ اسے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔ مثال کے طو رپر 1998ء میں نیٹو نے سربیا پر جو بمباری کی اس کے لیے ایک جواز یہی ذکر کیا جاتا رہا۔ تاہم اکثر ریاستوں اور ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اس قسم کی کاروائی اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کرے، یا اس کی اجازت سے کوئی ریاست یا تنظیم کرے، تو وہ یقیناً جائز ہوگی مگر کوئی ریاست یا تنظیم اپنی جانب سے اس قسم کی کارروائی نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ریاست نے بھی اس قسم کی کاروائی میں تنہا  ’انسانی ہمدردی‘  کو ہی بنیاد نہیں بنایا، بلکہ دیگر جواز بھی ساتھ ساتھ فراہم کرنے کی کوشش کی، جیسے نیٹو کے رکن ممالک نے ایک جواز یہ پیش کیا تھا (جو قانوناً غلط تھا) کہ وہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے یہ کارروائی کررہے ہیں)۔

مسلمان ریاستوں کے درمیان اجتماعی دفاعی معاہدہ

ایک حل اس مسئلے کا یہ ہے کہ مسلمان ریاستیں آپس میں دفاعی معاہدات کرلیں اور یوں ان میں کسی ایک پر حملہ سب پر حملہ متصور ہو۔ اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ 51 کے تحت اس انتظام کی گنجائش ہے اور ’معاہدۂ شمالی اوقیانوس کی تنظیم‘ (NATO) اس انتظام کی کامیابی کی سب سے واضح دلیل ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے بھی ’نکاراگوا بنام امریکا‘ مقدمے کے فیصلے میں اس طریق کار کو جائز ٹھہرایا ہے۔ اس اجتماعی حق دفاع کے متعلق ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں قرب و بعد کی بات کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ کوئی سے دو یا زائد ممالک، جو مشترکہ مفاد رکھتے ہوں، آپس میں دفاعی معاہدہ کرکے اجتماعی حق دفاع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے درمیان بحر شمالی اوقیانوس حائل ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس طریق کار سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

امت مسلمہ کے اجتماعی حق دفاع کے متعلق یہ بات اہم ہے کہ اس کی بنیاد کسی دفاعی معاہدے پر نہیں، بلکہ امت کے تصور پر ہے اور یہ امت پر اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے عائد کردہ فریضہ ہے۔ اس لیے اگر دو اسلامی ممالک میں دفاعی معاہدہ نہ بھی ہو، تو ان پر لازم ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں۔ تاہم موجودہ بین الاقوامی نظام اور قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر مسلمان ممالک آپس میں دفاعی معاہدات بھی کرلیں، تو وہ بہت سی پیچیدگیوں سے بچیں گے۔

تاہم ’اجتماعی حق دفاع‘ کے طریق کار کا فائدہ صرف ’ریاستیں‘  ہی اٹھاسکتی ہیں، جبکہ امت مسلمہ صرف مسلم ریاستوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ کئی ریاستوں میں مسلمان بطور اقلیت رہ رہے ہیں۔ نیز بعض علاقے ایسے ہیں جن پر طویل مدت سے کسی دوسری ریاست نے غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے۔ غزہ اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقے اس کی مثال ہیں۔ ان علاقوں میں آج جب مسلمان ظلم کا شکار ہیں،  تو ان کے دفاع کا فریضہ کیسے انجام دیا جائے؟ کیا ’اسلامی تعاون کی تنظیم‘ کے رکن 57 مسلمان ممالک صرف فلسطین کے دفاع کے لیے ایسا معاہدہ نہیں کرسکتے؟ واضح رہے کہ یہ تنظیم وجود میں ہی تب آئی تھی جب القدس پر اسرائیل کے قبضے کے بعد مسجد اقصیٰ کو جلانے کی مذموم کوشش کی گئی اور اس تنظیم کے منشور میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ اس تنظیم کا ہیڈکوراٹر عارضی طور پر جدہ میں ہوگا اور القدس کی آزادی کے بعد وہیں اس کا ہیڈ کوارٹر ہوگا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • چین، شینزو -20 کے تینوں خلاباز کامیابی کے ساتھ چینی خلائی اسٹیشن میں داخل
  • سرگودھا: گھر میں کھڑے رکشے  میں دھماکا، 5 افراد زخمی
  • اقوام عالم کے درمیان تعاون، باہمی احترام کے فروغ کیلئے پرعزم ہیں: یوسف رضا گیلانی
  • چین، شینزو-20 انسان بردار خلائی جہاز کی کامیاب لانچنگ
  • دعا کی طاقت… مذہبی، روحانی اور سائنسی نقطہ نظر
  • بلوچستان کی قابل فخر آئی ٹی یونیورسٹی جہاں طلبہ وطالبات پُرامن ماحول تعلیم حاصل کر رہے ہیں
  • بھارت کے بے بنیاد الزامات کی مذمت کرتے ہیں، رانا احسان افضل
  • پاکستانی خلابازوں کے انتخاب کا عمل جاری ہے، چائنہ انسان بردار خلائی ادارہ
  • مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری
  • عمان کے سلطان اور ولادیمیر پیوٹن کی ملاقات، ایرانی جوہری مذاکرات پر تبادلہ خیال