عالم لاہوت، عالم ناسوت اور عالم ملکوت
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
عالم لاہوت، عالم ناسوت اور عالم ملکوت کے موضوع پر قرآن، حدیث اور علما ء خاص طور پر مولانا جلال الدین رومی کے حوالوں سے پیش کیا جارہا ہے۔ یہ تینوں عالم اسلامی تصوف اور فلسفے میں بہت اہمیت رکھتے ہیں اور انہیں مختلف مذاہب اور فلسفوں میں بھی بیان کیا گیا ہے۔
عالم لاہوت (The World of Divinity)عالم لاہوت وہ عالم ہے جو خالصتا الوہیت سے متعلق ہے۔ یہ وہ جہان ہے جہاں پر ذات باری تعالیٰ کی تجلیات کا ظہور ہوتا ہے۔ اس عالم میں کوئی مخلوق نہیں، صرف اللہ کی ذات ہے۔
’’ قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وہی اول ہے، وہی آخر ہے، وہی ظاہر ہے اور وہی باطن ہے، اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ ‘‘ (الحدید: 3)
یہ آیت عالم لاہوت کی طرف اشارہ کرتی ہے، جہاں اللہ کی ذات ہر چیز پر محیط ہے اور وہی ہر چیز کا منبع ہے۔مولانا رومی نے بھی اپنی مثنوی میں عالم لاہوت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ وہ عالم ہے جہاں سے روحانی سفر شروع ہوتا ہے اور انسان اپنی حقیقی ذات کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔
عالم ملکوت (The World of Sovereignty) عالم ملکوت وہ عالم ہے جہاں پر فرشتوں، روحوں اور غیبی مخلوقات کا وجود ہے۔ یہ عالم ناسوت اور لاہوت کے درمیان ایک واسطہ ہے۔ قرآن پاک میں اس عالم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:’’اور اسی طرح ہم نے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت دکھائی تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔‘‘(النعام: 75)
یہ آیت عالم ملکوت کی طرف اشارہ کرتی ہے، جہاں پر اللہ کی قدرت اور اس کے نظام کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔مولانا رومی نے بھی عالم ملکوت کو ایک ایسے عالم کے طور پر بیان کیا ہے جہاں پر روحانی حقائق کا ادراک ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ وہ عالم ہے جہاں پر انسان اپنے اندر کی دنیا کو سمجھنے لگتا ہے اور اللہ کی قدرت کو محسوس کرتا ہے۔
عالم ناسوت (The World of Creation)عالم ناسوت وہ عالم ہے جہاں پر مادی دنیا اور انسان کا وجود ہے۔ یہ وہ جہان ہے جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اپنے حواس سے محسوس کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں اس عالم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے بدلنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘
آل عمران: 190)
یہ آیت عالم ناسوت کی طرف اشارہ کرتی ہے، جہاں پر اللہ کی قدرت کے مظاہر کو دیکھا جاسکتا ہے۔مولانا رومی نے عالم ناسوت کو ایک ایسے عالم کے طور پر بیان کیا ہے جہاں پر انسان اپنی مادی زندگی گزارتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ وہ عالم ہے جہاں پر انسان اپنے نفس کی آزمائش میں مبتلا ہوتا ہے اور اسے چاہیے کہ وہ اس عالم میں رہتے ہوئے بھی اللہ کی طرف متوجہ رہے۔
علماء اور صوفیا نے ان تینوں عالم کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے۔ مولانا جلال الدین رومی نے اپنی مثنوی میں ان تینوں عالم کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کا سفر عالم ناسوت سے شروع ہوتا ہے، پھر وہ عالم ملکوت میں داخل ہوتا ہے اور آخر میں عالم لاہوت تک پہنچتا ہے۔
رومی کے مطابق، انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس کی تربیت کرے اور روحانی ترقی کے ذریعے ان تینوں عالم کو عبور کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سفر صرف اللہ کی مدد اور رہنمائی سے ممکن ہے۔
عالم لاہوت، عالم ملکوت اور عالم ناسوت تینوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور یہ انسان کے روحانی سفر کے تین مراحل ہیں۔ قرآن پاک، احادیث اور علماء خاص طور پر مولانا رومی کے حوالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی مادی زندگی میں رہتے ہوئے بھی اللہ کی طرف متوجہ رہے اور روحانی ترقی کے ذریعے ان تینوں عالم کو عبور کرے۔یہ تینوں عالم انسان کو اس کی حقیقی منزل تک پہنچانے میں مددگار ہیں اور انہیں سمجھنے سے انسان اپنے وجود کے مقصد کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ان تینوں عالم کو کی طرف اشارہ مولانا رومی کیا ہے عالم ناسوت قرآن پاک اللہ کی ہوتا ہے ہیں اور اس عالم ہے اور
پڑھیں:
کرایہ
میں نے پانی دیا اور انھوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ پھیرا‘ ان کی آنکھوں میں پدرانہ شفقت تھی‘ وہ مجھے اس وقت پورے جنگل کے والد لگ رہے تھے‘ ایک ایسا والد جو شام کے وقت اپنے پورے کنبے کو دیکھتا ہے تو اس کی گردن فخر سے تن جاتی ہے۔
ان کے چہرے پر بھی تفاخر تھا‘ وہ تمکنت سے دائیں بائیں دیکھ رہے تھے اور میں ہاتھ میں بالٹی اٹھا کر انھیں تک رہا تھا‘ جنگل بہار کی پہلی بارش سے مہک رہا تھا‘ میں نے بالٹی نیچے رکھی اور ایک لمبی سانس لی‘ وہ مجھے سانس لیتے دیکھ کر خوش ہو گئے‘ میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا ’’زبردست‘ شاباش‘ جب بھی خوش ہو‘ جب بھی اداس ہو‘ ایک لمبی‘ جی بھر کر سانس لو اور اللہ کا شکر ادا کرو‘ یہ سانس اللہ کا سب سے بڑا انعام ہے‘ میں آج تمہیں دعا کی قبولیت کی دو گھڑیاں بتاتا ہوں‘ آپ جی بھر کر لمبی سانس کھینچو‘ اتنی لمبی کہ مزید سانس کی گنجائش نہ رہے‘ اس کے بعد سانس کو ہولڈ کرو اور سانس خارج کرنے سے پہلے دعا کرو‘ یہ دعا ضرور قبول ہو گی‘ آپ نے اکثر سنا ہو گا‘ انسان کو مظلوم اور بلی کی بددعا سے بچنا چاہیے‘ یہ بات درست ہے کیوںکہ مظلوم انسان اور بلی ہمیشہ ’’ہوکے‘‘ کے درمیان بددعا دیتے ہیں۔
یہ سانس کھینچتے ہیں اور بددعا دیتے ہیں‘ ہندو جوگی اکثر اپنے بالکوں سے کہتے ہیں‘ تم روتے ہوئے بچے اور بین کرتی عورت سے بچو‘ یہ ہمیشہ تیز تیز سانس کے درمیان بددعائیں دیتے ہیں اور یہ قبولیت کا وقت ہوتا ہے اور دوسرا جب بچہ پہلی چیخ مارتا ہے تو وہ دعا کی قبولیت کا لمحہ ہوتا ہے‘ ہم کیسے ہیں‘ ہم اچھے ہیں یا برے اس کا فیصلہ عموماً ہماری ماؤں کی وہ دعائیں کرتی ہیں جو اس وقت ان کے دل‘ ان کی زبان پر آتی ہیں‘ جب ہم دنیا میں آ کر پہلی چیخ مارتے ہیں‘ یہ ہماری زندگی کا حساس ترین وقت ہوتا ہے‘ ہماری ماں اس وقت ہمارے بارے میں جو سوچتی ہے‘ ہم زندگی میں وہ بن جاتے ہیں چناںچہ ماؤں کو زچگی کے دوران اپنے بچے کے بارے میں ہمیشہ اچھا سوچنا چاہیے اور منہ سے اچھے الفاظ نکالنے چاہییں‘ وہ رکے‘ لمبا سانس لیا‘ شکر الحمد للہ کہا اور آہستہ آواز میں بولے ’’میں جب بچہ تھا اور اپنے شیخ کی خدمت میں مصروف رہتا تھا تو میرے شیخ اکثر اوقات اپنے ان مریدوں کے گھروں میں ڈیرے ڈال لیتے تھے۔
جہاں بچے کی امید ہوتی تھی‘ وہ عموماً زچگی کی راتوں میں ساری رات نوافل پڑھتے تھے‘ میں اکثر دیکھتا تھا‘ ہمیں جب زنان خانے سے نومولود کے چیخنے کی آواز آتی تھی تو میرے شیخ پر وجد طاری ہو جاتا تھا اور وہ زور زور سے فرماتے تھے‘ یا اللہ مجھے روحوں کا علم دے دے‘ یا اللہ مجھے روحوں کے علم سے نواز دے‘ وہ یہ دعا اس وقت تک کرتے رہتے تھے جب تک بچے کی چیخیں بند نہیں ہو جاتی تھیں‘ وہ اپنی مریدنیوں سے بھی فرماتے تھے‘ بیٹا تمہارے بچوں کا مقدر تمہاری زبان پر لکھا ہے‘ تم جب انھیں جنم دیتی ہو تو اس وقت تم ان کے لیے جو مانگتی ہو‘ اللہ وہ ان کے نصیب میں لکھ دیتا ہے‘ ‘ وہ سانس لینے کے لیے رکے اور پھر فرمایا ’’آپ نے اکثر بزرگوں سے سنا ہو گا۔
انسان اللہ تعالیٰ سے رو کر جو کچھ مانگتا ہے اللہ اسے دے دیتا ہے‘ یہ بات درست ہے‘ اللہ تعالیٰ واقعی روتے ہوئے انسان کی دعا سنتا ہے لیکن ہم نے کبھی اس کی وجہ تلاش کی؟ نہیں تلاش کی‘ اس کی وجہ بہت سیدھی سادی ہے‘ ہم انسان روتے وقت تیز تیز سانس لیتے ہیں‘ ان سانسوں کے درمیان ہمیں ’’ہوکا‘‘ لگ جاتا ہے اور اس ’’ہوکے‘‘ کے درمیان بولے ہوئے لفظ دعا یا بددعا بن جاتے ہیں‘‘ وہ رکے اور پھر بولے ’’ میرا مشورہ ہے‘ دن میں کم از کم دس پندرہ مرتبہ پیٹ بھر کر سانس لیا کرو اور اس دوران توبہ اور شکر ادا کیا کرو‘ یہ دونوں افضل ترین عبادتیں بھی ہیں اور شان دار دعائیں بھی‘‘ وہ رکے‘ لمبی سانس لی اور آگے چل پڑے۔
ہماری اگلی منزل پانی کی چھوٹی سی نالی تھی‘ وہ نالی کے کنارے بیٹھے‘تھیلے سے کھرپہ نکالا اور نالی کو بڑا کرنے لگے‘ میں بھی ان کے ساتھ لگ گیا‘ ہم نالی کو پانی کے بہاؤ کے رخ کھلا کرتے رہے‘ نالی چیڑھ کے درختوں کے قریب پہنچ کر ختم ہو گئی‘ وہ وہاں رکے‘ کولہوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھے اور دائیں بائیں دیکھنے لگے‘ چیڑھ کے بڑے درخت کے قریب سے پانی کی ایک چھوٹی سی خشک لکیر جھاڑیوں کی طرف جا رہی تھی‘ وہ اس لکیر پر چلنے لگے‘ لکیر جھاڑیوں کے قریب پہنچ کر رک گئی‘ وہ نیچے بیٹھے‘ کھرپے سے جنگلی گھاس کو دائیں بائیں کیا اور قہقہہ لگا کر بولے ’’اوئے تم یہاں چھپے بیٹھے ہو‘‘ میں نے نیچے جھک کر دیکھا‘ وہاں ایک چھوٹا سا پودا تھا‘ وہ مسکرا کر بولے ’’جنگلوں میں چیڑھوں کو پانی کی ضرورت نہیں ہوا کرتی‘ پانی کی یہ نالیاں ان ننھے اور کمزور پودوں کے لیے بنتی ہیں۔
میں نے نالی کو چیڑھوں پر ختم ہوتے دیکھا تو مجھے محسوس ہوا‘ پانی کا یہ عمل صرف یہاں ختم نہیں ہو سکتا‘ کوئی اور بھی ہے جسے بہار کے اس موسم میں پانی کی ضرورت ہے اور ہم نے اس بے چارے کو تلاش کر لیا‘ آؤ ہم اب اس کے مقدر کے پانی کا بندوبست کرتے ہیں‘‘ وہ اس کے بعد اٹھے اور کھرپے سے پانی کی خشک لکیر گہری کرنے لگے‘ میں بھی ان کے ساتھ لگ گیا‘ ہمیں اس کام میں بیس منٹ لگ گئے‘ ہم اٹھے تو گھاس میں دبے اس پودے کے لیے پانی کی باقاعدہ نالی بن چکی تھی‘ ہم نے اپنے تھیلے اٹھائے اور واپسی کا سفر شروع کر دیا‘ میں نے راستے میں ان سے پوچھا ’’ہم پچھلے پندرہ دنوں سے یہ مشقت کر رہے ہیں۔
ہم نے دو کنوئیں صاف کیے‘ ہم مٹی نکالنے کے لیے خود کنوئیں میں اترے‘ ہم نے مارگلہ کے کرشنگ یونٹس کے خلاف درخواست بھی دی‘ ہم نے تین ملزموں کی ضمانت بھی دی‘ ہم نے ایک گاؤں میں پانی کی پائپ لائن بچھائی‘ ہم نے ایک اسکول میں استاد کا بندوبست کیا‘ ہم نے پندرہ دنوں میں چار سو پودے لگائے‘ یہ کام اچھے ہیں‘ یہ چیریٹی ہیں اور چیریٹی ہمیشہ اچھی ہوتی ہے لیکن اس کا روحانیت کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ روح کا کھیل تو مختلف ہوتا ہے اوریہ چیریٹی ورک اس میں کسی جگہ ’’فٹ‘‘ نہیں ہوتا‘ وہ مسکرائے‘ رکے اور ایک چٹان پر بیٹھ گئے‘ ہمارے درمیان چند لمحے خاموشی رہی اور پھر وہ آہستہ آہستہ بولے ’’آپ فرض کرو‘ آپ کسی مکان میں کرایہ دار ہیں‘ آپ مکان کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں‘ آپ یہ بھی چاہتے ہیں‘ آپ ٹونٹی کھولیں تو پانی آ جائے‘ آپ چولہے کی ناب گھمائیں تو گیس آ جائے‘ آپ بٹن دبائیں تو بجلی آن ہو جائے اور آپ چٹکی گھمائیں تو پنکھا چلنے لگے اور آپ جب چاہیں آپ کو گرم پانی مل جائے اور جب خواہش کریں‘ آپ ٹھنڈا پانی لے لیں تو آپ کو کیا کرنا ہو گا؟‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔
میں نے چند لمحے سوچا اور جواب دیا ’’مجھے ادائیگی کرنا پڑے گی‘‘ انھوں نے ہاں میں سر ہلایا اور بولے ’’بالکل درست‘ آپ کو پے کرنا پڑے گا‘ ہم دنیا کی تمام سہولتیں رینٹ پر لیتے ہیں‘ ہمیں بجلی‘ پانی اور گیس رینٹ پر ملتی ہیں‘ ہمارے پاس اگر گھر نہیں تو ہم یہ بھی رینٹ پر حاصل کرتے ہیں‘ ہمیں ان سب کا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے‘ ہم جس دن یہ رینٹ ادا نہیں کرتے ہیں‘ ہمیں اس مہینے‘ اس دن یہ سہولتیں نہیں ملتیں‘ ہمیں اس زمین پر صرف ان سہولتوں کا رینٹ ادا نہیں کرنا پڑتا بلکہ ہم اپنی زندگی کا رینٹ بھی ادا کرتے ہیں‘ ہم اس زمین پر کرائے دار ہیں‘ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ زندگی رینٹ پر دی ہے‘ ہم اگر زندگی کی تمام نعمتوں کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان کا کرایہ ادا کرنا ہو گا‘ سورج ہماری زمین کی سب سے بڑی نعمت ہے‘ یہ نہ ہوتا تو زمین پر زندگی نہ ہوتی‘ آکسیجن دوسری بڑی نعمت ہے۔
پانی تیسری نعمت ہے‘ زمین پر بکھرا سبزہ‘ کروٹ کروٹ بدلتی زمین اور چرند پرند اور آبی مخلوقات چوتھی‘ پانچویں اور چھٹی نعمتیں ہیں اور ان سب سے بڑھ کر ہماری زندگی‘ یہ رب العزت کا سب سے بڑا تحفہ ہے‘ انسانی وجود 3800 نعمتوں کا مجموعہ ہے اور ان میں سے ہر نعمت اتنی ہی اہم ہے جتنی اہم ہماری بینائی‘ ہماری قوت سماعت اور ہماری چکھنے کی صلاحیت ہے‘ قدرت نے یہ تمام چیزیں‘ یہ ساری نعمتیں ہمیں کرائے پر دے رکھی ہیں‘ ہم اگر ان نعمتوں کا رینٹ ادا نہیں کریں گے تو کیا ہو گا؟ ہمیں ان نعمتوں کی سپلائی بند ہو جائے گی یا پھر ان کی راشننگ ہو جائے گی اور اگر یہ ہو جائے گا تو پھر ہمارا اطمینان قلب کم ہو جائے گا۔
وہ ذرا سا رک کر بولے ’’روحانیت اطمینان قلب کا نام ہے‘ یہ مضطرب دلوں میں بھڑکی آگ کو ٹھنڈا کرتی ہے اور یہ صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو اپنا رینٹ وقت پر ادا کرتے ہیں‘ جو قدرت کی دی نعمتوں کا کرایہ بروقت دیتے ہیں‘‘ میں نے بے چینی سے کروٹ بدلی اور عرض کیا ’’جناب یہ کرایہ کیا ہے؟‘‘ وہ مسکرائے اور فرمایا ’’زبان پر شکر اور ہاتھ سے فلاح‘‘ وہ ہنسے اور بولے ’’ہم کوشش کریں‘ ہم دوسروں کی دھوپ کے راستے میں کھڑی رکاوٹیں ہٹائیں‘ ہم آکسیجن میں اضافہ کریں‘ پانی کے راستے بنائیں اور اپنے ہاتھوں سے درخت لگا کر زندگی کے سر پر پیار کریں‘ یہ زندگی کا ہمارے ذمے کرایہ ہے‘ ہم جوں جوں یہ کرایہ ادا کرتے جائیں گے‘ ہمارے اطمینان قلب میں اضافہ ہو تا جائے گا اور یہ اطمینان قلب ہمیں روحانیت کے دروازے تک لے آئے گا‘‘۔
وہ اٹھے‘ لمبا سانس لیا‘ شکر ادا کیا اور فرمایا ’’چلو ہم اپنے ذمے کا رینٹ ادا کریں‘ زبان سے اللہ کا شکر ادا کریں اور ہاتھوں سے دوسروں کے راستے کی رکاوٹیں دورکریں‘‘ میں اٹھا اور ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔